قسط نمبر 9

15 2 0
                                    

وہ فجر کی نماز ادا کر کے بالکنی میں جا کھڑا ہوا۔ اس کی بالکنی سے دریائے شیکاگو کا منظر واضح تھا اک لمحہ لگا اسے اس منظر میں کھو جانے میں۔۔۔۔
  سورج طلوع ہونے کا یہ منظر واقعی بہت خوشگوار ہتھا۔  رات کا اندھیرا صاف ہونے لگتا تھا۔  آسمان کے ستارے مدھم ہونے لگتے تھے ۔  زمین کا مشرقی افق نارنجی رنگ کی روشنی سے چمکنا شروع ہو رہا تھا۔  سورج آگ کی انگوٹھی کی طرح لگ رہا تھا۔  پرندے اپنے گھونسلوں میں جاگنے لگے تھے اور چہچہانا شروع ہو گئے یہاں تک کہ کچھ دن کے لیے کھانا جمع کرنے کے لیے نکلے۔ 
ماحول آلودگی سے پاک تھا۔ 
آسمان شفاف تھا۔ صبح اٹھنے والے اپنے روزانہ صبح کی سیر کے لیے نکل رہے تھے۔ 
دودھ  دینے والے لڑکے دودھ سے بھری ہوئی بوتلیں گھروں کے آگے رکھنا شروع ہو گئے تھے۔ کچھ آوارہ کتے اور بلیاں  کھانے کی تلاش میں بھٹکتے نظر آ رہے تھے۔  جب منظر سورج آسمان پر بلند ہونے لگتا ہے تو اس کا ذکر صدق اللہ العلی العظیم کے ساتھ ختم ہوتا ہے ۔ آنکھیں ہمیشہ کی طرح اشک بار تھیں لیکن آج ان میں بات ہی کچھ اور تھی ناجانے کتنے دن سے وہ اس منظر کو اگنور کرتا رہا کیونکہ وہ اپنے خالق سے شرمندہ تھا آج خالق راضی ہوا تو ایسے لگا جیسے ساری دنیا فتح کر لی ہو ۔

ہمیشہ اپنے دل کی بے سکونی اور بیقراری کا مسئلہ اپنے ربّ کے حضور لے کے جائیے وہ مالک نوازنے والا ہے ہر حل ہر وسیلہ وہ ہی میسر کرنے والا ہے . اُسی کا ذکر دلوں کے اطمینان کا باعث ہے .....

آج اتنے دنوں بعد زارون کی آواز اس کے لیے باعث سکون ثابت ہوئی تھی۔

کہیں فسانۂ غم ہے کہیں خوشی کی پکار
سنے گا آج یہاں کون زندگی کی پکار

خدا شناس ہے زاہد مگر نہیں معلوم
کہ آدمی کو جگاتی ہے آدمی کی پکار

لباس صبح میں ہے کوئی رہبر صادق
جگا رہی ہے اندھیرے کو روشنی کی پکار

سبحان اللہ! وہ کہتے ہی اپنی بالکنی سے نمودار ہوئی جبکہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر تھوڑا حیران ہوئے۔ "یقین نہیں ہوتا کہ خدا مجھے  میرے محسن کے روبرو اتنی جلدی کر دے گا" جی؟"

"مسٹر زارون اس روز جس محسن کا ذکر آپ سے کیا تھا وہ بذات خود آپ ہیں اور یہ انکشاف مجھے آج ہوا یقین نہیں ہوتا اس روز جب آپکے فلیٹ میں آئی تھی اور مجھے شک تھا کہ کہیں وہ آپ ہی نا ہوں لیکن آج شک یقین میں بدل گیا۔

" اسے حیرت کے سمندر سے اس کی آواز نے نکالا
"کیا میں یہ جسارت رکھتا ہوں کی دریافت کر سکوں کہ میں اور آپکا محسن کیسے؟"
وہ دونوں آمنے سامنے کھڑے تھے ان دونوں کی بالکنی ایک ہی رخ میں تھیں۔
بالکل لیکن ابھی نہیں ابھی مجھے یونیورسٹی کے لیے نکلنا ہے۔ 

Miss Noor, would you like to grab a coffee with me tonight if it seems appropriate?
نور نے کچھ سوچنے کے بعد جواب دیا
"Jackalope Coffee & Te​a House at  sharp 8 pm. done?"
"Okay"

_________________________________________


موسم سرما اپنے عروج پر تھا۔  یہ شہر میں سب  سے بڑی کافی شاپ تھی۔  دکان کی خوشگوار اور شاندار روشنیاں دیکھنے کو ملی تھی  دکان کے باہر کا راستہ   براؤن ونٹیج اسٹائل کی چھریوں سے ڈھکا ہوا تھا۔  یہ صرف کافی شاپ نہیں تھی۔ 
اس میں ایک طرف کتابوں  کا ایک کونہ بھی تھا جہاں لوگ کتابیں خرید اور پڑھ  سکتے تھے۔  طلباء اور ملازمین کے لیے  ذہنی تناؤ کو دور کرنے کے لیے  یہ ایک مثالی جگہ تھی۔

جب اس نے شیشے کے شفاف دروازے سے اپنا راستہ بنایا تو گرم ہوا کا اور کافی کی خوشبو کا ایک جھونکا اس سے ٹکرایا جو کہ اس تھرتھراتی سردی میں باعث راحت تھا  اور بہت دلکش بھی۔
وہ وہاں کی ایک انتہائی پر سکون جگہ پر بیٹھا جب ایک باریسٹا اس کے  سامنے کھڑا ہوا ۔

"Your order sir?"

"Thanks but  I'm waiting for someone to join"
"Okay no prob"

نور کیفے کی طرف بڑھ رہی تھی جب کیفے کی شیشے کی دیوار سے زارون کا عکس دکھا۔
ٹھیک ہے ، وہ دوسروں سے مختلف تھا۔  وہ خوبصورت تھا ، شاید روایتی معنوں میں نہیں ، لیکن اس کے پاس وہ ظہور تھا جو اسے ہجوم میں نمایاں بنا سکتا تھا۔  وہ منصفانہ تھا ، تقریبا  پیلا سفید رنگ  اس کی ناقابل فہم ، سنہری بھوری آنکھیں۔  اس کی آنکھیں اتنی گہری اور تاثراتی تھیں ، اگر وہ کافی دیر تک دیکھتی رہتی  تو ان میں کھو سکتی تھی ۔
  اس کے چہرے میں وہ دور اندیشی تھی، جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔  اس کی مسکراہٹ ، جو اس کی آنکھوں تک پہنچتی اور ان پر جھریاں ، اس کی شائستگی اور عاجزی کا مظاہرہ تھیں ۔  اکثر ، وہ اس کی چمکتی ہوئی آنکھوں میں درد کا اشارہ دیکھ سکتی تھی ، جو کہ اچانک غائب ہو جاتا تھا۔
وہ بعض اوقات بہت تیز بولتا تھا ، جس سے شاید یہ ظاہر ہوتا تھا کہ اس نے اپنے اندر کتنی اذیت چھپا رکھی ہے۔  سب سے بڑھ کر اس کا فریم اور اس کا قد تھا۔  وہ انتہائی مضبوط  مسلز رکھتا تھا ، 6 پیک ایبس یا  سینٹی میٹر بائسپس کا تو پتہ نہیں لیکن وہ یہ یقین سے کہ سکتی تھی کہ وہ ضرور باقاعددگی سے کثرت کرتا ہے۔
تاہم ، وہ ایک ہجوم میں کھڑا ہوتا تو سب سے نمایاں ہوتا ، جو زیادہ تر اس کے اپنے انداز گفتگو کی وجہ سے تھا۔
وہ ہمیشہ نظر جھکائے بات کرتا تھا جو کہ مردوں میں ایک منفرد ادا ہے اور بہت کم پائی جاتی ہے۔  اس کی یہی ادا اسے بار بار اسے دیکھنے پر مجبور کرتی۔
وہ سادہ اور معصوم تھا۔  وہ شاید ، لاکھوں میں سے صرف ایک تھا ، جو "کچھ خاص نہیں تھا ، بلکہ انمول تھا۔ وہ اپنے خیالات جھٹکتی کیفے کی طرف بڑھی۔۔۔

_________________________________________

Hit the star if you liked

Leave the comment about your thoughts on it

Do share with friends

Throw donuts and stay blessed 😊

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Where stories live. Discover now