قسط نمبر 4

27 3 0
                                    

سولہ سالہ وہ رشین نین نقوش اور لال بالوں والی لڑکی کسی بھی شخص کو چاروں شانے چت کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ وہ جہاں سے گزرتی مرد عورت بچے بوڑھے سب اسے پلٹ پلٹ کر دیکھتے۔ اس کے محلے کے بچے اور لڑکیاں عیدوں پر خاص طور پر اسے دیکھنے جاتے کیونکہ جب وہ سادگی میں غضب ڈھا سکتی تھی تو ایسے مواقوں پر تو خاص طور پر کیل کانٹوں سے لیس ہوتی۔ اماں اسے بارہا باہر نکلنے اور چہرا نہ دکھانے سے خبردار کرتیں۔
سبحان اکثر ایسے مواقوں پر اپنے کمرے میں بند ہو کر رہتا کیونکہ وہ دشمن جاں پورے گھر میں پائ جاتیں۔ صنم اکثر اس سے شکوہ کرتی کہ وہ کمرے سے باہر نہ نکالتا نہ اسے نگاہ بھر کر دیکھتا۔ بے شک وہ اس کی بچپن کی چاہت تھی لیکن عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پسندیدگی برگد کے پیرڈ کی طرح سبحان کے دل میں جڑیں پھیلا چکی تھی اور محبت سے عشق کی معراج پر قائم تھی ۔
وہ مضبوط اعصاب کا مالک تھا لیکن تھا تو مرد وہ صنم کے معاملے میں خود پر بھی اعتماد نہ کرتا اور اسے نظر انداز کرنے کی حد درجہ کوشش کرتا۔ اسکے اس اجتناب اور پرہیز کو وہ ایگنورینس کا نام دے کر ہفتہ ہفتہ اس سے بات نہ کرتی جبکہ وہ چند دن سبحان کی جان پر بن جاتے اور اسے منانے کے چکر میں اپنے مہینے بھر کا جیب خرچ کبھی چاکلیٹس اور کبھی اس کے پسندیدہ لباس اور جیولری پر صرف کر دیتا اور صنم اپنے بانی کی جیپ خرچ کو اپنا ہی حق سمجھی آگر وہ ایسا سمجھتی اور بجا کرتی۔
آخر سبحان کی ذندگی کا واحد مقصد اسکے چہرے پر مسکان لانا ہی تھا۔۔۔۔۔۔ جبکہ وہ بانی پر خود سے زیادہ حق جماتی اسے کسی سے دوستی نہ کرنے دیتی اور نہ خود کسی سے اتنی
بے تکلفی برتی وہ اسے اپنا ہم راز مانتی اور اپنا سب کچھ اس کے گوشگزار کر دیتی۔
اماں اسے اکثر ڈپٹتیں کہ نا محرم سے اتنا فری نہیں ہوا کرتے چاہے وہ اپنا گھر کا فرد ہی ہو لیکن عزیز صاحب صنم کے ابا یہی کہ کر ٹال دیتے کہ سبحان جیسے فرشتہ صفت انسان پر وہ آنکھ بند کر کے یقین کر سکتے ہیں۔
------------------------------------------------------------

جنوب کی طرف پہاڑ تھے ، کسی بھی طرح طاقتور پہاڑوں کی طرح مسلط نہیں تھے ، لیکن خوشگوار یہ کہ اپنی خود کی خوبصورتی سے حیران کن تھے۔ پہاڑی کے اوپر ، مشرقی آسمانوں کا سامنا کرتے ہوئے کسی نے دیکھا کہ پیلے سونے کی روشنی تیزی سے طلوع آفتاب میں ابھر رہی ہے ۔ پہاڑیوں کے شمال میں شہر پڑا ہے یعنی شیکاگو اور جیسے ہی کسی نے صاف نیلے آسمانوں کے نیچے اس کے اونچے ڈھانچے کی چوٹیوں کو سنہری چمک کے ساتھ دیکھا اس نے شہر پر ایک نئی امید کے سحر کو محسوس کیا۔
ہمیں صبح کی دعا کرنے کی ضرورت ہے رب نے ہمیں رات بھر باہر رکھا ہے لہذا ہمیں اس کا شکریہ ادا کرنے اور اس کی تعریف کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دوسرا دن دیکھ سکیں اور اس سے اپنے دن کی رہنمائی کرنے کو کہیں۔ ایسے میں زارون مصطفٰی سردار اپنے کمرے کے بغل میں موجود بالکونی میں کھڑے سورہ رحمان کی تلاوت کرتے کرتے قدرت کے اس منظر سے پر لطف ہو رہے تھے زارون اگرچہ پانچ وقت کا نمازی اور پرہیزی نہ تھے لیکن روز صبح سادق کے وقت اپنی بالکونی میں کھڑے سورہ رحمان کی تلاوت ضرور کرتے۔
تلاوت کرتے ہوے وہ سورہ کے الفاظ میں اس قدر کھو جاتےکہ تلاوت کے اختتام پر ان کے
کا چہرہ گرم پانی سے لباب ہوتا بلکہ وہ ہی نہیں زارون کے ساتھ والے فلیٹ کی بالکنی میں بھی کوئی کھڑا ان کے انداز تلفظ اور الفاظ سے لا تعلقی کے باوجود خود کو ان کے الفاظ کے حصار میں گرفتار سمجتا۔ اور روز صبح انہیں سننے کی غرض سے گھنٹوں ان کی آواز کا انتظار کرتا اور یہیں سے ہوئی تھی ابتدا عشق کی جسے آگے جا کر بڑے بڑوں پر رغبت حاصل کرنا تھی۔

اب عشق خدا سے کر لے تو
دنیا سے کنارہ کر لے تو

ہیں بیوفا یہ لوگ سبھی
لوگوں سے بھی اب ڈر لے تو

ہر طرف اندھیرا ہے تیرے
راہوں کو روشن کر لے تو

عشقِ حققی کا راستہ
تیرے سمنے ہے اب چل لے تو

کیا سوچ رہاہے تو شہزاد۔۔۔۔
ابھی وقیت ہے دامن پکڑ لے تو
_________________________________________

Your feedback means a lot ❤ 😊

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Where stories live. Discover now