قسط نمبر 21

15 2 0
                                    

مصطفٰی صاحب کے فون پر یہ رات کے دوسرے پہر تیسری بیل تھی ساتھ لیٹی ساجدہ بیگم نے تنگ آ کر انہیں فون اٹھانے کو کہا مصطفٰی صاحب نے فون یس کر کے کان سے لگایا لیکن جو خبر انہوں نے سنی اس نے ان کے سر پر سردار ہویلی کی چھت گرا دی تھی۔ انہں اپنے جسم سے گویا جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی ساجدہ بیگم نے پریشانی سے پوچھا کہ آخر کیا بات ہے تو انہوں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ "کیا ہوا ہے مصطفٰی میرا دل ڈوب رہا ہے"

"بیگم ہمیں ہسپتال جانا ہے زارون کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے تم یہیں رہو ابا جان کے پاس یاد رہے انہیں اس خبر کی بھنک بھی نہیں پڑنی چاہیے ڈاکٹر نے انہیں کسی بھی صدمے سے دور رکھنے کا کہا تھا۔ وعدہ کرو نہیں بتاو گی"

"یہ آپ کیا کہ رہے ہیں وہاں میرا بچہ مر رہا ہے میں یہاں کیسے سکون سے بیٹھ سکتی ہوں ہو میں بھی آپ کے ساتھ ہسپتال جاؤں گی۔"

"بات سمجھنے کی کوشش۔۔۔۔۔۔"
"خبردار مجھے روکنے کی کوشش کی ہو تو میں یہاں ایک منٹ نہیں روکوں گی پہلے آپ کی وجہ سے سے میں نے اپنا بیٹا کھویا اب اور نہیں سنوں گی آپ کی"

مصطفٰی اور ساجدہ بیگم ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر نے انہیں فوراً ایک فائل پر دستخط کرنے کو کہا۔
پانچ گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعد جب ڈاکٹر باہر آئے تو وہ ان کے پاس پہنچے
"کیا ہوا ڈاکٹر صاحب ہمارا بیٹا ٹھیک ہے نا اب"
"مجھے بہت افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے جیسا میں نے آپ کو پہلے بھی کہا تھا کہ اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار رکھیں کچھ بھی ہو سکتا ہے ہم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی لیکن خدا کو یہی منظور تھا آپ کا بیٹا سوئیر بریں ٹراوما کی وجہ سے کومہ میں جا چکا ہے۔"

ڈاکٹر کی بات نے ان دونوں پر صدمے کے پہاڑ گرا دیے تھے ایک اکلوتا بیٹا تھا جو کی ان کے تکبر اور اونچی ناک کی بھینٹ چڑھ گیا ، تکبر کا سر بفلک مینار زمین بوس ہو چکا تھا
ساجدہ بیگم آئی سی یو کے کمرے میں گئیں جہاں ایک ڈاکٹر اس کا معائنہ کر رہا تھا
"ڈاکٹر صاحب اسے کب تک ہوش آئے گا"
"ہم لوگ یقین سے تو نہیں کہ سکتے ہو سکتا ہے انہیں ہوش نا آئے ان کا کیس بہت سویئر تھا باقی اللہ کی مرضی سال بھی لگ سکتے ہیں"

_________________________________________

زارون کو پاکستان گئے چار ماہ ہونے کو تھے اور بچے کی پیدائش قریب تھی نور ان دنوں ایک دن چین سے نا رہ پائی وہ پاکستان جانا چاہتی تھی لیکن عبداللہ اسے انتظار کرنے کا کہ کر روک لیتا۔ اب اس کے صبر نے جواب دے دیا تھا وہ اپنے کمرے سے خولہ سے بات کرنے کیلئے نکلی کہ کمر میں شدید درد سے پورے گھر میں اس کی چیخیں گونجیں۔ وہ دونوں اسے ہسپتال لے آئے تھے دو گھنٹے کے طویل صبر کے بعد ڈاکٹر نے انہیں بیٹی کی خوشخبری سنائی۔

نور خوش تو بہت تھی اللہ کی اس نعمت سے لیکن زارون کی غیر موجودگی اسے مایوسی کے دیہانے آن پہنچا دیتی تھی جبکہ پچھلے تین مہینے سے اس کا کوئی رابطہ بھی نہیں تھا۔ بچی خوبصورتی میں بلکل نور پر گئی تھی لیکن اس کی آنکھیں بلکل اپنے باپ پر گئیں تھیں گہری ہیزل آنکھیں
"نور تم نے بچی کا نام کیا سوچا ہے"
"آپی میں اسے کوئی نام کیسے دے سکتی ہوں زارون کو بہت شوق تھا اس کا نام رکھنے کا وہ جب آئیں گے تب ہی رکھیں گے"
"چلو ہم گڑیا کہ کر ہی کام چلا لیتے ہیں "



آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Where stories live. Discover now