Yaar e Man Maseeha 35th Episode

398 21 15
                                    

زارم نے موبائل فون نکالتے ہوئے فوراََ عباس صاحب کو کال ملائی تھی وہ اس وقت ہسپتال کے کوریڈور میں کھڑا دم سادھے موبائل کے اسپیکر سے نکلتی بیلز کی آواز کو سن رہا تھا لمحہ لمحہ اُس کی اذیت بڑھتی جا رہی تھی۔

دوسری طرف سے آخر کال پک کر لی گئی تھی عباس صاحب کال اُٹھانے کے بعد اس پر سلامتی بھیج رہے تھے لیکن اس وقت اُسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا پھر وہ کیسے اُن کی سلامتی کا جواب واپس سلامتی سے دیتا ۔

" مر۔۔۔ مر مرحہ ٹھیک ہے ۔۔۔!" اس کے لبوں سے مرحہ کا نام ٹوٹ ٹوٹ کر ادا ہوا تھا، دوسری طرف عباس صاحب زارم کی آواز سے اُس کی پریشانی سمجھ گئے تھے یقینا وہ ہسپتال پہنچ گیا تھا۔

" ہاں بیٹا وہ ٹھیک ہے ہم اُسے گھر پر ہی لے کر آ رہے ہیں۔۔۔۔۔ جب نمروز نے کال کرکے تمہارے آنے کی بابت بتایا تب تک ہم نکل چکے تھے، آجاو بیٹا تم بھی گھر واپس"

وہ کچھ بھی بول نہیں پا رہا تھا اُس کی آواز اس کا بالکل ساتھ نہیں دے رہی تھی وہ مرحہ کی آواز سننا چاہتا تھا شدت سے پورے دل کی گہرائیوں سے مرحہ کی آواز سننے کا تمنائی تھا، لیکن اس نے الوداعی کلمات کے ساتھ رابطہ منقطع کر دیا تھا۔

زارم کے کان ترس گئے تھے مرحہ کی آواز سننے کو لیکن جانتا تھا اگر وہ ابھی فون پر اُس سے بات کرتا تو اُسے سنبھال نہیں سکتا تھا مرحہ روتی، بہت روتی اس کی آواز سن کر، وہ جو خود کو سمیٹے بیٹھی تھی بکھر جاتی۔

مرحہ کو سنبھالنے کے لیے پہلے اُس کا خود اپنے ہوش و حواس کو سلامت رکھنا ضروری تھا وہ کیسے دیکھے گا اُسے بکھری ہوئی حالت میں، کیا کرے گا وہ جب وہ اس کی گود سونی دیکھے گا۔

اُس کی بکھری حالت کا سوچ کر ہی زارم کو اپنے دل میں درد کی ٹیسیں سی اُٹھتی محسوس ہو رہی تھیں۔
بہت تیزی سے ڈرائیو کر کے وہ گھر پہنچا تھا پورچ میں گاڑی کھڑی کر کے جب وہ باہر نکلا تو اُس کو اپنے قدم من من بھر کے محسوس ہو رہے تھے،

جب وہ گھر کے اندر داخل ہوا تو سب سے پہلے اس کا سامنا عباس صاحب اور شائستہ بیگم سے ہوا جو کے اس کے اور مرحہ کے کمرے سے باہر نکل رہے تھے،
کچن سے ثمین بیگم اور انعم کے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں جس سے باخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ دونوں دن کے کھانے کی تیاری کروا رہی تھیں،

آہستہ روی سے چلتا وہ اب عباس صاحب اور شائستہ بیگم کے قریب پہنچ چکا تھا دھیمے لہجے میں سلام کرکے ملتے ہوئے اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اُسے کیا کہہ رہے ہیں،
زارم کو بس ان کے لب ہلتے محسوس ہو رہے تھے اس کی توجہ کا مرکز تو سامنے نظر آتا اپنے کمرے کا بند دروازہ تھا

اس کی نظریں مسلسل بند دروازے پر مرکوز تھیں ان کے چپ ہونے پر وہ بے چینی سے چلتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا،

اس کی حالت دیوانوں کی سی ہو رہی تھی دروازہ کھولتے ہی جب اس کی بیتاب نگاہیں سامنے نظر آتے بیڈ پر پڑے مرحہ کے وجود پر پڑی تو وہ بے خود سا اس کی طرف بڑھنے لگا تھا،

یارِمن مسیحا (انتہائے عشق)Where stories live. Discover now