قسط نمبر 1

161 9 0
                                    

یہ منظر ہے دبئی کے ایک عالیشان ہوٹل کا جو کہ سمندر کی سطح پر اس خوبصورتی سے تعمیر کیا گیا تھا کہ دیکھنے والے سراہے بغیر نہ رہ پاتے۔ اسی عمارت کا ایک وسیع اور روشنیوں سے منور ہال ایک ملک گیر کمپنی کی ریمپ واک کیلئے سجایا گیا تھا۔ ہال دنیا بھر کی معروف شخصیات سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا مختصر یہ کہ ہر کوئی تقریب کے آغاز کا بیصبری سے انتظار کر رہا تھا ۔
ریمپ کا آغاز بلند انگریزی موسیقی کے ساتھ کیا گیا جس کے ساتھ ہی دنیا بھر کی مشہور و معروف ماڈلز اپنی تمام تر آرائش و ذئبائشایش اور لباس جو کہ جسم چھپانے سے کم دیکھنے کا کام  زیادہ کر رہے تھے خراماں خراماں ریمپ پے جلوہ گر ہونا شروع ہوئیں۔ سامعین ماڈلز کا تنقیدی جائزہ لے رہے تھے اور ساتھ ساتھ انہیں تصریحات دینے میں مشغول تھے۔
تقریب اپنے عروج پر تھی کہ ہال کی تمام روشنیاں گل کر دی گئیں اور سپاٹ لائیٹ کو ریمپ پر فوکس کیا گیا
ایسے میں پردے کے پیچھے سے پاکستان اور دنیا بھر کی جانی مانی اور ہر دل عزیز اداکارہ اور ماڈل صنم عزیز بلوچ اپنی تمام تر ہوشسامانئںوں کے ساتھ اجاگر ہویں دراصل روشنیاں گل کرنے کا مقصد ہی سب کو اپنی طرف متوجہ کرنا تھا
لیکن صنم عزیز کے وجود کو کسی عارضی سہارے کی ضرورت نہ تھی وہ تھی ہی ایسی کہ جہاں جاتی وہاں پر چھا جاتی جس ٹی وی ڈرامے یا فلم میں ہوتی وہ فلم وہ ڈرامے بلاک بسٹر ہوتے ہر سال اسے کسی نہ کسی ایوارڈ سے نوازا جاتا چاہیے وہ بہترین اداکارہ کا ہو یا بہترین ماڈل کا غرض یہ کہ وہ اداکاری اس طرح کرتی کہ کوئی کہ ہی نا پائے کہ یہ اداکاری ہے وہ کردار میں اس طرح رچ بس جاتی کہ سامعین کا دل جیت لیتی ہر کوئی اس سے پہلی ملاقات پر ہی اسکا فریفتہ ہوجاتا۔ بائیس سال کی اس عمر میں اس نے آسمان کی بلندیوں کو چھوا تھا۔
صنم ریمپ کا حصہ تھیں تو کوئی کسی اور کو کیوں سراہتا وہ اپنی تمام تر ادائیں دیکھاتی ریمپ پر چلنے لگی اور لوگ اسے سراہنے لگے
تھوڑی دیر بعد جب وہ اپنا حصہ کر چکی تو منظر سے غائب ہو گئ۔
تقریب کے اختتام پر جہاں سب اپنے اپنے راستے جا رہے تھے وہیں صنم کا سیکرٹری ایک ہاتھ میں اس کا پرس جبکہ دوسرے ہاتھ میں اسکا دن بھر کا شیڈول تھامے اس کے سر پر کسی سایے کیطرح کھڑا تھا اور اسے رات کی پارٹی کے بارے میں اطلاع دے رہا تھا۔
وہ دونوں اس وقت صنم کے کیبن میں ہی تھے کہ
کے ڈی یعنی صنم کے سیکرٹری کی چلتی زبان کو کسی مردانہ آواز سن کر بریک لگی جو کہ پاکستان کی نامور فلم ڈائریکٹر کی تھی
" مس صنم آگر مظاہمت نہ ہو تو کیا ہم کچھ دیر اکیلے میں بات کر سکتے ہیں؟" صنم نے ایک نظر اٹھا کر دیکھا اور اشارے سے کے ڈی کو جانے کا بولا۔
جی مسٹر رمیز خانزادہ عرض کیجئے۔ رمیز قباحت سے ہنسا اور کہنے لگا

تجھے دیکھنے کے سو بہانے تھے
ہائے وہ زمانے بھی کیا زمانے تھے

"ہم تو ٹھہرے خوش نصیب کے آپکے دیدار کا شرف نصیب ہوا۔۔۔۔۔" پہلے وہ شعر اب اسکا لوفرانہ انداز وہ
صنم کا ظبط آزما رہا تھا
مداع بیان کیجئے مسٹر رمیز کہیے کیوں ذہمت کی یہاں آنے کی؟"
رمیز کی بات کاٹ کے تاراخ کر بولی
رمیز نے ایک نظر چھٹانک بھر کی لڑکی کو دیکھا اور اپنی فلم میں ہیروئین کا رول پلے کرنے کی آفر کی صنم نے ایک غصیلی نظر اس پر ڈالی اور جانے کے لیے مڑی ہی تھی کہ اس کی کلائی رمیز کے ہاتھ میں تھی "صنم جی جواب تو دیتی جائیں"
صنم کا دل چاہا اپنی چھ انچ کی پینسل ہیل اس کے سر میں ٹھونک دے کیونکہ اس کی فلمیں بیہودگی کے علاوہ کچھ نہ تھیں وہ لاکھ ماڈرن سہی پر اس کی کسی فلم میں کام کرنے کے لیے قطعن راضی نہ تھی۔۔۔۔ لیکن آس پاس لوگوں اور کیمرہ مینز کی موجودگی میں کوئی سکینڈل نہیں چاہتی تھی اس لیے ظبت کر گئ۔
"اگلی بار میرے منہ لگو تو ایسی فلم کی آفر کرنا جو میرے معیار کے مطابق ہو اپنی فرنگی فلم کے لیے کسی فرنگن سے بھیک مانگو"

یہ کہ کر وہ تن فن کرتی ہال سے نکلتی چلی گئی اس بات سے بے خبر کہ کوئی شخص اپنے کیمرے سے وہ سارے منظر کلیک کرنے میں مصروف تھا جو کہ کسی نہ کسی طریقے سے یلو نیوز کے طور پر شایع کی جانے والی تھی۔
اس کے جانے کے بعد رمیز پاوں پٹختا دل میں صنم سے بدلہ لینے کے عظم کے ساتھ اپنی لینڈ کروذر میں سوار ہوا اور اسکی گاڑی فراٹے بھرتی منظر سے غائب ہو گئ۔
"صنم عزیز بلوچ اور رمیز خانذادہ کے بڑھتے تعلقات" ٹی وی پر اس بات کو ہیڈ لائن کے طور پر پیش کیا گیا جس کے ساتھ ان دونوں کی کچھ کل کی اور کچھ ایڈٹ کی گئی تصویروں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا جا رہا تھا
خبر سننے والا پہلے تو ظبط سے سنتا رہا لیکن جب کان سننے سے انکاری ہو گئے تو آفس ٹیبل پر پڑا پیپر ویٹ پوری قوت سے آدھی دیوار پر لگی ایل سی ڈی پر پوری قوت سے دے مارا اور سکرین ہزاروں کرچئوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایسا کرنے سے بھی اسکا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو آفس کے صوفوں پر لاتیں اور گھونسے مار کر اپنا ظبط آزمانے لگا جب کسی طرح بھی غصہ ختم نہیں ہوا تو بے بسی سے ذمین پر بیٹھتا چلا گیا اور ذمین پر کرچیوں کی پرواہ کیے بغیر زور زور سے ہاتھ مارنے لگا
یہ سب کچھ نیا نہ تھا اس کے لیے سبحان یوسف بلوچ تو ہر روز ٹوٹتا اور جب جب وہ ٹی وی سکرین پر اسے دیکھتا تو اپنے دل کے ابال کو دبانے کی خاطر اپنے آپ کو تکلیف دیتا۔ ہاں وہ اسکے معاملے میں ایسا ہی تھا جب جب وہ  اسے کسی کی باہوں میں دیکھتا اور آے روز کے اسکینڈلز سنتا تو خود پر سو بار لعنت بھیجتا کہ وہ اس جیسی بے حیا اور دعوت نظارہ عورت کو اپنا دل دے بیٹھا تھا۔
لیکن دل کا کیا کرتا جو سو بار ملامت کرنے کے باوجود بس ایک بار دیکھنے کی خاطر پھر سے اسے ورغلانے لگتا
دل ہاں دل وہ کسی کے قابو میں کہاں رہتا ہے

دل میں ذوق وصل و یاد یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا

________________________________________

Press the star button if you liked my work

Comment if you're willing to Read more

Share to everyone

Throw donuts and be happy 😊

آتش بقلم عینہ احمد (مکمل)Where stories live. Discover now