Yaar e Man Maseeha 14th Episode

245 18 0
                                    



زائشہ کا نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا ہوش میں آتے ہی وہ پاگلوں کی طرح خود کو مارننے لگی تھی۔ خود کو مارتے مارتے وہ میرے بابا میرے بابا کی گردان کرتی جاتی تھی۔
اس کی ماں نبیلہ بیگم نے بمشکل اس کو سنبھالا تھا وہ اس کو سنبھالتے ہوئے ساتھ خود بھی بے تحاشا رو رہی تھی۔
ان کے ہنستے بستے گھرانے کو نظر لگ گئی تھی شاید کسی کی، عزیز از جان شوہر کی جدائی اور بیٹی کی یہ حالت ان کی برداشت سے باہر تھی۔
زائشہ سارا سارا دن روتی رہتی کبھی خود کو مارنے لگتی کسی وقت اسے صبر نہیں آتا تھا۔
"کیا گزری ہو گی بابا پر میری ان تصویروں کا سن کر"
یہ سوچتے ہی اس کے روح بلبلانے لگتی تھی۔ "اللہ جی یہ مجھ سے کیا ہو گیا" وہ ایسے روتی تھی جیسے اس کے بابا کی موت ابھی واقع ہوئی ہو۔
حارث کی کالز کو مکمل اگنور کیے اس نے مسلسل خود کو کمرے میں بند کر رکھا تھا نبیلہ بیگم پہروں دروازہ بجاتی رہتی تھی۔
حارث فون نہ اٹھائے جانے پر اب خود ان کے گھر پہنچ گیا تھا جس پر نبیلہ بیگم نے اسے زائشہ کی حالت کے بارے میں روتے ہوئے آگاہ کیا تھا،
اور اسے زائشہ کے کمرے کے باہر چھوڑ گئی تھی کہ شاید اس کی سن کر ہی وہ دروازہ کھول دے۔
"زائشہ بے بی کم اون اوپن دی ڈور" اس نے کمینگی سے دروازہ بجاتے ہوئے زائشہ کو مخاطب کیا تھا۔
اس کی آواز سن کر زائشہ گرتی پڑتی دروازے کی طرف لپکی تھی اور دروازہ کھولتے ہی اسے زناٹے دار تھپڑ مارا تھا۔

جس پر حارث منہ پر ہاتھ رکھتا غصے سے پاگل ہوا تھا پھر اس نے ایک ہاتھ سے اس کی گردن زور سے تھامے دروازہ لاک کرتے اسے دیوار سے جا لگایا تھا۔
اس نے اس کی گردن کو اس قدر زور سے دبوچ رکھا تھا کہ زائشہ کو لگ رہا تھا اس کی آنکھیں باہر آجائیں گی۔
اس کا دم گھٹ رہا تھا جان بچانے کے لیے وہ ہاتھ پاؤں مار رہی تھی لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا، ایک نازک کمزور لڑکی مرد کے مقابلے میں کیا کر سکتی ہے وہ بھی بس پھڑپھڑا کر رہ گئی۔
زندگی میں پہلی دفعہ اس نے موت کو اتنے قریب سے دیکھا تھا
اسے محسوس ہو رہا تھا اس کے سینے سے روح کھینچی جا رہی ہے، جب اس کو لگا اب اس کو آخری ہچکی آئے گی اور وہ مر جائے گی
تب حارث نے اسے چھوڑتے ہوئے دھکا دے کر نیچے گرایا تھا۔
زائشہ کو سینے میں بہت زیادہ تکلیف ہو رہی تھی وہ وہیں گہرے سانس لیتی اُٹھ بھی نہیں سکی تھی۔
جب حارث ہنستا ہوا آ کر گھٹنوں کے بل اس کے پاس بیٹھا تھا۔
"چچ چچ بہت افسوس ہو رہا ہے تم پر"وہ شیطانیت سے ہنستا موبائل نکال کر اب اس کی تصویریں دیکھ رہا تھا۔
"بہت آفت چیز ہو یار تم یقین کرو میں تمہارے حسن کو ضرور خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گا"
وہ مسلسل اس کی تصویروں پر نگاہ جمائے اب ہوس پرست نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
جب زائشہ نے اُٹھتے ہوئے اس کا چہرہ نوچا تھا۔ "میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑں گی مار ڈالوں گی تمہیں"
وہ غصے سے پاگل ہوتی اس پر جھپٹی تھی۔
اس کے ناخنوں سے اس کا چہرا اچھا خاصہ زخمی ہو تھا حارث نے دھکا دیتے بامشکل خود کو چُھڑآیا تھا۔
" میں اپنا پیسہ لینے آیا تھا لیکن اب تو میں تمہیں نہیں چھوڑنے والا اپنی عزت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھو گی"
وہ غصے سے غراتے ہوئے اس کی طرف بڑھا تھا۔ زائشہ فوراً الرٹ ہو کر دروازے کی طرف بھاگی تھی لیکن دروازہ کھولنے تک وہ اس پر جھپٹ پڑا تھا۔
زائشہ نے چیختے ہوئے ماں کو پکارا تھا اس کی دل دہلا دینے والی چیخوں کو سنتے نبیلہ بیگم فوراً اوپر کی طرف بھاگی تھیں۔
لیکن دروازہ کھولنے پر بھی نہیں کھلا تھا شاید دروازہ اندر سے لاک تھا وہ فورا بھاگتے ہوئے اپنے کمرے سے ڈپلیکیٹ چابی لینے آئی تھیں۔
لیکن ان کے دل نے انہیں کچھ بہت غلط ہونے کا اشارہ دیا تھا اس لیے وہ ساتھ موزر لانا نہیں بھولی تھیں۔ دل پر ہاتھ رکھتی وہ بھاگتی ہوئی زائشہ کے کمرے کی طرف آئی تھیں دروازہ کھول کر اندر کا منظر دیکھتے ان کی روح کانپ گئی تھی۔
حارث اس پر جھکا ہوا تھا زائشہ کے آستین پھٹ چکے تھے لیکن ابھی بہت دیر نہیں ہوئی تھی
"پیچھے ہٹ جاو ورنہ میں گولی چلا دوں گی" نبیلہ بیگم نے چلاتے ہوئے کہا ان کے ہاتھ میں گن دیکھ کر وہ فورا سے پہلے پیچھے ہٹتا بالکنی سے نیچے چھلانگ لگاتا بھاگ گیا تھا۔
زائشہ ماں کو دیکھتے بھاگتے ہوئے آکر ان کے سینے سے لگتی پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی لیکن رونے والی وہ اکیلئ نہیں تھی اس کی ماں بھی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔
اس کے بابا کی قبر کی مٹی سوکھنے سے پہلے ہی ان کے بھائیوں کے تیور بھی بالکل بدل گئے تھے ہر رشتہ یتیمی کی زد میں آ گیا تھا۔
پاور آف اٹارنی انہوں نے اپنے نام کروا لی تھی جب وکیل اگریمنٹ پر دستخط کروانے آئے تو ساتھ کمال احمد کے دونوں بھائی بھی آئے تھے۔
" انہوں نے یہ کہتے ہوئے نبیلہ بیگم سے سائن کروا لیے تھے کہ ان کے حصے کی مقول رقم ہر مہینے ان کے پاس پہنچ جایا کرے گی،
وہ کہاں بزنس سنبھال سکتی ہیں الٹا نقصان ہی ہوگا"
نبیلا بیگم نے بھی سائن کر دیے تھے کہ بات تو ٹھیک تھی ان کی وہ کہاں سنبھال سکتی تھیں اور ابھی زائشہ بھی کچھ جانتی نہیں تھی بزنس کے بارے میں۔
"حارث کی مسلسل بلیک میلنگ پر جب زائشہ نے ان سے رقم کا مطالبہ کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا،
کے ابھی بزنس لاس میں ہے وہ اتنی رقم کا انتظام نہیں کر سکتے"
خود کو بچانے کی وہ امید بھی ٹوٹ گئی "انکل پلیز مجھے میری مطلوبہ رقم دے دیں آپ بیشک ہمیں مہینے کا خرچ مت دینا"
بولتے ہوئے وہ بامشکل اپنی سسکیوں کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کر رہی تھی اس کے بابا نے منہ سے نکلنے سے پہلے اس کی ہر خواہش پوری کی تھی،
اور آج کیسا وقت آیا تھا کے وہ کسی کے سامنے سوال دراز کیے کھڑی تھی وہ بھی ان کے سامنے جنہوں نے ہمیشہ اس کے ساتھ پیار ہی جتایا تھا، ہمیشہ اس کے لیے ڈھیروں چیزیں لے کر آتے تھے جو چیز اپنی بیٹی کے لیے خریدتے وہ چیز اس کے لیے بھی آتی تھی،
اور آج اس کے آنسوؤں سے بھی انہیں کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔
"کیا اتنی جلدی بھی کوئی بدل سکتا ہے کتنی بے دردی سے وقت نے اس پر آگاہی کے در وا کیے تھے وقت نے ہر رشتے کی اوقات اور ہر چہرے سے نقاب ہٹا دیا تھا"
"ضروری کام کا کہتے انہوں نے فون بند کر دیا تھا وہ کشن کو زور سے اپنے سینے کے ساتھ بھینچے شدتوں سے رو رہی تھی، مسلسل ازیت اور تکلیف میں رہنے کی وجہ سے اس کی آنکھوں کے نیچے ہلکے پڑ گئے تھے،
رنگت میں زردیاں گھل گئی تھیں سوچ سوچ کر اسکا دل پھٹا جا رہا تھا کے ماں کو اپنی بربادی کی داستان کیسے سنائے گی"
جب اس کے موبائل پر مسلسل بپ ہونے لگی اس کی دوست کی طرف سے کال آرہی تھی۔ فون اٹھاتے ہی وہ اس پر برس پڑی تھی۔
"ذی تم پاگل ہو کیا؟ یہ کیا کیا تم نے کیسی تصویریں ڈالی ہیں تم نے اپنی آئی ڈی پر"
سنتے ہی زائشہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔
حارث نے واقعی اس کی وہ تصویریں جس میں اسکا چہرا تو نظر نہیں آرہا تھا لیکن اس نے زائشہ کی دوسری تصویریں ساتھ لگاتے ہوئے انتہائی واہیات کیپشنز دیتے ہوئے وہ سب تصویریں زائشہ کی ہیک کی ہوئی آئی ڈی سے ہی آپ لوڈ کر دی تھیں،
اور پاسورڈ بھی چینج کر دیا تھا جس کو اب زائشہ اوپن نہیں کر سکتی تھی۔
"کوئی اس وقت اس کے دل سے پوچھتا کہ جسم کو کسی آری سے چیر دینے کی اذیت کیا ہوتی ہے.
اس وقت اس کا دل چاہا اپنے دل کو باہر نکال کر وہ اسے چھریوں سے کاٹ ڈالے یا ایسے ہی کسی تیز دھار چھری سے اپنا سینہ چھلنی کر ڈالے۔"
فون اس کے ہاتھ سے گرتا زمین بوس ہوا تھا۔
"کاسئہ دل میں جب محبوب کی بے وفائی کا سکہ آکر گرتا ہے جب محبوب کے در کی ٹھوکر آپ کو پڑتی ہے جانتے ہو اس اذیت کو؟
جب آنسو بھی آنکھ میں پتھر ہو جائیں آپ کو لگے تکلیف کی شدت سے آپ کا دل بند ہو جائے گا لیکن نہیں محبوب کے در کے ٹھکرائے کو موت بھی کہاں قبول کرتی ہے۔"
اچانک کمرے میں اس کی قہقے گونجے تھے پاگلوں کی طرح ہنستے وہ شیشے کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی تھی۔
"آئی ہیٹ یو! آئی ہیٹ یو! "
شیشے میں خود پر نظر پڑتے ہی وہ ہذیانی انداز میں چلائی تھی اور ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی، قیمتی پرفوم کی نازک سی بوتل اٹھا کر اس نے شیشے پر دے ماری تھی جس کی ضرب سے شیشہ چکنہ چور ہوتا زمین بوس ہوا تھا۔
سسکیاں بھرتے اس نے کانپتے ہاتھوں سے ایک شیشہ اٹھا لیا تھا جب باہر شور کی آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔
آواز پہچانتے ہی اس کے قدم سو سو من بھر کے ہوگئے تھے وہ سسکیاں بھرتی اپنے گرد بازو لپیٹتی وہی بیٹھتی چلی گئی تھی۔
آوازیں اب اور قریب آگئی تھیں۔
"بھائی صاحب بتائیں تو صحیح ہوا کیا ہے، کیا کییا زائشہ نے ایسا؟ جو آپ کے لہجے میں اتنی نفرت سمٹ آئی ہے اس کے لیے"
وہ اب چلتے ہوئے کمرے کے اندر آگئے تھے۔
زائشہ نے بامشکل کانپتی ٹانگوں سے بیڈ کا سہارا لیتے ہوئے خود کو کھڑا کیا تھا۔
"پوچھیں اپنی لاڈلی سے ہماری عزت کو کیا بھٹہ لگایا ہے اس نے؟ یہ تربیت کی ہے آپ نے اور بھائی صاحب نے اس کی؟"
انہوں نے اس کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا۔
جب کے پاس کھڑے چچا زاد احسن کی نظروں سے وہ زمین میں گڑی جارہی تھی۔
وہ بامشکل سسکیاں دباتی اپنی ماں کی طرف بڑھنے لگی تھی اس کی ماں جو آنکھوں میں الجھن اور بے چینی لیے اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھیں۔
وہ آگے بھڑتی لیکن احسن کی طرف سے پڑنے والے غیر متوقع تھپڑ نے اس کا توازن قائم نہیں رہنے دیا تھا۔
وہ جو پہلے ہی جانے کیسے خود کو سنبھالے کھڑی تھی لہرا کر گری تھی۔
"میں اس کو جان سے مار ڈالوں گا"
وہ پھر سے اس کی طرف بھڑنے لگا تھا جب اس کے باپ نے اسے بیچ میں روک لیا تھا۔
جب نبیلہ بیگم کب سے یہ تماشہ دیکھتی چلائی تھیں۔
"کوئی مجھے کچھ بتائے گا یا نہیں اور احسن تمھاری ہمت بھی کیسے ہوئی میری بیٹی پر ہاتھ اٹھانے کی"
ان کے اس طرح غصہ کرنے پر وہ بھی غصے میں گویا ہوا تھا۔
"چچی اس نے اپنی نیم عریاں تصویریں اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر ڈال رکھی ہیں" احسن نے شعلے اگلتی زبان سے کہا۔
"تم کیا بکواس کر رہے ہو پتہ بھی ہے تمھیں"
بے یقینی سے کہتے انہوں نے ایک نظر زائشہ کی طرف دیکھا اور وہ ان کی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ بے آواز روتے ہوئے نظریں جھکا گئی تھی۔
اس کے اس طرح نظریں جھکانے پر نبیلہ بیگم دل تھامتی صوفے پر ڈھے گئی تھیں۔
"معاف کرئیے گا بھابی ہماری بیٹیاں ہیں ہم نہیں چاہتے اس کو دیکھ کر ان پر بھی برا اثر پڑے آج سے ہمارا آپ کا کوئی تعلق نہیں"
"بھائی صاحب دیکھیں آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی میری بیٹی ایسا ہرگز نہیں کر سکتی،
زائشہ بیٹا بولو بتاؤ اپنے چچا کو وہ بے تابی سے اس کے پاس آتے اس کا چہرا اپنے ہاتھوں میں تھامتی ہوئی بولی تھیں"
"مم حارث نے یہ سب۔۔۔۔۔ وہ ہچکیاں لیتی ہوئی بامشکل بولی تھی"
اس کے آدھے ادھورے جملے کا مطلب سمجھتے نبیلہ بیگم کو تو گویا چپ لگ گئی تھی آنکھوں میں بے یقینی سی بے یقینی تھی ان کی بیٹی کی عزت یوں سر عام پامال ہوئی تھی۔
وہ دل پر ہاتھ رکھتی رہی دوھری ہوئی تھیں۔
"او اچھا تو بوائے فرینڈ بھی ہے اس کا واہ بھئ بہت خوب" اس کے کزن نے تنزیہ ہنستے ہوئے جملہ کسا تھا۔
جب زائشہ کی نظر نبیلہ بیگم پر پڑی تو وہ فوراً تڑپ کر ان کی طرف بڑھی تھی۔

یارِمن مسیحا (انتہائے عشق)Where stories live. Discover now