قسط نمبر 2

51 4 0
                                    

چک دھوم دھوم
چک دھوم دھوم
چک دھوم دھوم
چک دھوم دھوم
گھوڈے جیسی چال ، ہاتھی جیسی دم
گھوڑے جیسی چال ، ہاتھی جیسی دم

گانے کے بول کے ساتھ ساتھ اسکی چھوٹی پتلی کمر بھی تھر تھرا رہی تھی

اے ساون راجہ کہاں سی آے تم

چک دھوم دھوم چک دھوم دھوم

چک دھوم دھوم چک دھوم دھوم

چک دھوم دھوم چک دھوم دھوم

ایک ہاتھ میں وائپر پکڑے دوسرا ہاتھ کمر پر رکھے وہ طوفانی بارش میں اپنے آپ کو کسی فلم کی اداکارہ سے کم نا سمجھ رہی تھی جبکہ دوسرے اداکار وائپر سرکار تھے وہ گانے کے بول کے مطابق اسٹیپ لے رہی تھی اور سبحان اس کی ناٹنکیاں دیکھ دیکھ کر لوٹ پھوٹ ہو رہا تھا

کوئی لڑکی ہے جب وو ہنستی ہے

باریش ہوتی ہے چنار چھنر چھم چھم

کوئی لڑکی ہے جب وو ہنستی ہے

بارش ہوتی ہے چنار چھنر چھم چھم

کوئی لڑکا ہے جب وو گاٹا ہے

چک دھوم دھوم چک دھوم دھوم

چک دھوم دھوم چک دھوم دھوم

ساون آتا ہے گھومر گھومر گھوم گھوم

وہ ایک انتہائی اسٹیپ لینے ہی والی تھی کہ کمر پر پڑھنے والے دھموکے نے اسے دن میں تارے دیکھا دیے

کوئی لڑکا ہے جب وہ گاتا ہے
ساون آتا ہے گھومر گھومر گھوم گھوم
گھوڈے جیسی چال ، ہاتھی جیسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دھماکے کے ساتھ لاوڈ سپیکر زمین بوس ہوا اور گانے میں گھوڑے کی لگام تھمی۔ سبحان نے تعجب سے پیچھے دیکھا جہاں صغراں تائ جوالہ مکھی بنے ان کی طرف ہی قدم بڑھا رہی تھیں۔ سبحان نے صنم کو بھاگنے کا اشارہ کیا لیکن یہ کیا تائ بجلی کی رفتار سے صنم تک پہنچیں اور اس کی چٹیا مروڑی کہ ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی جس سے دیواریں بھی پناہ مانگیں۔ تائ اسے چٹیا سے پکڑے گھمانے لگیں اور صنم کو لگا کے اس کی کھوپڑی میں جیسے سلاخیں دھنس گئ ہوں
نا اب گھوم ذرا کیا تھا وہ گھومر گھومر گھوم چل آ تجھے تو گھماوں۔
سبحان فورا ان کے پاس پہنچا اور اسے چھڑوانے لگا
" تائ کیا کر رہی ہیں ہم بس فلم فلم کھیل رہے تھے چھوڑیں اسے" تائ نے ایک غصیلی نگاہ سبحان پر ڈالی اور گھما کر اسے چوڑا کچھ اس طرح کے وہ زمین بوس ہو گئی۔
سبحان فورا اس کے پاس پہنچا اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر سہالانے لگا۔
سب تیرا کیا دھرا ہے تو ہی اسے آئے روز کبھی فلم تو کبھی گانوں کی سی ڈیاں لا کر دیتا ہے۔
غضب خدا ابھی کل تیری ساتویں میں شاندار نمبروں سے فیل ہونے کی خبر آئی کچھ تو شرم کر سبحان کو دیکھ لے آج تک سکول میں اس کے لیے پائ نہ دینی پڑی اپنی محنت اور ذہانت سے ہر بار ٹاپ کرتا آیا اور تو سارے محلے میں میری ناک کٹوا دی۔

"ہنہ پہلے سے کٹی ناک کو کیا کاٹنا" وہ ان کے ناک پر لگے بڑے سے کٹ کے نشان کو تنقید کرتی ہوئ بولی
تائ اس کی طرف لپکنے لگیں تو سبحان نے انہیں آخری بار کا واسطہ دے کر روک دیا۔

دو بار ساتویں فیل ہوئی کلموہی ابھی بھی تھوڑی شرم پلے بچی ہے تو اس بار کم از کم فیل ہونے کی رسم قائم مت رکھنا۔ نہیں تائ اس بار صنم ضرور پاس ہو گی دیکھیے گا۔ ہنہ تو تو ہر سال یہی راگ الاپتا ہے کوئی نتیجہ تو نہ دیکھا اب تک۔۔۔۔۔۔
وہ منہ میں بڑبڑاتتں گھر کے اندر غائب ہو گیں کیونکہ یہ اسکا ہر بار کہے جانے والا کلام تھا جب بھی وہ فیل ہوتی وہ گھر میں کسی کو کچھ بھی کہنے سے منع کر دیا کرتا کہ اگلی بار خوب جم کر محنت کرے گی اور امتیازی نمبروں سے پاس ہو گی لیکن ہر بار نتیجہ پہلے سے بھی بدتر ہوتا۔
وہ ایسا ہی تھا اسکی ہر برائی پر پردہ ڈالنے والا اس کے ہر چھوٹے بڑے کام کرنے والا اب چاہے وہ سکول کا ہوم ورک ہو یا گھر کا جھاڑو پوچا۔ عمر میں اس سے بس چار سال بڑا تھا لیکن اپنے سے چھوٹی سولہ سالہ صنم اسے ہر چیز سے عزیز تھی۔ اسے ذرا سا بخار ہوتا تو ساری ساری رات اس کی تیمارداری کرتا ۔
اسکے ہر کام خندہ پیشانی سے کرتا ذبان سے آف تک نہ کرتا کے کہیں وہ برا نہ مان جائے۔ لیکن وہ یہ نہ جانتا تھا کہ حد سے زیادہ لاڈ بھی کبھی کبار وبالے جان بن جایا کرتے ہیں ۔ کسی کی غلطیوں پر پردہ پوشی کرنے سے نقصان سراسر اپنا ہی ہوتا ہے۔

لا شعوری طور پر مجھ کو محبت ہو گئی
رفتہ رفتہ ایک لڑکی میری زندگی ہو گئی.....

وہ میٹرک تک تعلیم حاصل کر چکا تھا۔ اور دسویں کے بورڈ میں پوزیشن لینے کی وجہ سے اسے دس ہزار انعام بھی دیا گیا جن میں سے آدھے پیسوں سے وہ صنم کے لیے ایک بڑا میوزک پلئر خرید لایا جبکہ آدھے پیسے فلموں گانوں کی سی ڈیاں خریدیں تھیں۔۔۔۔۔

سبحان اسے اٹھائے کمرے میں لایا اور پلنگ پر لٹایا۔ بانی تم نے دیکھا اماں کس طرح مجھ پر چیخ رہی تھیں یہاں کوئی میرا سگا نہیں سب میرے ٹیلنٹ سے جلتے ہیں کوئی نہیں چاہتا کہ میں ہیروئین بنوں۔۔۔۔ سوں سوں کرتی وہ ٹسوے بہا رہی تھی جب بانی ایک ہاتھ میں درد کی دوا جبکہ دوسرے ہاتھ میں پانی کا گلاس اسے تھما رہا تھا ۔
ایسی بات نہیں ہے صنم بس وہ تم سے تمہارے رزلٹ کی وجہ سے نالاں ہیں جبکہ میں نے انہیں زبان دی تھی کہ تم اس بار اچھے نمبر لو گی اور پاس ہو گی کیونکہ مجھے اپنے سے ذیادہ تم سے امید تھی کہ میری بات کا بھرم رکھو گی۔۔۔
اسکا انداز ہی ایسا تھا کہ وہ نا چاہتے ہوئے بھی شرمندہ ہو گئ
"تم بھی مجھ سے تنگ آ گئے نہ تمہیں بھی مجھ سے شکوہ ہے۔ تمہیں بھی میں بری لگنے لگی ہوں نا" ؟
وہ اپنے نین کٹوروں میں ڈھیر سارا پانی بھرے اس سے شکوہ کر گئ یہ جانے بغیر کہ اس کی یہ باتیں اس کے دل پر وار کر رہی تھی بہلا جو دل پر حاکم ہوں انکی برائ کہاں قائم رہتی وہ تو اسکے دل میں پچھلے سولہ سالوں سے حاکم تھی۔ اور حاکم بھی ایسی تھی کہ اسکی ہر فرمائش پر ہتھیار ڈالنے پڑھتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Press the star button if you liked my work

Comment if you're willing to Read more

Share to everyone

Throw donuts and be happy 😊

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Where stories live. Discover now