قسط نمبر 26

18 2 0
                                    

بی بی جی باہر کوئی سبحان صاحب آئے ہیں"
"اچھا آپ انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھائیں میں آتی ہوں"
یہ کیا لینے آ گیا
وہ پندرہ منٹ سے وہاں بیٹھا صنم کا انتظار کر رہا تھا لیکن وہ تھی کہ آنے کا نام نہیں لے رہی تھی تنگ آ کر اس نے گھر کے اندر قدم بڑھائے نیچے والے پورشن میں ایک کشادہ لیوینگ روم تھا اس کے ساتھ ایک دو کمرے جن میں سے ایک غالباً گیسٹ روم تھا اور دوسرا خالی تھا نیچے کے پورشن میں وہ نہ ملی تو وہ اوپر والی منزل پر گیا اور جاتے ہی ایک دروازہ کھلا نظر آیا اور کمرہ بھی روشن تھا وہ ایسے ہی بغیر کھٹکھٹائے اندر چلا گیا۔

صنم وہاں بھی نہ تھی وہ واپس پلٹنے لگا جب باتھ روم کا دروازہ کھلا وہ تولیے سے بال خشک کرتی انتہائی غیر مناسب نائیٹ ڈریس پہنے باہر آ رہی تھی۔ سبحان نے فوراً اپنی نظریں چرائیں
"یہ کیا طریقہ ہے کسی لڑکی کے کمرے کے آنے کا "

"حیرت ہے یہ تم مجھے کہ رہی ہو جو خود ساری عمر دھڑلے سے میرے کمرے میں آ جایا کرتی تھی" وہ پرانے لمحات دہرانے لگا

"پہلے کی بات اور تھی پہلے تم اس طرح بیہیو نہیں کیا کرتے تھے مجھے اب تم سے عجیب قسم کا ڈر لگنے لگا ہے نا ہی تم پہلے والے بانی رہے ہو "

"ہاں بجا فرمایا آپ نے نہ حالات ایسے ہیں نا ہی سبحان یوسف بلوچ وہ رہا ہے اور ڈر تو تمہیں ٹھیک لگتا ہے لگنا بھی چاہیے تم پر ایک بڑی مصیبت جو آنے والی ہے"
"مطلب؟"
"مطلب بھی سمجھ لینا میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اس لیے اپنا ضروری سامان باندھو اور چلو میرے ساتھ"
"کیوں کس خوشی میں کیا میری ترقی تم سے برداشت نہیں ہو رہی ؛ تم ہی نے بھیجا تھا نا مجھے اور اب کیا ہو گیا کہ تم لوگوں سے کہ مجھے ہی کہ رہے کہ واپس پلٹ آو ہاہاہا کیا بات ہے اور وہ کیا ڈرامہ کیا تھا اس عورت نے ماں ہے میری ہنہ پہلےکبھی کسی کی ممتا نہیں جاگی اب کیا ہے جو سب بڑی ہمدردیاں جتا رہے ہیں"
"بکواس بند منہ توڑنا بڑے اچھے سے جانتا ہوں میں میرا منہ بند ہے تو اسے بند ہی رہنے دو لعنت بھیجتا ہوں تمہاری ترقی پر میں اگر بولنے پے آیا تو ایک منٹ میں تمہارا غرور توڑ سکتا ہوں لیکن کیا ہے نا ابھی میں مجبور ہوں اور تمہیں بھی مجبوری کے تحت لے کر جانا ہے اس لیے جو کہا ہے وہ کرو"
"نہیں جاؤں گی میں جو ہوتا ہے کر لو"

"فائین ایسے تو ایسے ہی سہی"

وہ اس کی کلوزیٹ کی طرف بڑھا ایک سفری بیگ وہاں سے اٹھایا اور اس کے کپڑے اس میں ٹھونسنے لگا
وہ اسے روکنے کی کوشش کرنے لگی لیکن اس نے اسے انگلی دکھا کے منع کر دیا
"میں بار بار اپنے بات دھرانے کا قائل نہیں ہوں اگر ایک قدم بھی بڑھایا تو ٹانگیں توڑ کر اسی بیگ میں ر کھ کر لے جاؤں گا مجھے میرا کام کرنے دو"
"اسکے الفاظ اس قدر دہشت ناک تھے کہ وہ جہاں تھی وہیں جم گئی
اس کے کپڑے رکھنے کے بعد اس نے دراز سے اس کی ضروری اشیاء رکھیں جس پر وہ تلملا اٹھی

"اوف کیا بیہودگی ہے اتنی بھی سینس نہیں کہ لڑکیوں کی کچھ پرایویسیس بھی ہوتی ہیں۔

"اچھا لڑکیوں کی پرایویسیس یہ لباس پہنتے ہوئے کہاں جاتی ہیں "
"کیا تم نہیں جانتے شوبیز میں ایسے ہی لباس چلتے ہیں"
"تم جیسے لوگوں نے اس شعبے کو گندہ کر دکھا ہے ورنہ کسی بھی شعبے میں مقبولیت انسان کے فن سے ہوتی ہے اور ویسے ابھی کوئی مجھے پرائیویسیس پر لیکچر دے رہا تھا"
"اوف ہر بات پے تنز اب چلو بھی "
"وہ اس کی بات پر لا جواب ہو چکی تھی اس لیے جو منہ میں آیا بول دی
تھوڑی دیر بعد جب ذہن سنبھلا تو سبحان اسے لیے گاڑی کا دروازہ کھول رہا تھا وہ اس ایک نظر اسے دیکھتی اندر بیٹھی
"کیوں لائے ہو مجھے؟"
"زیادہ کھچڑی نا پکاو اپنے ذہن میں گھر جا کر بتا دوں گا "
"گھر کس کا گھر مجھے اپنے گھر جانا ہے"
"اگر تم سمجھو تو وہی تمہارا گھر ہے خیر بھینس کے آگے بین بجانے کا مجھے کوئی شوق نہیں گھر چلو سب کچھ پتا لگ جائے گا"
"سبحان کے گھر اماں ابا اور چاچا نے تو اس سے ٹھیک سے بات کی تھی لیکن پہلے جیسی گرم جوشی کہیں نہیں تھی
سبحان اسے ایک کمرے میں لایا اور اسے ایک ڈائری دی
"دو دن ہیں تمہارے پاس اسے مکمل پڑھ لینا تمہارے ہر سوال کا جواب اسی میں ہے"
اس نے نور کی ڈائری دی جو وہ بچپن سے لکھتی آ رہی تھی لیکن کچھ سال پہلے وہ لکھنا چھوڑ چکی تھی۔
ڈائری کے ٹائیٹل کو مونیکا ایڈورڈ گرے سے کاٹ کر نور فاطمہ لکھا گیا پھر نور فاطمہ کاٹ کر نور فاطمہ زارون لکھا گیا تھا ۔ ٹائیٹل دیکھ کر اس میں اسے پڑھنے کی تمنا جاگی اس لیے اس نے اسے پڑھنے کی ہامی بھر لی ۔۔۔۔۔۔

"مسلسل دو دن لگا کر اس نے ڈائری پڑھی تھی اسے پڑھنے کے بعد اسے اپنا آپ نہایت حقیر لگنے لگا تھا کتنی عظیم عورت تھی اس کی ماں اور اس کا باپ۔۔۔۔۔ اس کا باپ وہ کہاں ہے کیا واقعی وہ وفات پا چکا ہے اسے اس بات پر شک تھا کہ اس کا باپ ہو سکتا ہے زندہ ہو کیونکہ جو لوگ اسے ایک اپنے خون کو ناجائز کہ سکتے تھے تو نور سے زارون کو دور کرنے کیلئے کچھ بھی کر سکتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ ان سب باتوں میں سب سے بڑا انکشاف جو اس پر ہوا تھا وہ یہ تھا کہ وہ سبحان؛ سبحان یوسف بلوچ کی بیوی ہے اگر وہ بیوی تھی تو اس نے ظاہر کیوں نہیں کیا اس نے اسے جانے ہی کیوں دیا کیا وہ اسے نہیں اپنانا چاہتا کیا یہ سب اس نے نور کی مجبوری کی وجہ سے کیا تھا؟

وہ سب جاننا چاہتی تھی لیکن ان سب سے بڑھ کر وہ اپنی ماں سے معافی مانگنا چاہتی تھی کیونکہ وہ ان کی اس حالت کی ذمہ دار تھی

سبحان اس وقت اپنے آفس تھا جب صنم نور کے کمرے میں گئی وہ اپنے بیڈ سے ٹیک لگائے غالباً نماز ادا کر رہی تھی اس حالت میں بھی اس نے اللہ کو یاد کرنا نہیں چھوڑا کسی کی موجودگی کے احساس سے نور نے اپنی جھکی گردن اوپر اٹھائی تو نور کو دیکھ کر بے اختیار اپنی باہیں پھیلائیں وہ اس کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی دونوں جب خوب رو لیں تو نور نے صنم کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیا اور چومنے لگی

"مجھے معاف کر دیں ماما میں نے آپ کا بہت دل دکھایا خدا مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا"

"نا میرا بچہ ایسے الفاظ بھولے سے بھی منہ سے مت نکالنا خدا تو بڑا مہربان ہے ؛ ماں تو کبھی اپنی اولاد سے خفا نہیں ہو سکتی بس آپ کے اس فیصلے نے مایوس کیا تھا اگر آپ کو معافی مانگنی ہے تو سبحان سے مانگیں وہ آپ کا مجازی خدا ہے اس کا آپ نے بہت دل دکھایا ہے خدا سے توبہ کریں اور سبحان سے معافی مانگیں شوہر زیادہ دیر ناراض رہے تو خدا ناراض ہوتا ہے"

"میں جانتی ہوں ماما وہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا میں نے جانے انجانے میں اس کے دل کو بہت ٹھیس پہنچائی ہے "
"سبحان میرا بھی بیٹا ہے میں آپ سے بہتر جانتی ہوں وہ میری بات کبھی نہیں ٹالے گا"

سبحان کا نور کے ساتھ بات کرنے کا انداز بہت بدل چکا تھا وہ اسے نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا نہ پہلے کی طرح بات کرتا تھا وہ انہی سوچوں میں گم تھی جب اس کے فون کی گھنٹی بجی
"ہیلو مس صنم ہاو آر یو "
موبائل میں سے مسٹر زارون مصطفٰی کی آواز گونجی
"آے ایم گوڈ آپ کیسے ہیں اور کیسے یاد کیا مجھے"
"جی ٹھیک کوئی خاص بات نہیں کل آپ کو روڈ پر کسی کے ساتھ گاڑی میں سوار دیکھا تھا میری گاڑی نزدیک ہی تھی شاید آپ نے دیکھا نہیں کیا وہ آپ کے بھائی ہے؟"
نور نے دل میں استغفار پڑھا
"نہیں سر وہ میرے شوہر ہیں "
"او سوری مجھے پتہ نہیں تھا"
"کل میں آپ کے گھر آیا تھا اصل میں مجھے آپ سے کچھ ڈیسکس کرنا تھا اپنے نئے پراجیکٹ کے بارے میں"
"سر میں اب اس وقت اپنے شوہر کے گھر پر ہوں آپ اگر مناسب ہو تو یہیں آ سکتے ہیں دراصل میری ماما کی طبیعت ناساز ہے میں انہیں چھوڑ کر نہیں جا سکتی کہیں"
"اوکے نو پرابلم آپ مجھے ایڈریس سینڈ کر دیں میں وہیں آ جاتا ہوں"

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Where stories live. Discover now