قسط نمبر 14

24 2 0
                                    

رمضان میں جب وہ دونوں روزے سے ہوتے تو وہ ان کے تہوار کا احترام کرتے ہوئے دن بھر کچھ نا کھاتی خولہ ہزار بار کہتی لیکن وہ بھوک نہیں ہے کہ کر منع کر دیتی وہ اتنی احسان فراموش نہیں تھی کہ کچھ گھنٹے ان کی خاطر بھوکی نا رہ سکتی۔

اگرچہ وہ مسلمان نہیں تھی لیکن ان دونوں نے اسے اپنے ہر تہوار کا حصہ بنایا جہاں خولہ اپنے لیے شاپنگ کرتی اسے بھی زبردستی ساتھ لے آتی اس کے ہزار احتجاج پر بھی اسے ایک دو جوڑا لے دیتی۔
وہ دل ہی دل میں ان دونوں ان کے خدا اور ان کے دین سے مرغوب ہونا شروع ہو چکی تھی۔

وہ دونوں ایک مثالی کپل تھے ایسا کپل جو اس نے آج تک کبھی نا دیکھا ان کے رشتے میں محبت سے زیادہ احترام اور اعتماد تھا۔
"اچھے رشتوں کے لیے وعدوں اور شرطوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے صرف دو لوگ چاہیں جن میں ایک بھروسہ کر سکے اور دوسرا صبر کر سکے"

اعتماد ہر رشتے کی کنجی ہے جو وہ ایک دوسرے پر آنکھیں بند کر کے کرتے تھے۔

بعض اوقات عبداللہ کی نائیٹ ڈیوٹی ہوتی جبکہ خولہ اپنے ہاسپٹل ہوتی تو وہ اور مونیکا گھر میں اکیلے ہوتے لیکن آج سات سال گزرنے کے بعد بھی عبداللہ کی طرف سے نا کوئی بات نا کوئی بری نظر اسے دیکھنے کو ملی۔
ان سات سالوں میں مونیکا کی شخصیت میں ایک واضح ٹھراو آ چکا تھا وہ اگر پہلے حالات سے سمجھوتہ کرتی تھی اب اس نے صبر کرنا سیکھ لیا تھا۔

اس نے یونیورسٹی آف شیکاگو سے ماسٹرز اپنی قابلیت کے بل بوتے پر سکالرشپ پر کیا۔ پہلے پہل اس نے ان دونوں سے جاب کرنے کی زد کی لیکن وہ اس کی اس بات پر راضی نا ہوئے جبکہ عبداللہ نے اسے کہا تھا کہ جس دن وہ اپنی اسٹڈئیز مکمل کر لے اس دن وہ جاب کر سکتی ہے۔

زندگی جو اسے پہلے بے رونق لگتی تھی اب اسے اچھی لگنے لگی تھی اور اس میں مرکزی کردار عبداللہ اور خولہ کے دو جڑواں بچے دائم اور سائم نے ادا کیا مونیکا کے وہاں جانے کے ایک سال بعد ہی خولہ نے ان دونوں کو جنم دیا تھا۔
مونیکا نے ان دونوں کو ماں کی طرح چاہا تھا اگر خولہ ان کی ماں تھی تو وہ ماں سے کم نا تھی ان کی ہر چھوٹی بڑی زد ان کے ناز نخرے بطور خالہ کہ وہ اپنی مونا آنٹی سے ہی آٹھواتے تھے۔
زندگی بہت دلچسپ موڑ لے چکی تھی۔ اس نے اپنی اسٹڈئیز مکمل کرنے کے بعد اپنی ہی یونیورسٹی بطور پروفیسر جاب شروع کر دی تھی۔

اس عرصے میں اگرچہ اسلام کو بطور دین قبول نہیں کر پائی وہ مسلسل ایک احتجاج میں مبتلا تھی کہ کیا کرے آیا مسلمان ہو جائے یا پھر ایسے ہی رہے
لیکن وہ کرسچن بھی نہیں رہی تھی بلکہ اس نے اس مذہب سے تو تب ہی کنارہ کشی کر کی تھی جب چرچ کا فادر ہی اس کی عزت کا لٹیرا بن کو دوڑا۔

خولہ اور عبداللہ کی طرف سے اسے کوئی دباؤ نا تھا کیونکہ ان کے دین میں کوئی جبر نا تھا لیکن وہ ان کی عبادت دیکھ دیکھ کر سب کچھ سیکھ چکی تھی جو کہ ایک مسلمان میں بطور مسلمان ہونا چاہیے وہ اسلام کے تمام قواعد جان چکی تھی کس موقع پر کیا اور کس وقت کونسی عبادت ہوتی ہے۔

گھر میں وہ عبداللہ کے سامنے سر ڈھانپ کر ہی جاتی شاید خولہ کو دیکھ دیکھ کر اس میں یہ تبدیلی آئی تھی، لیکن اس کا باطن ایک غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی شفاف عائینے کی طرح تھا۔

ایک روز عبداللہ کو پاکستان سے اس کے والد کی وفات کی خبر ملی جس کی وجہ سے وہ چاروں کچھ عرصے کے لیے پاکستان چلے گئے جبکہ وہ ایک بار پھر تنہا ہو گئی تھی لیکن اب وہ مضبوط تھی اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں تھی۔
وہ اسے اپنا گھر سونپ گئے تھے جبکہ اس نے اس گھر میں رہنے کی بجائے ایک فلیٹ میں رہنے کو ترجیح دی کیونکہ اس گھر میں ان سب کی یادیں تھیں جو نا چاہتے ہوئے بھی اسے پھر سے کمزور بنا سکتی تھیں

وہ لوگ اس کی کمزوری بن چکے تھے لیکن وہ اپنی اس کمزوری کو اپنی مضبوطی بنانا چاہتی تھی۔
کیونکہ اسی کمزوری نے اسے مضبوطی دی تھی۔





_________________________________________


وہ فیصلہ کر چکی تھی وہ اپنے خوابوں کو حقیقت کا نام دینا چاہتی تھی اس لیے اس نے ہمت جمع کی اور لیاقت کو کال کی ابھی پوری طرح بیل ہوئی بھی نا تھی کہ دوسری طرف سے کال اٹھا لی گئی تھی۔

"زہے نصیب"

ایک عمر بھر میں طے یہ سفر مختصر ہوا
شہر خموشاں گھر سے بہت دور تو نہ تھا
لیاقت کے انداز سے اسے کوفت ہونے لگی۔
"بھائی میں صنم۔"
جی میں پہچان چکا جی کہیے کیسے یاد کیا جانتا تو وہ بخوبی تھا لیکن اتنی جلدی اس کی کال کی امید نا تھی
"لیاقت بھائی آپ نے بولا تھا آڈیشن کا میں کب تک جا سکتی ہوں"
دے لیں گے آڈیشن پہلے اس کے واجبات تو ادا کیجئے
"مطلب"
"واجبات مطلب اپنی کچھ تصویریں جس سے پتا لگایا جا سکے کہ واقعی آپ میں اس فیلڈ میں آنے کے کیڑے پائے جاتے ہیں"
لیکن میرے پاس تو کوئی تصویر نہیں کیا پاسپورٹ سائیز تصویر چلے گی۔
"ہاہا ہاہا ہائے رے یہ معصومیت ارے پگلی میں کونسا تمہارا میٹرک کا داخلہ بھیج رہا ہوں جس کے لیے پاسپورٹ سائز تصویر درکار ہو گی"
ہمیں بڑے سائز کی چند تصویریں درکار ہیں
ایسے کرنا کالج سے واپسی پر میں تمہیں پک کر لوں گا پھر میں اپنے ایک دوست کے اسٹوڈیو جا کر ارجنٹ تصویروں نکلوا دوں گا۔
اس کے ساتھ اکیلے جانے کے نام سے وہ اندر تک لرز گئی لیکن اپنے فطری خوف کو جھٹک کر بہادر بنے کا ارادہ کرنے لگی
"ایکٹنگ کے لیے کچھ بھی"

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Where stories live. Discover now