Yaar e Man Maseeha 30th Episode

306 20 7
                                    






یہ ایک ٹارچر روم کا منظر تھا جہاں ایک ملزم کو کرسی کے ساتھ باندھے شاہ زر دونوں ہاتھ لکڑی کی اُس کرسی کے ہینڈل پر جمائے اُس ملزم سے باز پرس کرنے میں مصروف تھا۔

سوائے کرسی کے اوپری حصے میں جلتے بلب کے ہر اطراف کو اندھیرے نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔

شاہ زر کے چہرے پر اس وقت چٹانوں کی سی سختی تھی اور سامنے کرسی پر باندھا ملزم ہانپ رہا تھا۔

"میں نے کچھ بھی نہیں کیا مجھے چھوڑ دو" شاہ زر کے زوردار پنچ کو نہ سہتے ہوئے وہ بلبلایا تھا۔۔۔

"جو بھی کیا اس لڑکی کے ساتھ وہ گڈو نے کیا، میں نے اُسے بہت دفعہ بولا تھا بوس کو پتہ چلے گا تو وہ تجھے جان سے مار ڈالے گا۔

وہ بامشکل ہکلاتے ہوئے بول رہا تھا جب شاہ زر نے دھاڑتے ہوئے اس کا جبڑا زور سے اپنے ہاتھ میں جکڑا تھا۔

"آگے بکواس کرو جلدی کیا کرتا تھا وہ" شاہ زر کا ہاتھ پھر سے اس کو مارنے کی غرض سے ہوا میں اٹھتا دیکھ کر وہ چلایا تھا۔

"میں بتاتا ہوں۔۔۔۔ میں بتاتا ہوں۔۔۔۔" وہ ڈر کے مارے چلایا تھا

"وہ اس لڑکی کو صرف ایک وقت کا ناکافی کھانا دے کر باقی سارا وقت بھوکا پیاسا رکھتا تھا"

اس کی بات سنتے شاہ زر کا خون کھول اٹھا تھا اس کا دل سختی سے چاہا کہ کاش وہ اس دن ریڈ میں نہ مارا گیا ہوتا تو آج وہ اس کی کھال اڈھیڑ دیتا۔۔۔۔۔۔

وہ آدمی واقعی اپنے بوس کو جانتا تھا یا نہیں اس بات کو آزمانے کا وقت اب آن پہنچا تھا۔

--------------------------------------------

(ایک مہینے بعد )

"شازی مجھے کچھ یاد کیوں نہیں ہے سب یادیں دھندلی کیوں ہے آخر میرے دماغ میں"

وہ آج پھر سے اس کے ساتھ لپٹی سسک رہی تھی۔۔۔۔

"مجھے اپنے گھر جانا ہے سب سے ملنا ہے آپ مجھے کیوں نہیں جانے دیتے"

وہ اس سے علیحدہ ہوتی شکوہ کناں نظروں سے اُسے دیکھ رہی تھی اس کا بچگانا پن آہستہ آہستہ کم ہوتا اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا،
بس اسکی یاداشت ابھی بھی ریکور نہیں ہو پائی تھی۔

"مجھے نہیں پتہ کل میں اپنے گھر جاؤں گی اور میں آپ کی کوئی بات نہیں سنوں گی"

وہ ناراضگی سے کہتی اب اس سے علیحدہ ہوتی جا کر بیڈ پر لیٹ کر کمفرٹر سر تک تان چکی تھی۔

جو کہ شاہ زر کے ساتھ بھرپور ناراضگی کا اظہار تھا کاؤچ پر بیٹھے شاہ زر کو کچھ سمجھ نہیں آیا وہ اُس کو کیسے یہ بات بتائے گا کہ اس کے والدین حیات نہیں ہیں۔

گہری سانس لیتے اس نے سر صوفے کی پشت سے ٹکایا تھا کچھ سوچتے ہوئے وہ بوجھل دل اور مضطرب قدموں سے اس کے کمفرٹر میں لپٹے وجود کی طرف بڑھا تھا۔

یارِمن مسیحا (انتہائے عشق)Where stories live. Discover now