Yaar e Man Maseeha 17th Episode

237 14 2
                                    

"زائشہ کی جسمانی صحت توجہ اور کیئر سے اب پہلے سے بہت بہتر ہو گئی تھی بی جان باقاعدگی سے اس کے بالوں کی آئلنگ کرتی تھیں،
انہوں نے شاہ زر سے اس لیے نت نئے کپڑے بھی منگوا لیے تھے،
بی جان اس کے کھانے پینے اور دوا کا خاص خیال رکھتی تھیں اور اپنے ساتھ اس کو نماز بھی پڑھاتی تھی،
اب آہستہ آہستہ اس کو نماز یاد ہونے لگی تھی بی جان کو بھی جیسے ایک بچہ مل گیا تھا مصروفیت کے لیے،
ورنہ گھر کا ہر کام کرنے کے لیے ملازم موجود تھے"

زائشہ بھی بی جان سے کافی اٹیچ ہوگئی تھی اور جانتی تھی جو بات شاہ زر اس کی نہیں مان سکتا وہ بی جان اس سے کہہ کر منوا دیں گی،
اس لیے وہ اکثر و بیشتر شاہ زر کی شکایتیں بی جان کو لگاتی رہتی تھی شاہ زر کے معاملے میں وہ کسی صورت کمپرومائز نہیں کرتی تھی،
جو اس نے بول دیا اس کو وہی چاہئے۔
جب کہ شاہ زر اس کے پہلے ایسا کرنے سے اکثر و پیشتر بےزار ہی رہتا تھا اور ڈانٹ دیتا تھا اُسے،
لیکن جانے کیسے اچانک شاہ زر کو اس کا یوں اُسے چاہنا اپنی طرف کھینچنے لگا تھا اب وہ بھی اسے توجہ دینے لگا تھا۔"
" زائشہ کی روز رات کی بس ایک ہی زد ہوتی تھی کہ وہ اس کے پاس ہی سوئے گی،
اسل یے بی جان نے شاہ زر کے کمرے کے ساتھ موجود کمرا اس کے لیے ریڈی کروا دیا تھا،
جہاں شاہ زر اس کے سونے تک اس کے پاس ہی رکا کرتا تھا۔
وہ روزانہ اس سے رات کو چھوٹی چھوٹی باتیں کرتا تھا لیکن اسے اپنے بچپن سے آگے بڑھ کر کچھ بھی یاد نہیں تھا۔"

"وہ اس سے اکثر و بیشتر ایسے سوال کرتا تھا کہ اسے کوئی بات یاد آسکے کوئی کلو مل جائے اسے،
کیوں کے دشمن ان کی ریڈ کے بعد سے اپنا ٹھکانہ فوری طور پر بدل چکا تھا اور ان کا ریڈ میں پکڑا گیا شخص بھی اس نئے ٹھکانے کے بارے میں نہیں جانتا تھا،
اس کو اس قدر ٹاچر کیا گیا تھا کہ اگر اسے کچھ معلوم ہوتا تو وہ اپنی زبان ضرور کھولتا،
خیرت کی بات تو یہ وہ گینگ کے لیڈر کے نام اور چہرے تک سے آشنا نہیں تھا۔
اس کے کہنے کے مطابق باس کبھی ان کے سامنے نہیں آیا تھا صرف اس نے آواز سن رکھی تھی اس کی، ابھی تک بھی کوئی خاص کلو کیپٹن شاہ زر کے ہاتھ نہیں لگا تھا"

آج گھر آنے میں وہ کافی لیٹ ہو گیا تھا انہیں ایک جگہ پر دشمن کے ٹھکانے کا شبہ ہوا تھا اسی سلسلے میں رات کے بارہ بج چکے تھے،
بی جان نے دو دفعہ فون کر کے اسے زائشہ کی زد کے بارے میں آگاہ کیا تھا اس کی بس ایک ہی زد تھی۔
" جب تک شاہ زر نہیں آئے گا وہ نہیں سوئے گی "
شاہ زر گاڑی پارک کرتا گھڑی پر ٹائم دیکھتا تیزی سے اندر زائشہ کے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔

آہستگی سے دروازہ کھولتا شاہ زر جب اندر داخل ہوا تو وہ کمرے میں موجود براؤن کلر کے صوفہ پر ٹانگیں سینے سے لگائے ،
شاید اس کا انتظار کرتی بیٹھے بیٹھے ہی سو گئی تھی۔
سر صوفہ کی سائیڈ ہینڈل پر ایک طرف کو لڑکھ گیا تھا
اس کو سیدھا کر کے لٹاتے شاہ زر کو اس کے چہرے پر سرخ نشان نظر آیا تھا،
شاہ زر نے بے ساختہ اس نشان پر ہاتھ پھیرا تھا شاید کافی دیر ایک جگہ پر رہنے سے نشان بن گیا تھا"
شاہ زر کو افسوس ہوا تھا زائشہ کو صوفہ پر ہی سیدھا کر کے لیٹاتے کمفٹر اوڑھا کر اپنے کمرے میں آگیا تھا۔
چند گہرے سانس لینے کے بعد اس نے آگے بڑھ کر گھڑی اتارتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی تھی،
جب اسے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں دروازہ کھول کر اندر آتی زائشہ دیکھائی دی تھی،
وہ اسے دیکھ کر ایک دم حیران ہوا تھا ابھی ہی تو وہ سوتا چھوڑ کر آیا تھا اسے۔۔۔۔
بال دو چوٹیوں میں بندھے ہوئے تھے فرنٹ سے کٹے بینگز،
جنہیں وہ ایک ہاتھ سے پیچھے کرتی دوسرے ہاتھ سے آنکھیں مسلتی ہوئی آکر پیچھے سے اسے لپٹ گئی تھی۔
جب شاہ زر نے اسے ہٹاتے ہوئے اپنے سامنے کیا تھا آنکھیں کچی نیند کے خمار سے غلابی ہو رہی تھیں شاہ زر نے بے ساختہ نگاہیں چرائی تھیں۔
" جب وہ اسے یہاں لے کر آیا تھا تو اس کی حالت کافی ابتر تھی وہ بہت کمزور دیکھائی دیتی تھی،
رنگت اتنی زردی مائل تھی کہ اس کے چہرے پر کوئی کشش نظر نہیں آتی تھی انکھوں کے نیچے گہرے ہلکے،
اور اب اس کی رنگت میں گلابیاں اتر آئی تھیں گال بھی بھرے بھرے لگتے تھے،
کوئی بھی جس نے اُسے اس حالت میں دیکھا ہو وہ اُسے اب دیکھتا تو پہچان نہ پاتا اُسے،
حیرت زدہ رہ جاتا۔
شاید وہ خود بھی نہ پہچان پاتا یہ سب بی جان کی توجہ کا ہی نتیجہ تھا وہ اس کے چہرے کی طرف دیکھتا اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔
جب وہ پھر سے آنکھیں موندتی اس کے سینے سے لپٹ گئی تھی۔
"تم کہاں چلے جاتے ہو مجھے چھوڑ کر" وہ نارضگی سے اسے پیچھے دھکیلتی ہوئی آنکھوں پر ہتھیلیوں کی مٹھیایاں بنا کر رکھتی رونے کی تیاریوں میں تھی۔
جب شاہ زر تیزی سے اس کے قریب ہوا تھا
"دیکھو ذی خاموش رہو رونا مت میں ایسا نہیں کروں گا آئی پرامس"
وہ اس کے چہرے کو ہاتھ لگاتے لگاتے رہ گیا تھا اور اپنا ہاتھ پیچھے کر گیا تھا۔
"میں جلدی آیا کروں گا اور ذی کے لیے آئس کریم بھی لایا کروں گا"
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا یقین دلاتے ہوئے بولا تھا دراصل وہ جو رونا شروع ہوتی تھی تو چپ ہونے کا نام نہیں لیتی تھی۔
اور بچوں کی طرح ہی منہ بنا کر آواز نکالتے ہوئے روتی تھی مصلحت اسی میں تھی کہ اس کی بات مان لی جائے۔
" ذی کو پسند ہے نا آئس کریم"
وہ اسے پچکارتے ہوئے پوچھ رہا تھا
"ہاں لیکن میں بی جان سے دیکھنا تماری شکایت لگاؤں گی اور وہ ڈنڈے سے پٹائی لگائیں گی تمہاری"
وہ ہنوز اس کی طرف دیکھتی نروٹھے لہجے میں بھولی۔۔۔
"ہاں ٹھیک ہے ابھی تم یہاں لیٹو اور سو جاؤ میں چینج کر کے آتا ہوں"
وہ اسے بیڈ پر لیٹا کر کمفرٹر اوڑھاتے وارڈ روب سے نائٹ ڈریس نکالتے واش روم کی طرف بڑھ گیا تھا۔
شاور لے کر باہر نکلا تو زائشہ بیڈ پر بیٹھی ابھی تک اونگ رہی تھی وہ اسے ایسے دیکھتا ٹاول سے بال رگڑتے فوراً سے اس کی طرف بڑھا تھا۔
"یہ لڑکی بھی نا، میں اس کو کبھی سمجھ نہیں پاؤں گا۔۔۔۔ سوئی کیوں نہیں ابھی تک تم"

یارِمن مسیحا (انتہائے عشق)Where stories live. Discover now