قسط نمبر 20

20 2 0
                                    

ان دونوں کی شادی کو آٹھ ماہ ہو چکے تھے جب ایک دن زارون کو رات کے دو بجے پاکستان سے کال آئی
" ابو اس وقت خیریت"
خبر سن کر اس کے پیروں سے ذمین نکل گئی
" اچھا میں آج ہی آتا ہوں"
ساتھ سوئی نور اس کی آواز سن کر ہوش میں آئی اور اس سے پوچھنے لگی" کیا ہوا زارون خیریت "
دادا جان کو ہارٹ اٹیک آیا ہے مجھے جلد از جلد پاکستان جانا ہوگا"
"کیا میں بھی چلوں"
"نہیں آپ یہیں رہیں یا عبداللہ بھائی کی طرف چلی جائیں ہاں یہی بہتر ہے میں آپ کو وہاں جانے سے پہلے چھوڑ آوں گا ۔"
"اپنا بہت سارا خیال رکھیے گا میری امانت سمجھ کر خود کی حفاظت کیجئےگا اور کھانا ٹھیک سے کھائیےگا "

"آپ تو ایسے کہ رہے ہیں جیسے ہمیشہ کے لیے جا رہے ہیں"
"کیا پتہ زندگی اتنی ہو"
زارون میں ناراض ہو جاؤں گی آپ سے"
"اچھا سوری مذاق کر رہا تھا"
"مذاق میں بھی میں آپ سے جدائی برداشت نہیں کر سکتی "
"یہی حال کچھ ہمارا بھی ہے جاناں"
وہ اسے اپنے ساتھ لگائے کافی دیر بیٹھا رہا اسے چھوڑ کر جانا تو نہیں چاہتا تھا لیکن مجبوری تھی۔
وہ اسے عبداللہ کے گھر چھوڑ کر ائیر پورٹ چلا گیا۔
زارون نے پاکستان لینڈ کرتے ہی ہاسپٹل کا رخ کیا جہاں دادا جان ایڈمٹ تھے۔
وہاں ان لوگوں کو ہفتے سے زیادہ دن لگے کیونکہ دادا جان کو آئی سی یو میں رکھا گیا تھا۔
اس عرصے میں زارون نے بس ایک بار نور کو کال کی جو بس دادا جان کی خیریت بتانے اور اپنا خیال رکھنے کے لیے تھی۔ نور اتنے دنوں میں ہی اسے یاد کر کر کے آدھی ہو رہی تھی۔

وہ میری روح کی چادر میں آ کر بس گیا ایسے
کہ وہ نکلے تو روح نکلے جو روح نکلے تو وہ نکلے

_________________________________________

زارون دادا جان کی طبیعت کے باعث ان سے بات نا کر سکا لیکن وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ دادا جان کو اس بارے میں آج آگاہ کر ہی رہے گا۔ کیونکہ اب ان کی حالت کافی بہتر ہو چکی تھی۔ اس نے پہلے نور کو فون کرنا چاہا لیکن امریکہ میں اس وقت رات کے دو بجے فون کرنا اور اس کی نیند متاثر کرنا اسے مناسب نا لگا " بس کچھ دن بیگم جانی میں جلد ہی آپ کو واپس لینے آوں گا" وہ اپنے خیال میں نور سے مخاطب مسکرانے لگا
وہ دادا جان کے کمرے میں آیا تو اس کے امی ابو پہلے سے ہی وہاں موجود تھے
"آو آو زارون میاں تمہارا ہی ذکر ہو رہا تھا"
دادا جان بولے
"خیریت میرا ذکر کیوں؟"
"ارے میاں اب تو تمہارے پوتے پوتی دیکھنے ہیں بس میں بس انہیں ایک بار اپنے ہاتھوں میں کھلانا چاہتا ہوں"
دادا جان کی بات نے زارون کو سرشار کر دیا"
"جی دادا جان میں بھی اسی حوالے سے ہی بات کرنے آیا تھا"
"لو بیٹی ساجدہ تمہارا تو کام آسان یو گیا ہمارے پوتے نے رضامندی بھی دے دی اب جلدی سے ہماری بہو کی انگلی میں زارون کے نام کی انگوٹھی ڈال آو اور دن پکے کر آنا مجھ سے اور صبر نہیں ہوتا"
ضرور ابا جی میں کل ہی درخشندہ کو انگوٹھی پہنا آتی ہوں لگے ہاتھوں دن بھی پکے کر آؤں گی"
امی کی بات نے زارون کے پیروں سے ذمین کھینچ لی
"ایک منٹ کیا مجھ سے کسی نے پوچھنا گوارا نہیں کیا کہ میں کسے پسند کرتا ہوں"
تم شاید بھول رہے ہو سرداروں میں شادی وہی ہوتی ہوتی ہے جہاں ان کے بڑے تہ کریں پسندنا پسندکوئی معنی نہیں رکھتی"
مصطفٰی صاحب نے گویا بات ختم کی

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Tempat cerita menjadi hidup. Temukan sekarang