قسط نمبر 17

15 2 0
                                    

گھنٹی کی آواز سن کر کچن میں کھانا پکاتا زارون دروازہ کھولنے گیا

"پراں مر"

معراج اسے دھکیلتا اندر گھسا

اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں

"کیا تکلیف ہے کبھی تو اپنی سستی ٹرکوں والی
شاعری کے بغیر بات کر لیا کر"

"شٹ آپ میری شاعری مجھے اپنے بچوں کی طرح عزیز ہے۔ "
"بچے!"
"تیرے بچے بھی ہو گئے کل تک تو کوئی سین نہیں تھا
کیا ڈاؤنلوڈ کیے ہیں"
"میرے بچے چھوڑ اپنی بتا پارٹی تگڑی پھنسائی تو نے"
"تو کیا کہنا چاہ رہا ہے؟"

"بڑا چھپا رستم نکلا لونڈا تو مطلب میں جب بولتا تھا کچھ کچھ ہے تو مجھے ڈپٹ دیا اور کل پری ہنی مون منایا جا رہا تھا"
"پری ہنی مون؟"
"مطلب کے شادی سے پہلے کے ملن ملان"

"بکواس نہ کر وہ بس کافی پی تھی اور وہ اپنا پوائنٹ کلئیر کرنا چاہتی تھیں۔"
مطلب کونسا پوائنٹ مارکیٹ میں منافہ کیسے کمایا جائے یا ٹرمپ کے گھریلو مسائل"

"پپو یار تنگ نہ کر" اچھا نہیں کرتا پہلے مجھے ہر ہر بات سے آگاہ کر"
ٹھیک
"اس نے الف سے لیکر ی تک ساری بات اسے بتا دی
تیرا کیا ہو گا کالیہ بات تو آگے تک پہنچ گئی کہیں عشق معشوقی تو شروع نہیں کر دی نا"

"در فٹے منہ لعنت العلوم ہو تجھ پے"
"میں ایک انتہائی پیچیدہ موضوع پر بات کر رہا ہوں اور تو ہے کہ۔۔۔"
"مطلب استاد کی طالب علم سے شاگردی"
ہاں یہی سمجھ
"بڑا سخت لونڈا ہے بھئی تو تو استاد سے استادیاں
حبیبی ثورہ ثورہ ثورہ"
"بعض اوقات لفظ کم پڑ جاتے ہیں
اور چماٹ بہت ضروری ہو جاتی ہے
ڈفر کہیں کا ۔"

_________________________________________

پانچ سال بعد

"صنم عزیز بلوچ اور رمیز خانذادہ کے بڑھتے تعلقات" ٹی وی پر اس بات کو ہیڈ لائن کے طور پر پیش کیا گیا جس کے ساتھ ان دونوں کی کچھ کل کی اور کچھ ایڈٹ کی گئی تصویروں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جا رہا تھا
سبحان پہلے تو ظبط سے سنتا رہا لیکن جب کان سننے سے انکاری ہو گئے تو آفس ٹیبل پر پڑا پیپر ویٹ پوری قوت سے آدھی دیوار پر لگی ایل سی ڈی پر پوری قوت سے دے مارا اور سکرین ہزاروں کرچئوں میں تقسیم ہو گئی۔

ایسا کرنے سے بھی اسکا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو آفس کے صوفوں پر لاتیں اور گھونسے مار کر اپنا ظبط آزمانے لگا جب کسی طرح بھی غصہ ختم نہیں ہوا تو بے بسی سے ذمین پر بیٹھتا چلا گیا اور ذمین پر کرچیوں کی پرواہ کیے بغیر زور زور سے ہاتھ مارنے لگا۔
باہر کھڑے ملازم شور کی آواز سن کر اس کے کمرے میں بھگے لیکن آگے کا منظر دیکھ کر وہ فوراً اپنے سر کی طرف بھاگے ان میں سے ایک نے کہا

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Where stories live. Discover now