قسط نمبر 6

18 2 0
                                    

دھڑام کی آواز سے دروازہ کھلا اور زارون سٹاف روم میں مس مونیکا کے کمرے میں داخل ہوا یہ کیا طریقہ ہے مسٹر زارون کسی کے کمرے میں داخل ہونے کا "کیا آپ کو اتنی بھی تمیز نہیں ہے کہ داخل ہونے سے پہلے دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے" مونیکا میم کی بات سن کر تھوڑا شرمندہ ہوا لیکن خفت مٹاتے ہوئے کہا ہاں معاف کیجئیے گا انٹری مارنے کا اندازہ تھوڑا فلمی تھا لیکن میں قطعاً ایسا نہیں چاہتا تھا یہ کہ کر وہ ایک وزٹنگ چئیر پر بیٹھ گیا۔
زارون کو دیکھ کر مونیکا نظریں چرانے لگی اور اس سے پوچھا بولیے میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں؟"
زارون آگے کو جھکا اور اور مونیکا جو کہ آفس چئیر پر بیٹھی تھی تھوڑا حیران ہوئی "مدد تو آج تک میں نے اپنے باپ کی نہیں مانگی آپ سے کیوں مانگنے لگا"
تو پھر یہاں آنے کی خاص وجہ! یہاں مجھے آنے پر آپ نے مجبور کیا" آپ کھل کر کہیں جو کہنا چاہتے ہیں"
اچھا زارون اپنی کرسی پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور پرسکون ہوا "ایک رات کی قیمت کیا ہے تمہاری؟" مونیکا پر تو مانو حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے "یہ کیا بیہودگی ہے آپ مت بھولیں کہ میں یہاں ایک استاد ہوں اور آپ پر حراسمنٹ کا کیس کر سکتی جس کے بعد آپ اس یونیورسٹی سے اور اپنی ڈگری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے" اچھا سٹوڈنٹس کریں تو بیہودگی ٹیچرز کریں تو؟ وہ وہ کیا کہلائے مس مونیکا وہ غرایا۔ مسٹر ذارون آپ پہیلیاں کیوں بجھوا رہے ہیں اصل مداع پر آئیے۔
وہ تھوڑا رکا پھر بولا ٹھیک مس مونیکا کیا آپ میرے گوش گذار کریں گی کہ کس کارن آپ مجھے دیدے پھاڑ پھاڑ کر کلاس روم میں دیکھ رہی ہوتی ہیں کیا میں آپ کا پرانا عاشق ہوں یا آپ کا مجھ سے بریک اپ ہو گیا جو نینوں کی ذباں سے پیچ اپ ہو گا۔
ذارون کا انداز اگرچہ مزاح کن تھا کیونکہ وہ کوئی تماشہ نہیں چاہتا تھا۔
مونیکا نہ چاہتے ہوئے بھی خفت سے لال ہو گئی۔ "مسٹر زارون آپ ایک مسلم ہیں اور مسلمز کی میں دل سے عزت کرتی ہوں۔ مجھے آپکا مذہب بہت فاسینیٹ کرتا ہے اور م۔۔۔ "کوئی مسلم پھنسا لیا کیا؟" مسٹر اب آپ حد پار کر رہے ہیں۔ " حد تو آپ پار کر رہی ہیں واہ واہ داد دینی پڑے گی کیا کمال کی اداکارہ ہیں آپ مطلب کچھ بھی اگر میں سیدھے طریقے سے نہیں پھنسا تو میرے مذہب کو بیچ میں لے آئیں واہ آپ کو ٹیچر کی بجائے فنکارہ ہونا چاہیئے تھا۔ ارے آپ جیسے فرنگیوں کا مذہب سے کیا تعلق جو کبھی ایک کے بازو میں تو کبھی دوسرے کے" وہ مسلسل تیر پہ تیر برسائی جا رہا تھا یہ جانے بغیر کہ اس کی گوہر افشائی سن کر مونیکا کے دل پر کیا حشر برپا ہو رہا ہے۔
"بس مسٹر بس میں آپ کے مسلم ہونے کے ناطے لحاظ کر رہی ہوں کیونکہ میں مسلمز کی اور ان کے خدا کی بہت بڑی قدر دان ہوں اور اس کی صفائی مجھے کم ازکم آپ جیسے کو دینے کی ضرورت نہیں جو دعوہ تو مسلمان ہونے کے کرتا ہے لیکن پس پردہ وہ غیر مسلموں سے بھی بدتر ہے غیر مسلم اگر زنا کرتا ہے شراب پیتا ہے تو ساری دنیا کے سامنے اسکا اعتراف بھی خندہ پیشانی سے کرتا ہے وہ منافقت نہیں کرتا نہ کے آپ کی طرح جو بظاہر تو مسلمان بنا پھرتا ہے لیکن اندر سے وہ بھی ایک کالی بھیڑ۔
(دراصل ایک روز معراج اور زارون کو مونیکا نے ڑرنک کرتے اور اور نشے میں دھت لڑکیوں کے جھنڈ میں دیکھ لیا تھا کیونکہ وہ وہاں ایز آ ویٹریس وائن پیش کرتی تھی )
ہاں ہوں میں غیر مسلم شرابی، فرنگن؛ زانی جو بھی آپ کہ لیں لیکن میرا خدا جانتا ہے میری نیت اور میرے اعمال۔ میں نے اپنے ہر عمل کو خدا کی رضا کے لیے کیا اگر میں کرسچن ہوں تو دل و جان سے اس کا اعتراف کرتی ہوں اور نہ ہی یہ بتانے میں مجھے کوئی عار محسوس ہوتا ہے۔ تو اب مجھے بتائیے کیا آپ اپنے آپ مسلمان کہنے کے حقدار ہیں؟ کیا آپ کہ سکتے ہیں کہ ہاں میں مسلم ہوں۔ بظاہر تو کہیں گےہاں میں ہوں لیکن دل، وہ آپ کو ہزار بار ملامت کرے گا۔ کیا آپ کہ سکتے ہیں کہ آپ مجھ سے یا کسی اور غیر مسلم سے بہتر ہیں ؟ خالی مسلم کا ٹیگ لگا لینے سے کوئی مسلم نہیں ہوا۔
کسی غیر مسلم کو اس کے مذہب کا تعنہ مت دیجئے گا کیونکہ مذہب وراثت میں نہیں ملتا بلکہ جستجو اور محنت سے حاصل ہوتا ہے" مونیکا یہ سب بول کر اپنا سامان اٹھاتی آفس سے نکل گئ
جبکہ اس کی باتوں نے زارون کو آسمان سے زمین پر لا پتخہ تھا۔

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Where stories live. Discover now