قسط نمبر 24

15 2 0
                                    

وہ دونوں اپنی منزل کو رواں تھیں۔

سیالکوٹ کے اس قصبے میں داخل ہوتے ہی بدبو سے ناک پَھٹنے لگی تھی، یہاں کی تنگ و تاریک گلیوں سے سوائے گیڈر کے، کوئی دوسری بھاری شے گزر نہیں سکتی تھی، صفائی کا کوئی مربوط نظام نہیں تھا، مکانوں کا گندا پانی کچی سڑکوں پر بہایا گیا تھا-

اس نے بدبو سے بچنے کو ناک پر دوپٹے کا پلو رکھا تو صغراں بولی یہاں گندگی کو صاف کرنے کے کام پر بھنگی مامور  کیے جاتے ہیں جو کہ خود تو زیادہ تر کچرے کے ڈبوں کے آس پاس پائے جاتے ہیں، چناں چہ صفائی کا کام بھنگیوں کے بجائے کتّے اور پرندے انجام دیتے ہیں‘‘۔نالے بند ہیں، کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ہر ضلعے میں کچرے کے پہاڑ بن رہے ہیں۔ لیکن حکومت کے کان میں جوں نہیں رینگتی

یہاں کا انگریز فاتح، جس نے وطن واپسی کے موقعے پر اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’سیالکوٹ تو عنقریب’’ مشرق کی ملکہ‘‘ ہو گی۔ اے سیالکوٹ ! جب تو اپنی شہرت کی بلندیوں پر پہنچے تو میری تمنّا ہے کہ میں  تجھے ایک بار پھر دیکھ سکوں‘‘۔
صغراں کی باتوں سے نور کی ہنسی چھوٹ گئی۔

صغراں خاتون اسے اپنے گھر لے آئی۔ گھر کے دروازے کے سامنے جا کر اس نے اپنی پوٹلی میں سے تالے کی چابی نکالی اور گھر کا دروازہ کھولا۔

دروازے کی آواز سنتے ہی ایک چار سال کا بچہ صغراں کی ٹانگ کے ساتھ آکر لپک گیا۔
"تائی تم کہاں گئی تھی  مجھے ابا کے ہاتھ کی روٹی نہیں کھانی"۔
"صدقے میرا بچہ ان سے ملو تمہاری خالہ"
"اسلام علیکم!"
سبحان نے چائستگی سے سلام کیا۔
اس کے ہاتھ میں چھوٹی بچی بھوک سے رونے لگی۔
"یہ گڑیا کون ہے خالہ یہ مانو ہے بچے تیری چھوٹی بہن"
"بہن لیکن میری تو کوئی بہن نہیں"
سبحان چھوٹی سی عمر میں کافی سمجھدار لگتا تھا
وہ اس بچی کا خیال دل و جان سے کرتا تھا۔ اسے کوئی آنچ نا آنے دیتا عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ان دونوں کی وابستگی بھی بڑھتی گئی لیکن نور کو مسلسل یہی ڈر تھا کہ کہیں اس کے دشمن اسے پکڑ نا لیں۔
لیکن صغراں ہر بار یہی کہ کر ٹال دیتی کہ یہ علاقہ بلکل محفوظ ہے دونوں کے لیے۔ ان دنوں اس نے ایک سرکاری سکول میں بطور انگریزی کی ٹیچر جاب شروع کر دی۔ ایک دن جب وہ سکول سے واپسی پر بچوں کے لیے دکان سے کچھ چیزیں خریدنے گئی تو سڑک پر اسے وہی لوگ نظر آئے جن سے وہ اتنے سال چھپنے کی کوشش کر رہی تھی۔
وہ ہانپتی کانپتی گھر پہنچی اور صنم جو کہ اس سبحان کے ساتھ کھیل رہی تھی اسے اٹھایا اور دیوانہ وار چومنے لگی۔
"کیا ہوا خالہ کوئی پریشانی ہے۔"
سبحان نے اس سے پوچھا
  اس نے صغراں کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اسے باہر بلایا
"خیریت"
"کچھ خیریت نہیں"
"کیا ہوا ہانپ کیوں رہی ہے"
نور نے اسے ساری بات بتائی
"تو اب کیا کیا جائے وہ تو یہاں بھی پہنچ سکتے ہیں
صغراں اگر میں ایک درخواست کروں تو میری مانو گی؟"
"پہلے کبھی ٹالی ہے جو اب منع کروں گی"
"کیا تم سبحان اور صنم کا نکاح کروا سکتی ہو"
"کیا تم پاگل ہو اس عمر میں نکاح بچی کی عمر پر برا اثر ہو گا"
"تو اور کیا کروں میری تو وہ جان چھوڑ دیں گے لیکن صنم کو اپنے ساتھ لے جائیں گے تو نہیں جانتی بڑے خاندانی لوگ ہیں اپنا خون نہیں چھوڑتے کسی حال میں بھی"۔
میں عزیز سے مشورہ کر لوں
سب کی مشترکہ بات چیت اور باہمی رضامندی سے وہ نکاح ہو چکا تھا
صنم اس وقت تین سال کی تھی جبکہ سبحان سات سال کا تھا اور تھوڑا بہت نکاح کے بارے میں جانتا تھا لیکن اماں اور اپنی خالہ کی درخواست پر اس نے اپنی زبان پر ہمیشہ کے لیے فقل لگا لیے جو کہ صنم کی شادی کی عمر پر ہی کھلنے تھے۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ صنم چھوٹی عمر میں ان سب کے بارے میں کچھ پوچھے یا کچھ سوچے۔
نور ان دونوں کا نکاح کروا کر وہاں سے چلی گئی چونکہ یہ ایک کٹھن مرحلہ تھا پہلے اپنے شوہر اور اب بیٹی دونوں سے دستبردار ہونا آسان نا تھا لیکن صنم کی حفاظت کی خاطر اسے یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔

"صغراں کیا تم وعدہ کرو گی کہ میری بچی کا ایک ماں کی طرح خیال رکھو گی میں جانتی ہوں اگر میں نا بھلا کہوں تو وہ تمہاری بیٹی کی طرح ہے لیکن کیا تم سچ میں اس کی ماں بنو گی؟"
"کیا کہ رہی ہے تو"

"میں جانتی ہوں لیکن کیا تم یہ بات اس سے تا عمر چھپا سکتی ہو کہ میں اس کی اصل ماں ہوں میں جانتی ہوں وہ اپنے باپ کی طرح زدی ہے اگر اس کے کان میں یہ بات پڑ گئی کہ تم اس کی ماں نہیں تو وہ مجھے ڈھونڈنے کی ضرور کوشش کرے گی یا تم لوگوں کو پریشان کرے گی اس لیے اسے اس بات سے انجان رکھنا کہ اس کی ماں تم نہیں ہو۔"

سبحان نے مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ اپنی زبان نہیں کھولے گا میں جانتی ہوں وہ اپنی بات کا پکا ہے وہ اسکا خیال رکھے گا اسے ہر گرم سرد حالات سے بچائے گا۔ اور وقت آنے پر ہی اپنی زبان کھولے گا"
ایک ماں کے لیے ماں کے عہدے سے دستبرداری سے کٹھن مرحلہ اور کیا ہو سکتا ہے۔

"پھر یوں ہوا کے ماں نے چوم کر کہا
قسمت خدا کے ہاتھ میں ہے
تو غم ذدہ نہ ہونا"

وہ سیالکوٹ کی بس سے ملتان روانہ ہوئی اور وہاں پر بھی اپنا سابقہ پیشہ بطور استانی جاری رکھا۔

اس عرصے میں صغراں دو یا تین سال بعد اس کا چکر لگا لیا کرتی اور صنم کی خیریت دریافت کرتی اگرچہ اس نے اسے کسی بھی رابطہ رکھنے سے منع کیا تھا لیکن سبحان ہر مہینے گھر سے باہر جا کر یا صنم کی غیر موجودگی میں اس کا حال احوال دریافت کرتا رہتا۔ اسے نور ماں سے بڑھ کر عزیز تھی کیونکہ وہ اس کی جان سے عزیز صنم کی ماں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Where stories live. Discover now