قسط نمبر 19

14 2 0
                                    

اے ہمراز تو نہیں بس تیرا خیال آتا ہے
یہ بہار حسن تمھارے چہرے پر صاف نظر آتا ہے

جو دیوانے ہیں کسی اور عالَم میں جیا کرتے ہیں
اداؤں سے نَرگِس مَستانَہ کا اثر نظر آتا ہے

نہ جا ماہ رو کہ ابھی خواب کی تعبیر ہوئی نہیں
کہ جب بھی خواب آیا تو تیرا خواب آتا ہے

ہر بار یہی آرزو کبھی تو ہو وصالِ یار
پھر اَشْک بار۔ آنکھوں سے اپنا حال یاد آتا ہے

دونوں طرف سے باہمی رضامندی کے بعد جمعہ کے دن دونوں کا نکاح منعقد ہوا۔
زارون عبداللہ معراج اور چند دوسرے مرد حضرات باہر لان میں بیٹھے تھے دوسری طرف خولہ نور کو تیار کر رہی تھی۔ شوخ رنگ کے لہنگے پر ہلکے ہلکے میک اپ نے اس کے حسن کو چار چاند لگا دیئے تھے۔
یہ کیا تم سوگوار حسینہ بنی ہوئی ہو ایسے موقعوں پر تو لڑکیاں عمومی طور پر شرمانا جانتی ہیں۔
" تم خوش تو ہو نا؟"

"خوش نا ہونے کی کوئی وجہ ہی نہیں خدا نے مجھے زارون دے کر مجھے سرخرو کیا ہے اس کا میں جتنا شکر ادا کروں کم ہے اس جیسا پاکباز اور سچا انسان ڈھونڈنے پر نا ملے ضرور خدا کو میری کوئی ادا یا نیکی پسند آئی ہو گی ورنہ مجھ جیسی لڑکی اسے ڈیسرو نہیں کرتی"

"یہ سب کہ کر تم اپنا ہی خون جلا رہی ہو پگلی ایسی سوچنے سے تم اپنے آپ کو بے وقعت کیوں کر رہی ہو دنیا میں کوئی شخص چھوٹا بڑا نہیں ہوتا سب برابر ہیں ہاں بس اپنے اپنے ایمان کی بنا پر خدا کر حضور اعلی مرتبوں پر فائز ہیں"

"مجھ سے وعدہ کرو زارون کے سامنے اپنے آپ کو بے مول نہیں کرو گی تم اس کی نظر میں صف اول پر ہو اور وہیں رہو گی تم کبھی اس مقام سے نہیں ہٹو گی جو تمہیں وہ دینے جا رہا ہے اگرچہ عمر میں تم سے چھوٹا ہے پر مرتبے میں تم سے بڑا ہے۔ تم اپنی پچھلی زندگی اس کے سامنے نہیں دھراو گی۔ یقین مانو جس دن تم ماضی پے پردے ڈالنے لگ جاؤ گی خوشیاں خود ہی تمہارا مقدر بنیں گی بشرطیکہ تم ماضی کے سبق کو مستقبل میں یاد رکھو انڈرسٹینڈ!
اب مجھے کوئی دوسری بات نہیں کرنی چلو باہر دیر ہو رہی ہے"
وہ دونوں روبرو بیٹھے تھے مولوی صاحب زارون کے پاس آئے اور اس سے ایجاب قبول کرنے لگے۔

"زارون مصطفٰی سردار ولد مصطفٰی یعقوب سردار اپکو نور فاطمہ ولد ایڈورڈ گریے حق مہر پچاس لکھ کے عوض نکاح میں دی جاتیں ہیں کیا آپکو قبول ہے؟

"اپنی زندگی کو زندگی میں شامل کرنے کے لیے قبول کرتا ہوں" زارون اپنی دل سے مخاطب تھا

"قبول ہے"
تین بار قبولیت لینے اور دستخط لینے کے بعد مولوی صاحب نور کے پاس گئے اور اس سے پوچھا

"نور فاطمہ ولد ایڈورڈ گریے آپکو زارون مصطفٰی سردار ولد مصطفٰی یعقوب سردار حق مہر پچاس لاکھ حق مہر کے عوض نکاح میں دیئے جاتے ہیں کیا آپ کو قبول ہے؟"
وہ بلکل خاموش تھی ذارون کو اس کی خاموش چبھی تھی "

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Where stories live. Discover now