قسط نمبر 27

12 2 0
                                    

"وہ ہاتھ میں پھولوں کا بوکے تھامے اس کے گھر داخل ہوا نور اسے ڈرائینگ روم میں بٹھا کر اس کے لیے چائے کا اہتمام کروانے باہر گئی۔۔۔

"نور گھر کے پیچھلے لان میں ویل چیئر پر بیٹھی تازہ ہوا لے رہی تھی تب صنم اس کے پاس آئی
"ماما میں آپ کو آج اپنے سب سے پہلے فلم پروڈیوسر سے ملواتی ہوں آئیں اندر ہمارے گیسٹ آئے ہیں "

وہ اسے ڈرائینگ روم میں لے کر آئی زارون جو اپنے فون پر لگا تھا ایک سرسری نگاہ اٹھا کر دیکھا لیکن یہ سرسری نگاہ اس کی دنیا ہلا گئی دوسری طرف نور کا بھی یہی ریاکشن تھا اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ یہ اس کی نظروں کا دھوکا تھا یہ سچ

"کیا آپ ایک دوسرے کو جانتے ہیں "

اتنی شدت سے رہا انتظار مجھے کہ
وقت منتیں کرتا رہا "گزار مجھے"

اور چلا میں روٹھ کر، آواز تک نہ دی اس نے
میں دل میں چیخ کر کہتا رہا پکار مجھے



وہ دونوں ہنوز ایک دوسرے کو دیکھی جا رہے تھے جب صنم کی آواز نے ماحول میں ارتعاش پیدا کیا زارون نے نور کی ویل چیئر کی طرف قدم بڑھائے اور نور کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا نور ابھی تک سکتے سے نہیں نکل سکی اور بے ہوش ہو گئی۔۔۔۔۔۔

"بی پی ہائی ہونے کی وجہ سے وہ بےہوش ہوگئی تھیں کچھ میڈیسنز لکھ دی ہیں باقاعددگی سے دینے سے وہ بہتر محسوس کریں گی اور انہیں کسی بھی پریشانی سے تو سو میل دور رکھیے گا وہ ذہنی طور پر بہت کمزور ہیں"

زارون نور کے سرہانے کرسی پر  اس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے بیٹھا تھا جب صنم اندر آئی ۔
"آپ نے یہ بات مجھ سے کیوں چھپائی کہ یہ آپ کی بیوی ہیں اور میں آپ کی بیٹی؟" صنم نے کہا

"مجھے اگر خود معلوم ہوتا تو کیا میں اپنی عمر کا ایک طویل حصہ تمہاری ماں کو تلاش کرنے میں وقف کرتا کونسا دن ایسا تھا جس میں میں نے امید توڑی ہو کہ یہ نہیں آئیں گی ان کی واپسی  کی امید کی ہی خاطر آج تک امریکہ میں سڑتا اور تڑپتا رہا۔ "
"میں آپ کو اب کہیں جانے نہیں دوں گی"
"میں چاہتا بھی یہی ہوں"

ہمیشہ جوش گریا سے رہا پانی میں اے آتش
کبھی تازہ نہ لیکن اپنے دل کا یہ کنول پایا


نور نے آنکھیں کھولیں تو زارون کو اپنے سرہانے کرسی پر ہی سوئے پایا اس کا سر ایک طرف ڈھلک رہا تھا اور ایک ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا
"یہ شخص میری پہلی محبت ہے اور پہلی محبت برگد کے اس پیڑ کی طرح ہوتی ہے جس کو باہر سے چاہے مکمل طور پر کاٹ دیا جائے مگر اس کی جڑیں زمین میں میلوں دور تک پھیلی ہوتی ہیں کچھ اسی طرح آپکی محبت میرے دل میں پھیلی ہوئی ہے جسے میں چاہ کر بھی ختم نہیں کر سکتی وہ زارون کا ڈھلکا ہوا سر سیدھا کرنے لگی جس کی وجہ سے وہ نیند سے جاگ اٹھا
"آپ کو کچھ چاہیے "
"آپ "
"مجھے بھی چاہیے "
"کیا "
"آپ"
ہاہاہاہا وہ دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہنسنے لگے
"ایک مدت بعد ہنسنا نصیب ہوا ہے"
"مجھے بھی"
"آپ کی نیند پوری نہیں ہوئی آرام کر لیں"
اس کی آنکھیں لال انگاری بنی ہوئی تھیں
"میری نیند آج ہی تو پوری ہوئی ہے جاناں"
"آپ یہ نہ کہا کریں اب ایک جوان بیٹی ہے ہماری کسی نے سن لیا تو؟"
"کیوں جاناں آپ ہمیں عرصے بعد ملی ہیں اب تو ٹھرک پورا کرنے دیجئے ورنہ یہی خواہش لے کر کسی دن چل بسیں گے"
"خدارا اب تو جدائی کی باتیں مت کریں کتنے سالوں بعد خدا نے ہمیں ملایا ہے اور مرنا تو مجھے ہے پہلے آپ تو ابھی جوان ہیں کہیں شادی تو نہیں کر لی اور۔۔۔۔"
"ارے ارے بیگم بریک پر پیر رکھئیے بیگم ہم پہلی شادی تو نپٹالیں پھر دوسری بھی دیکھی جائے گی"
"میں قتل کردوں گی آپ کا"
"بشرطیکہ اپنے ہاتھوں سے کریں تو ہمیں منظور آپ کے ہاتھوں سے تو موت کو بھی بخوشی گلے لگا لیں گے "
"وہ اس کے دونوں ہاتھ چومنے لگا"
"کیا آپ میرے ساتھ نوافل ادا کریں گی"
"میں تو باقی کی ساری زندگی نوافل ادا کروں گی"
"انشاءاللہ اکٹھے کریں گے"
زارون وہاں سے اٹھنے لگا تو نور نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا
"زارون میں اب کبھی چل نہیں پاؤں گی کیا آپ کو برا نہیں لگے گا کہ آپ ایک معذور عورت کے شوہر ہیں"
"بلکل مجھے اعتراض ہوگا اس بات پے نہیں کہ آپ ٹانگوں سے معذور ہیں بلکہ اس بات پر کہ آپ ذہنی طور پر معذور ہونا شروع ہو چکی ہیں"
"زارون"
اس  نے شکوہ کناہ آواز میں اسے پکارا
"میری جان میں کبھی آپ کو اس بات کی اجازت نہیں دوں گا کہ آپ اپنے آپ کو معذور کہیں اور مجھے دنیا کی کوئی پرواہ نہیں جو ایسا سوچتا ہے اس کی سوچ معذور ہو گی اور آپ تو ریکور ہو سکتی ہیں میں خود آپ کی تھیراپی کیا کروں گا انشاءاللہ بہت جلد آپ اپنے پیروں پر چلیں گی"

"زارون ہماری بیٹی وہ سبحان کی بیوی ہے"
"میں جانتا ہوں اور مجھے نہایت خوشی ہوئی سن کر کہ وہ سبحان جیسے باوقار شخص کی بیوی بنی"
"لیکن زارون وہ اس سے خفا ہے اس کے فلم انڈسٹری جوائین کرنے کے بعد سے  سبحان اسے اچھا نہیں سمجھتا وہ اسے اپنانا نہیں چاہتا"

"یہ بات آپ کہ رہی ہیں نا لیکن میں بخوبی جانتا ہوں ان کے ذہن میں ہر طرف ہماری ہی بیٹی کا راج ہے"

"آپ کیسے یقین سے کہہ سکتے ہیں"
"آپ یہ مجھ پر چھوڑ دیں بس اس بارے میں مزید مت الجھیں اور اپنے شوہر پر توجہ دیں"
وہ کشن اٹھا کر اسے مارنے لگی
"جنگلی بلی"

_________________________________________

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Where stories live. Discover now