قسط نمبر 13

18 2 0
                                    

ریل وے سٹیشن کھچاکھچ لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ لوگوں کی گہماگہمی عروج پر تھی کوئی اپنے پیاروں کا انتظار کر رہا تھا تو کوئی انہیں الوداع کہنے آیا تھا

انہوں نے جو اسٹیشن کی عمارت تعمیر کی ہے اس کی شکل و صورت اور گردونواح کے مناظر میں ایک روایتی ریلوے سٹیشن کی تمام جزئیات کا خیال رکھتی ہے۔
یہاں ٹرین کی آمد کا اعلان کرتی گھنٹی بج رہی تھی ، مسافروں کے لیے بنچز بھی موجود تھے۔ عمارت کے ساتھ ہی پنڈ سلطانی کا بورڈ بھی لگا ہوا تھا۔ سامنے ریل کی پٹڑی بچھی نظر آتی تھی جس کے درمیان میں اور اردگرد چھوٹے پتھر سجے نظر آتے تھے۔

ایک طرف سرخ رنگ کی بالٹیاں دکھائی دے رہی ہیں جن پر آگ لکھا ہوا تھا۔ پرانی طرز کے ریلوے اسٹیشنز پر یہ سب کچھ آج بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

سامنے سے ایک کمرہ بنا ہوا ہے جس کے اوپر دفتر سٹیشن ماسٹر لکھا ہوا تھا ادھر ہی ایک ٹکٹ گھر تھا جہاں جا کر اس نے ٹکٹ خریدی ۔ایک طرف ٹرینوں کا ٹائم ٹیبل لکھا ہوا تھا۔

۔ ۔

ایسے میں ایک عورت سات ماہ کی چھوٹی سی بچی کو اپنے کاندھے سے لگایا ہوا تھا کاندھے پر بڑا سا پرس لٹکایا ہوا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں چھوٹا سا بکسہ تھاما ہوا تھا وہ اس نے ٹرین کے ڈبے پر پہلے اپنا بکسہ رکھا پر بچی کو کس کے تھامے ٹرین پر سوار ہوئی۔

ٹرین میں جگہ اسے تھوڑی مشکل سے ملی جو کہ ایک پکی عمر کی عورت کی نوازش تھی
اس نے اپنا سامان سیٹ سے اٹھا کر نیچے رکھا اور اسے بیٹھنے کو جگہ دی۔
سفر جاری تھا ایسے میں وہ عورت اسے ایک کپ چائے کا پیش کرنے لگی جسے اس پر اس نے بڑی ذہمت سے انکار کیا۔ تکان اور کمر درد سے جسم ٹوٹ رہا تھا لیکن تکلف کے باعث انکار کر گئی۔

"ارے لے لو بہن شرمانا کیسا ویسے بھی تیری شکل پر بجے بارہ دیکھ کر میں جان گئی تھی کہ تو پہلے سے ہی مسافر ہے اور بڑا لمبا سفر تہ کر کے آئی ہے"۔
"جی شاید میری زندگی میں سفر کرنا ہی لکھا ہے"۔
"تیرا بندہ نہیں آیا ساتھ؟"

" ان کا انتقال ہو گیا اس عورت کو وہ تکان کے باعث بمشکل ہی جواب دے پا رہی تھی" لیکن اس کے سوالات اس کا دل چیر رہے تھے

سفل ہوا آخر میرا سفر خاص پرانا
بہت متوقع تھا اس سے میرا ٹھکرایا جانا

اظہارِ وفا تو محض ایک بہانہ تھا ورنہ
کہاں باقی تھا اس میں وہ شحض یار پرانا


"اللہ مالک کیا کہ سکتے ہیں ابھی تیری عمر ہی کیا تھی بڑا افسوس ہوا سن کر خدا تجھے حوصلہ دے
کیا تو پشاور سے ہے وہ اس کے سوالات سے عاجز آ کر ہاں میں سر ہلا گئی
اسی لیے میں کہوں ایسا چٹا دودھ رنگ یہاں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے
"جانا کہاں ہے تجھے کیا میکہ سیالکوٹ میں ہے؟"
میلے کا نام سنتے ہی اس کے دماغ میں ایک روح پرور واقعہ گردش کر گیا
اس نے نفی میں سر ہلا دیا کیا کوئی رشتے دار
"نہیں"
"او تیری مطلب سیالکوٹ تو اکیلے کیا کرنے جا رہی ہے جب تیرا وہاں کوئی ہے نہیں تو"
"سیر سپاٹے کو تو وہاں کچھ ہے نہیں تو پھر"
میں اپنی بچی کی حفاظت کے لیے سیالکوٹ میں پناہ لینا چاہتی ہوں یہاں اس کی جان کو خطرہ ہے
"سیالکوٹ میں کیا تھانے رہے گی جو اس کی جان کے دشمن اسے کچھ نہ کہیں گے"
"تو پھر کسی یتیم خانے چلی جاؤں گی"
کیا تو نہیں جانتی کہ کسی کو بھی ڈھونڈنا ہو تو لوگ پہلے یتیم خانے ہی چھانتے ہیں"
اس عورت کی باتیں اس کا آدھا خون چوس چکی تھیں جبکہ وہ انہیں بڑے مزے سے سن رہی تھی گویا صرف وہ ہی رہ گئی تھی باتوں کے لیے
"کیا تم میرے گھر چلو گی؟"
"کیا! نہیں میں اس طرح کسی کے گھر کیسے جا سکتی ہوں"
"یا تو تم عقل سے پیدل ہو ہو یا پھر مجھے پاگل بنا رہی ہو"
"میں سمجھی نہیں"
"کس قدر صفائی سے اپنا راز جو اس وقت تیری سب سے بڑی کمزوری ہے مجھے دے گئ"

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Where stories live. Discover now