Yaar e Man Maseeha 11th Episode

263 16 1
                                    

آج مائرہ کی یونیورسٹی میں کلچرل شو آرگنائز کیا گیا تھا، جس میں اس نے آفغانی کلچر کو اپنی یونیورسٹی فیلو احمر کے ساتھ ری پریسینٹ کرنا تھا۔

اپنا ڈریس اور اس سے رلیٹڈ افغان جیولری ہینڈ بیگ میں ڈالے وہ شائشتہ بیگم اور عباس صاحب سے الوداع لیتے گاڑی میں آبیٹھی تھی۔
گاڑی روڈ پر آتے ہی آئر پیس کانوں میں لگائے وہ رشیئن سونگ Tak vipala karta انجوائے کر رہی تھی۔
آنکھیں بند کیے وہ گانے میں مگن تھی
Под каким теперь паролем заходить мне на страницу о любви?
What password should I use to enter the page about my love?
وہ لیریکس میں کھوئی ہوئی تھی جب گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی۔
"یا الله خیر" مائرہ بامشکل خود کو سنبھالتی سیدھی ہوئی تھی۔
سدھے شکر کے گاڑی آگے جاتے ہوئی گاڑی سے نہیں ٹکرائی تھی۔
"کیا ہوا انکل" مائرہ پریشانی سے گویا ہوئی۔
"دیکھتا ہوں بیٹا" گاڑی کا بونٹ کھولے وہ چیک کرنے میں مصروف ہوگئے تھے۔
مسئلہ سمجھ آنے پر وہ اس کی طرف آئے تھے۔
"فیول پمپ میں کچرا ہو گیا ہے مائرہ بی بی"
"او اب کیا ہو گیا" مائرہ پریشانی سے گویا ہوئی۔
آس پاس غور کرنے پر اسے معلوم ہوا کے بس تھوڑا ہی فاصلہ باقی تھا یونیورسٹی پہنچنے میں۔
"اچھا انکل تھوڑا ہی رستہ رہ گیا ہے میں چلی جاتی ہوں ایسے ہی" وہ اپنا ہینڈ بیگ اور موبائل ہاتھوں میں تھامے باہر آگئی تھی۔
"مائرہ بی بی میں چھوڑ آتا ہوں اپکو عباس صاحب کو علم ہوا تو ناراض ہوں گے وہ"

"انکل چِل کریں، آپ نہیں بتائیں گے، میں بھی نہیں بتاؤں گی تو اور کون بتائے گا؟"
شرارتی مسکراہٹ سے کہتی وہ آگے بڑھ گئی تھی، وہ دونوں ہی کبھی ایسے اکیلے کہیں باہر نہیں نکلی تھیں،
ان کے ساتھ کوئی نہ کوئی موجود ہوتا تھا، اس لیے اسے تھوڑا عجیب بھی محسوس ہو رہا تھا۔
چلنا جو شروع کیا تو رستہ ختم ہی نہیں ہو کے دے رہا تھا۔"
گاڑی میں تو بلکل تھوڑا سا راستہ لگتا ہے" سوچتے ہوئے اب وہ جنجھلاہٹ کا شکار ہو رہی تھی۔
تبھی اس کے موبائل پر رنگ ہوئی تھی، بیگ سے موبائل نکالتے وہ اپنے دھیان میں چل رہی تھی،
جب کسی نے ساتھ گزرتے ہوئے اپنا کندھا زور سے اس کے کندھے کے ساتھ پش کیا تھا، اور اس کے لڑکھڑانے پر اسے اپنے بازوں میں تھام لیا تھا۔
مائرہ کا بیگ اور موبائل بھی ہاتھ سے چھوٹتا نیچے جا گرا تھا، اور اپنی خوبصورتی کھو بیٹھا تھا، اس کے ٹچ پر مکڑی کا جالہ سا پھیلتا اسے بدنما بنا گیا تھا۔

مائرہ نے اسے پیچھے جھٹکتے ہوئے الگ ہونا چاہا، لیکن مقابل کی گرفت ایسے محسوس ہو رہی تھی جیسے شکاری نے اپنے شکار کو اپنے شکنجے میں دبوچ لیا تھا۔
اس کی آنکھوں میں عجیب سی شیطانیت تھی، وہ ہونٹوں پر مکروہ ہنسی لیے ببل چباتا مائرہ کو باہنوں میں جھکڑے کھڑا تھا۔

لڑکھڑانے سے مائرہ کا دوپٹہ بھی سر سے سرک گیا تھا، اس کی نظریں مائرہ کے چہرے سے ہوتی ہوئی اس کی صراحی دار گردن پر جا ٹکی تھیں۔
مائرہ کو اس کے ہاتھوں کی گرفت پر سانپ لوٹتے محسوس ہو رہے تھے۔
"چھوڑو مجھے ذلیل انسان"
وہ اپنا سارا زور لگاتی اسے دھکا دیتی پیچھے ہوئی تھی۔

یارِمن مسیحا (انتہائے عشق)Where stories live. Discover now