قسط نمبر 11

14 2 0
                                    

دھڑام سے اس نے دروازہ بند کیا اور بیڈ پر اوندھے منہ گری آج اسکا غرور خاک میں مل گیا تھا سبحان جسے وہ اپنا سب سے بڑا ہمدرد مانتی تھی وہی آستین کا سانپ نکلا۔ 

اگر ساری دنیا بھی اسے اس کے خلاف کچھ کہتی تو وہ یقین نا کرتی لیکن اس کا کیا کرتی جو اس نے اپنے کانوں سے سنا۔ اسکا دوست ہی اسکے خوابوں کا دشمن نکلا۔ کبھی سوچا نہیں تھا کہ بانی اس کا  مان اس بری طرح روندے گا۔

اگلی صبح وہ کالج سے واپسی پر فائزہ کے گھر چلی گئی اور اسے  سوں سوں کرتی کل کے بارے میں بتانے لگی دوسری طرف دروازے کی اوٹ میں کھڑا لیاقت آگے کے لاہائے عمل کے بارے میں سوچنے لگا۔
صنم فائزہ کے گھر سے نکلنے لگی جب لیاقت نے اسے روکا۔ "کیا میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں؟"
"کس سلسلے میں؟" تمہارے خوابوں  کے سلسلے میں " آپ کیا جانتے ہیں میرے خوابوں کے بارے میں"

"وہی سب کچھ جو فائزہ جانتی ہے یا اس سے بھی زیادہ دیکھو اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے چپ رہنے کو کہا اگر تم کہو تو میں اپنے ایک دوست سے بات کر سکتا ہوں جو کے لاہور میں آڈیشن لینے والے ادارے کے سربراہ کا سیکرٹری ہے اگر تو میں تمہاری اس سے سفارش کر دوں تو وہ تمہیں بغیر پرکھے بھی اس شعبے میں رکھ سکتے ہیں"
لیاقت بھائی میں اپنے خوابوں کی تکمیل اپنی محنت کے بل بوتے پر کرنا چاہتی ہوں"
"کیا تمہارے گھر والے کرنے دیں گے؟ اور کیا سبحان مان گیا ویسے تو بڑا خدارا بنا پھرتا تھا"
"نہیں بانی نہیں مانا لیکن میں اسے منا لوں گی"

"وہ کبھی نہیں مانے گا میں نے ایک عرصہ اس کے ساتھ گزارا ہے بہت اچھے سے جانتا ہوں اسے وہ مر تو جائے گا لیکن تمہیں کبھی اس فیلڈ میں جانے نہیں دے گا"  لیاقت کی بات سو فیصد درست ثابت ہوئی تھی۔ وہ ایسا ہی تھا اسکی معاملے میں جسکا ثبوت کل کی اس کی گفتگو تھی۔

"تو اب میں کیا کروں؟" بھول پن میں وہ اسے اپنی کمزوری دے چکی تھی۔ 
اس نے اسے ایک پرچی دی
"یہ نمبر رکھ لو جب تمہیں لگے تم ایک انتہائی قدم اٹھانے کے لیے راضی ہو تو مجھے کال کر دینا باقی سب میں دیکھ لوں گا"

وہ گھر واپس آئی تو سبحان صحن کے چکر کاٹتے ہوئے نظر آیا۔
اتنی دیر لگا دی اور کالج سے کس کے ساتھ آئی ہو پتہ بھی ہے ہم کتنا پریشان ہو رہے تھے اور میڈم ہیں کہ فون کر دیا کہ فائزہ کے گھر ہوں یہ احسان بھی نا کرتی سبحان اسکے  آتے ہی اس پر برس پڑا جو سبحان کے اس رویے کی عادی نا تھی روتی ہوئی اپنے کمرے میں دوڑی اور اندر سے لاک کر لیا۔
سبحان اس کے سوری کرنے یا لڑنے کی توقع رکھتا تھا لیکن اس طرح منہ پھیر کر جانے سے وہ بھی تشویش میں مبتلا ہو گیا اور اسکے کمرے کی طرف بڑھا

دروازہ کھولو صنم جواب ندار دو تین بار اس کے کہنے پر بھی اس نے جواب نا دیا تو اماں پیچھے سے بولیں "جب عقل ٹھکانے آئے گی خود ہی آ جائے گی باہر اتنے ہلکان نا ہو لو بھلا یہ بات ہوئی ذرا سی بات پر منہ پھلائے کمرہ بند کر لیا"
اماں میری ہی غلطی ہے مجھے اس طرح ڈانٹنا نہیں چاہیے تھا "بس میاں نکل گئی تیری پھونک دم لے تھوڑا خود ہی نکل جائے گی"

پچھلا ایک گھنٹہ اس نے سولی پر لٹکے گزارا تھا وہ تھی کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ اب اس سے مزید برداشت نہ ہوا تو پھر سے دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اس بار تھوڑے غصے سے بولا صنم دروازہ کھولو ورنہ توڑ دوں گا
صنم  نے غصے سے دروازہ کھولا
"کیا ہے سو رہی تھی مر نہیں گئی تھی جو اتنا شور مچا رہے ہیں"
صنم!!!! اس بار اس کا ہاتھ اٹھا لیکن صنم بے یقینی سے اسے دیکھے گئی بس یا ایک اور مارنا ہے سبحان کے اندر بے یقینی ہی بے یقینی تھی  اس نے آج تک جس صنم کو چاہا تھا وہ ذدی تھی، لیکن ہٹ دھرم بلکل نہیں تھی اپنی غلطی پر اسے سوری بھی کر لیتی تھی وہ اب بھی اسی چیز کی توقع کر رہا تھا لیکن اس کے مرنے والی بات اسکے برداشت سے باہر تھی
"اس لیے کھلوایا تھا دروازہ کام پورا ہو گیا نا آپ کا تو اب میں جاؤں؟
‏تیرے بدلے ہوئے لہجے سے کہیں بہتر ہے
ہم جدائی کی اذیت ہی گوارا کر لیں

کچھ خدا ایسا کرے تجھ کو محبت ہو جائے
تُو پکارے ہمیں __ہم تجھ سے کنارا کر لیں

سبحان بے یقینی کے عالم میں اپنے کمرے میں چلا گیا دوسری طرف وہ بھی اس کے سوری کی توقع رکھتی تھی زندگی میں پہلی بار اس نے ہاتھ اٹھایا تھا اس پر لیکن ایسے ہی چلا گیا۔ بے یقینی اور اعتماد ٹوٹنے کی ایک اور وجہ قائم ہو چکی تھی۔

_________________________________________

ماہ و سال گزرتے گئے اور وہ بھی جس کا نام مونیکا تھا  یونیورسٹی جانے لگی جبکہ اس کی ماں آج بھی ایڈورڈ کو نا بھلا پائی اور شدید گریہ و زاری سے کمزور اور بیمار پڑنے لگی دن مہینوں اور مہینے سالوں میں بدلتے گئے لیکن انجلینا اسے نا بھلا پائی جبکہ ایڈورڈ کے لیے تو وہ صرف عارضی عائش کا سامان تھی۔ ایک روز جب میں یونیورسٹی سے گھر آئی تو اپنی ماں کو مردہ حالت میں پایا۔  

دکھ تو اس بات کا ہے کہ اگر میرے باپ نے مجھے نہیں اپنایا تو میری ماں نے اپنا کر کیا کر لیا۔
ہر وقت ایڈورڈ کے خیالوں میں رہنا مجھے اس سے جدائی کی وجہ کی خاطر گھنٹوں پیٹتے رہنا اور جب مار مار کر تھک جاتیں تو گلے لگا لینا اور پھر سے وہی باتیں دہرانا کہ میری وجہ سے ان دونوں کا بریک اپ ہوا۔
ماں شاید یہ نہیں جانتی تھیں کہ اس معاشرے میں مرد موسموں کی طرح گرلفرینڈ بدلتے ہیں۔ اگر وہ انہیں اتنی ہی محبوب تھیں تو شادی کیوں نا کی ان سے۔
مجھے ماں کا مہینہ مہینہ اگنور کرنا اتنا اذیت دیتا کہ میں ایک سیدھی سادی لڑکی سے ایک ڈرگ وکٹم بن گئی۔ ان ڈرگز نے مجھ پر بڑا احسان کیا۔ ماں مجھے مارتیں، ڈانٹتیں یا اگنور کرتییں مجھ پر کسی بات کا اثر نا ہوتا۔
شاید جب ماں مری تھیں تب بھی میں نشے میں تھی اس لیے پوری رات ایک ڈیڈ باڈی کے ساتھ سوئی رہی یہاں تک کہ مجھ پر مردہ بدن سے آنے والی بدبو کا اثر بھی نا ہوا۔

صبح جب میں یونیورسٹی سے واپس آئی تو لوگوں کا ہجوم اپنے گھر کے باہر دیکھا وہ دیکھ کر میں چاہتے ہوئے بھی ریئکٹ نا کر پائی جبکہ لوگ اسے صدمے کا نام دینے لگے۔ میری زندگی میں باپ کا کوئی کردار نہیں ہے جبکہ ماں کا کردار بس پیدا کرنے تک کا تھا یا پھر دو وقت کی روٹی، کپڑا  فراہم کرنے تک کا۔

_________________________________________


Comment about your thoughts

Hit the star icon

Do share with your friends

Stay calm and happy 😊

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang