قسط نمبر 5

19 2 0
                                    

شدید سردی کے موسم میں وہ دونوں یونیورسٹی کے کیفیٹیریا میں بیٹھے کافی اور پائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ معراج کب سے ضبط کر رہا تھا جب رہا نہ گیا تو بول پڑا "یار زارون میں نے نوٹ کیا ہے مس مونیکا تجھے بڑے غور سے دیکھ رہی ہوتیں ہیں"
تیرے دماغ کا خناس ہے اور کچھ نہیں اگر ایسا ہوتا تو مجھے ضرور پتا ہوتا اور تو کیوں میری پھوپھی بن رہا ہے۔
"دھیرج دھیرج میں نے تو وہ کہا جو میں نے دیکھا
دل کی گہرائیوں سے لعنت ہو تیرے مکھڑے پر تیرا روز کا یہی ڈرامہ ہوتا ہے کبھی وہ دیکھ رہی ہوتی ہے تو کبھی کوئی اور تو ایک کام کیوں نہیں کرتا بزنس چھوڑ کر پھپھئیالوجی میں ماسٹرز کر لے بڑا سکوپ ہے۔ دیکھ یہ زیادہ ہوگیا ہے ٹھیک ہے اگر تو نہیں مانتا تو نہ مان لیکن جو پوری کلاس تیرے اور میم کے بارے میں باتیں کر رہی ہے اس کا کیا؟
جبکہ معراج کی بات سن کر کافی پیتے زارون کو اچھو لگا۔۔۔۔ یہ کیا بکواس ہے ۔۔۔
جوڑوں کا درد کیا ہے
یہ جوڑے ہی جانتے ہیں
کنواروں کو اس کا کیا علم۔۔۔۔۔۔
ہو گئی تیری لنڈے کی شاعری؟
تو بتا اصل بات کیا ہے
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں فی سبیل اللہ چپیڑیں مارنے کو دل کرتا ہے۔۔۔ اچھا نا اصل مداع بیان کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معراج کی بات سن کر پہلے تو اسے یقین نہ آیا یہ نہیں تھا کہ وہ اس بات سے غافل تھا اس نے بارہا مونیکا میم کو اپنے آپ کو تکتے پایا لیکن ہر بار وہ غلط فہمی سمجھ کر اگنور کر دیتا لیکن اب بات اسکی ذات کی تھی جس پر وہ رتی برابر آنچ نہ آنے دیتا ۔ وہ مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ عورت ذات کی عزت کرتا تھا۔ اسکے نے عورت ذات میں صرف اپنی ماں کو ہمیشہ اپنا ساتھی ٹھہرایا اور اس کی ماں کے علاوہ اسے کسی عورت سے واسطہ نہ تھا۔ لیکن اپنی ذات پر انگلی اٹھے یہ اسے قطعی برداشت نہ تھا۔ معراج کی بات سن کر وہ اس بات کو جڑ سے ختم کرنے کی ٹھان کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا کیفیٹیریا سے نکلتا چلا گیا پیچھے رمیز اس کے اس ردعمل پر گھبرا کر رہ گیا اور اسکے پیچھے لپکا
_________________________________________

سیالکوٹ شہر کے ایک روپوش علاقے کا ایک چھوٹا سا گھر جہاں صنم اس کے ابا عزیز بلوچ اماں صغراں بی بی چچا یوسف بلوچ اور انکا صاحبزادہ سبحان رہائش پذیر ہیں سبحان کی ماں اس کے بچپن میں ہی تب دق کے موذی مرض سے دار فانی سے رخصت ہو گئیں جبکہ سبحان کو اسکی تائ صغراں نے اپنے بیٹے کی طرح پالا تھا۔ وہ بچپن سے ہی فرمانبردار اور گھر والوں کی آنکھ کا تارا تھا ۔ جبکہ صنم اس کے مترادف اگرچہ اس سے چار سال چھوٹی تھی لیکن اپنے ابا چچا اور سبحان کی لاڈلی تھی بچپن سے ہی اسے فلموں گانوں کا شوق تھا وہ زیادہ تر ٹی وی کے سامنے پائ جاتی جبکہ سبحان بیس سال کا تھا کالج اور کالج سے واپسی پر ایک اکیڈمی میں ٹیوشن پڑھاتا گھر آتا تو صنم کو پڑھاتا البتہ وہ پڑھتی کم لاڈ زیادہ اٹھواتی۔۔۔۔۔

وہ آنکھوں میں بھر بھر کے کاجل لگائے لال گوٹے کا کامدار سوٹ پہنے لال انگاری لیپسٹک لگانے لگی۔ اپنی تیاری کو فائنل ٹچ دیے وہ گنگناتے اپنے کمرے سے دالان میں آئ تو وہاں لکڑی کے تختے پر بیٹھیں اماں کی نظروں میں آ گئ۔ اے شکورن یہ لال بیگ بنے کہاں کی تیاری ہے۔ "اف اماں سارا ٹیمپو ہی توڑ دیا بتایا تو تھا کل فائزہ کی بہن کی مہندی ہے وہیں جانا تھا۔ خبردار جو اس طرح تو نے باہر ایک قدم بھی نکالا۔ کیا کرتی ہو اماں اب شادی پر کون نقاب اور چادر اوڑھے ویسے بھی گلی کے نکڑ تک ہی تو جانا ہے کونسا ولایت جا رہی ہوں اور یہ سوبی کہاں رہ گیا میں نے گجرے منگوائے تھے۔
ارے صغراں بہن کیوں بچی کے ساتھ مغز ماری کر رہی ہو جب کہتی ہے ساتھ ہی گھر ہے تو فکر کیسی ویسے بھی سبحان میاں جائیں گے نہ چھوڑنے بچی کو۔ لو کر لو بات پہلے وہ سبحان کیا کم تھا جو اسکا ایک اور حمایتی آ گیا۔ ہا ہا حمایت کی کیا بات ہے یہ تو بچی کا حق ہے یہی تو دن ہیں جوانی کے۔ "شکریہ یوسف چچا۔ چلو جاو کمرے میں چادر اوڑھ کر آو سبحان آتا ہی ہوگا۔
تھوڑی دیر بعد فضا میں سبحان کے سلام کی آواز گونجی۔ وعلیکم السلام جیتے رہو میرے بچے ۔ تائ صنم چلی گئی کیا؟ ارے کہاں وہ محترمہ تو گجروں کی تاک میں ہیں جاو کمرے میں ہے دے آو۔۔
اس نے کمرہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اجازت ملنے پر اندر آیا وہ اپنی نگاہیں زمین پر ہی مذکور کیے گجرے اسے تھما دینا چاہتا تھا لیکن دل پر ہزار بند باندھنے کے بعد بھی جب دل بغاوت پر اترا تو تھورا سا سر اوپر کر کے دیکھا لیکن یہ کیا وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔

سبحان کی یہ نگاہ مختصر اس کے دل پر تا ازل پشیمانی کا باعث بن چکی تھی وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا جہاں کوئی اس کے پاکیزہ احساسات کو جان نہ پائے۔ وہ سربازار اپنی محبت کا علان کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ اور اسے لازوال چاہتا تھا لیکن صنم کی کچی عمر میں اسے آدمی ذات سے بدگمان کرنا نہیں چاہتا تھا وہ اسے اس کی سوچ کے مطابق اپنے پاکیزہ جذبات کی مالا پہنانا چاہتا تھا اور اس کا ہر عمل اس مالا کے چمکتے موتی جیسا تھا شفاف پاک اور اسکا ہر عمل اسکے صاف اور مضبوط کردار کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
"سوبی کہاں کھو گئے کیا میں اچھی نہیں لگ رہی اور میرے گجرے؟" سبحان ہڑبڑایا جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو ہاں یہ رہے اس نے گجروں کا شاپر اسے تھمایا اور اور الٹے قدموں مڑنے سے والا تھا کہ اسکا ہاتھ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکا ہاتھ صنم کے ہاتھ میں تھا۔ "کہاں چلے مجھے چھوڑ کر کون آئے گا؟" یہ لڑکی آج ضرور مجھے مارنے پر تلی ہے۔ " تم تیار ہو کر آو میں باہر انتظار کر رہا ہوں۔ ایک بھی نگاہ غلط اس پر ڈالے وہ لاحول ولا کا ورد پڑھتا باہر نکلا۔
صنم باہر نکلی تو وہ اسی کا انتظار کر رہا تھا۔ وہ لوگ پیدل چلنے لگے تو سبحان بولا " صنم کیا میں تم سے کچھ مانگوں تو دو گی؟"
ارے یہ کونسی بڑی بات ہے میں اپنے سوبی کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں۔ دل صنم کے اس مان اور حق جتانے کے انداز پر سرخرو ہوا۔
کیا تم میرے لیے اپنی لیپسٹک مٹا سکتی ہوں؟ پہلے تو صنم اس کی اس انوکھی فرمائش پر حیران ہوئ لیکن اس کی پہلی فرمائش اور اسکے اس پیارے انداز کا مان رکھتے ہوئے دوپٹے کا پلو پکڑ کر لبوں پہ لگایا اور اپنے لبوں پر رگڑ کر ساری لیپسٹک مٹا دی ۔ اب خوش؟
بہت خوش ۔ ویسے کیا یہ رنگ مجھ پر اچھا نہیں لگ رہا تھا؟ تبھی میں کہ رہی تھی کہ تم آج اتنا کیوں گھور رہے تھے پہلے تو دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ اب اسے کون بتاتا کہ وہ ایسا کر کے سو بار اپنے دل کو ملامت کر چکا تھا اس کی بات سن کر وہ تھوڑا خجل ہوا لیکن سنبھل کر اسے کہا "نہیں ایسی بات نہیں پہلے کبھی تم اتنا تیار نہیں ہوئ نا اس لیے تھوڑا حیران تھا۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسے فائزہ کے گھر چھوڑ کر واپسی کی بابت معلوم کر کے کھر کو چل دیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



Press the star button if you liked my work

Comment if you're willing to Read more

Share to everyone

Throw donuts and be happy 😊

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Where stories live. Discover now