آخری قسط

81 10 1
                                    

اپنی طاقت کا آخری قطرہ تک استعمال کرنے کے بعد وہ دونوں اب گیلی سڑک کے اطراف میں دراز تھے۔ ان کے چہروں پر جا بجا زخموں کے نشان تھے، ہاتھ کی اوپری جلد پھٹ چکی تھی۔ بارش رک گئ تھی۔ سڑک کی پھڑکتی بتیاں معمول کے مطابق روشن تھیں۔۔
"کیا تم منظرِ عام سے غائب ہونے کے لیے نمودار ہوۓ ہو۔۔؟" اپنے کپڑے جھاڑ کر اٹھتے ہوۓ زاویار نے اس سے پوچھا تو حرم سے کوئ جواب نہ بن پڑا۔ وہ بھی اسکے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ زاویار اسے اپنی کتھئ آنکھیں چھوٹی کیے بغور دیکھ رہا تھا۔
"میں جانتا ہوں کہ تم اب تک خفیہ ٹاسک فورس اور بلیک آپریشن کا حصہ تھے۔ تم نے میوچل ٹارگیٹ کی بنیاد پر پولیس والوں کے ساتھ لیگل کانٹریکٹ سائین کیا تھا۔ بہت سے بارسوخ افراد کے بینچ پر مشتمل لوگوں تلے کام کرتے رہے ہو تم۔ یہ بھی کہ تم تہہ خانوں میں ایک سال تک انڈر گراؤنڈ رہے ہو۔۔ اگر اس کے بعد بھی کوئ پلان ہے۔۔ تو اسے ابھی اُگل دو۔۔ اس سے پہلے کہ میں تمہاری پسلیاں توڑ دوں۔"
سکون سے کہہ کر وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ دھمکی۔۔ نہیں وہ دھمکی نہیں تھی۔ وہ زاویار کا انداز تھا، جس کا مطلب تھا کہ وہ واقعتاً اب اسکے بولے گۓ جھوٹ پر اسکی پسلیاں توڑنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ حرم کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی تہہ تک پہنچ جاۓ گا۔ لیکن اب مزید جھول پیدا کر کے بات کو طول دینے سے کوئ فائدہ کشید نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اسے سچ بولنا ہی تھا۔۔
"یہ میرا اپنا فیصلہ ہے کہ میں۔۔ مزید منظرِ عام پر رہنا چاہتا ہوں یا پھر گھوسٹ کی مانند غائب رہنا چاہتا ہوں۔ " اس نے کہہ کر قدم آگے بڑھاۓ تھے۔ وہ اسکے پیچھے آیا تھا۔ اسے گریبان سے پکڑ کر اپنی جانب گھمایا۔ بے یقینی سے اسکی آنکھوں میں دیکھا۔
"اور تم نے کیا فیصلہ کیا ہے پھر۔۔؟" حرم اسے ٹھنڈی پرسکون آنکھوں سے دیکھتا رہا۔ زبان رخسار کے اندر پھیرتا ہوا وہ اپنی ناپ تول کر بولنے والی عادت سے باز ہی کہاں آرہا تھا۔۔؟
"میں نے فیصلہ کیا ہے کہ۔۔ میں۔۔"
"کہ تم۔۔" وہ تیزی سے بولا تھا۔
"نازنین کی شادی ہورہی ہے۔۔؟" یکدم ہی اس نے پوچھا تو وہ ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھنے لگا۔ گریبان پر اسکی گرفت ڈھیلی پڑ گئ تھی۔
"شادی۔۔؟"
"انہوں نے مجھے دھمکی دی ہے کہ میں اگر گھر واپس نہیں گیا تو وہ کسی بھی انسان سے منہ اٹھا کر شادی کے لیے ہامی بھر لیں گی۔ اپنی شادی میں آنے کی دعوت تک دے کر گئ ہیں وہ مجھے۔ کسی شہزاد نامی چُوہے کے ساتھ شادی کررہی ہیں وہ۔۔ " آخر میں اسکا لہجہ استھزاء ہوگیا تھا۔ آنکھوں میں جلن سی ابھری تھی۔ زاویار بغور اسے دیکھتا رہا۔ پھر گریبان چھوڑ کر پیچھے ہوگیا۔
"ان کی دھمکی سے فرق پڑتا ہے تمہیں۔۔؟ جتنے تم ڈھیٹ اور بے شرم ہو۔ مجھے نہیں لگتا کہ تمہیں فرق پڑے گا۔" وہ ایک بار پھر سے ساتھ چلنے لگے تھے۔ جیبوں میں ہاتھ اڑسے، پھٹے ہونٹ اور نوکوں کی صورت ماتھے پر گرتے بال لیے۔
"وہ ایسے کیسے کسی سے بھی شادی کرسکتی ہیں۔؟" اس نے تلخی سے کہا تھا۔ ساتھ چلتے زاویار نے اس پر ایک محظوظ نگاہ ڈالی تھی۔
"مائنڈ یو۔ یہ ان کی زندگی ہے اور وہ ٹین ایجر ہرگز نہیں ہیں کہ اپنے فیصلوں کے لیے کسی سے اجازت طلب کریں گی۔۔ ہاں تو تم نے۔۔ غائب رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔۔؟" کیا تاک کر وار کیا تھا اس خبیث نے۔۔ حرم اسے دیکھ کر رہ گیا تھا۔
"گھٹیا۔۔" وہ زیرِ لب بڑبڑایا تھا۔ زاویار نے تیزی سے چہرہ اسکی جانب پھیرا۔
"کون۔۔؟ میں یا تم۔۔؟ ہم میں سے کون زیادہ گھٹیا ہے کیا میں تمہیں بتاؤں، اُریبی۔۔؟"
حرم نے اسکے استفسار پر سر جھٹکا تھا۔ چہرے کے تاثرات بگڑے بگڑے سے تھے اور ناگواری جیسے وجود میں تحلیل ہوتی جارہی تھی۔
"دوسرا آپشن بھی ہے تمہارے پاس۔" کچھ لمحے بعد زاویار کی زبان میں پھر سے خارش ہوئ تھی۔ اس نے ایک جھٹکے سے سر اسکی جانب گھما کر چُبھتی آنکھوں سے دیکھا تھا اسے۔
"ایک مرا ہوا انسان۔۔ ایک سال بعد بالکل درست حالت میں واپس آگیا۔۔ کیا کوئ وضاحت ہے تمہارے پاس اس واپسی کی۔۔؟"
"تو تم۔۔ ابھی تک وضاحت سوچ رہے تھے۔۔؟ کچھ شک نہیں کہ ہر ذہین آدمی کسی نہ کسی پیراۓ میں انتہائ احمق ہوتا ہے۔" اسکے کڑوے الفاظ پر حرم نے حلق میں گُھلتی کڑواہٹ کو بمشکل نگلا تھا۔
"تمہارے گھر والوں نے کبھی تصور تک نہیں کیا کہ تم مرچکے ہو۔ جنازہ نہیں ہوا۔۔ تمہیں دفنایا نہیں گیا تھا۔ خاندان بھر میں ایک ہی وضاحت دی گئ ہے کہ تم بغیر کسی وجہ کے غائب ہوگۓ ہو۔ پولیس والوں کے ساتھ کام کرتے ہوۓ ایک بات کا فائدہ ہوا ہے تمہیں۔۔ کہ تمہاری شناخت اب تک پوشیدہ ہے۔ تم آج بھی سب کے لیے معصوم ممی ڈیڈی حرم ہو۔۔"
وہ اس کی تفصیل پر چلتے چلتے رُک سا گیا تھا۔ زاویار اسے رُکتا دیکھ کر خود بھی ٹھہر گیا تھا۔ مڑ کر اسے دیکھا۔۔ گہرا سانس لیا۔۔
"یہ آسان نہیں ہوگا۔۔" اس نے سر نفی میں ہلا کر کہا تھا۔
"کیا تم نے کبھی کسی آسان کام میں ہاتھ ڈالا ہے۔۔؟" اسکے سوال کا جواب سوال سے دے کر وہ اسے لمحے بھر کو لاجواب کرچکا تھا۔
"ایک ایک ٹکڑے کو اپنی جگہ پر برابر رکھتے ہوۓ تم نے جس پزل کو جوڑا تھا، کیا تمہیں لگتا ہے کہ وہ سب آسان تھا۔۔؟ تھوڑی سی محنت۔۔ تھوڑا سا اسٹینڈ۔۔ اور تم واقعتاً نارملی اپنے گھرانے کی جانب پلٹ سکتے ہو۔ "
"ان میں سے کسی کو میری ضرورت نہیں ہوگی اب۔ وہ سب میرے بغیر زندہ رہنا سیکھ چکے ہیں۔ میرے پاس کوئ حق نہیں ہے ان کی زندگیوں کو ایک بار پھر سے متزلزل کرنے کا۔" اس نے زاویار کے ہر مشورے کو جیسے اگلے ہی پل رد کردیا تھا۔ پھر وہ تیزی سے آگے بڑھ کر اسکے ساتھ سے نکل گیا تھا۔
"پھر دیکھ لینا اس شہزاد کے ساتھ میڈم کی شادی۔۔ اتنے ہی مرد ہو تو۔۔!" وہ اسکے پیچھے بلند آواز سے بولا تھا۔ اسکے بڑھتے قدم رُک گۓ۔ کرّاہ کر اس نے آنکھیں بند کی تھیں۔
"میں ان کے لیے اچھا آپشن نہیں ہوں۔۔" اس نے پلٹے بغیر کہا تھا۔ زاویار نے بیزار ہو کر جیب میں ہاتھ اڑس لیے تھے۔ پھر اسکے پیچھے بڑھ آیا۔
"اے۔۔ اگر تم نے ان سے شادی نہیں کی تو میں کرلونگا۔۔ تم سے چُرالونگا میڈم کو۔۔ برداشت کرلوگے۔۔؟" اسکے سامنے آتے ہوۓ اس نے آنکھوں میں ٹھنڈا لیکن چمکتا سا تاثر لیے کہا تھا۔ حرم نے چونک کر چہرہ بلند کیا۔۔
"وہ تم سے کبھی شادی نہیں کرینگی۔۔" اس نے زاویار سے زیادہ خود کو یقین دلانے کی کوشش کی تھی۔ وہ ہلکا سا مسکرایا۔۔ مشہورِ زمانہ اٹھی سی کمینی مسکراہٹ تھی وہ۔۔
"مجھے مت اکساؤ، حرم۔۔ تم نہیں جانتے کہ مجھے وہ کتنی اچھی لگتی ہیں۔ اگر تم دوست نہیں ہوتے تو سب سے بڑا دُشمن تمہارا سُلطان ہوتا۔۔ اور سُلطان کی دشمنی سے پناہ طلب کرنی چاہیۓ۔۔"
"تم ایسا نہیں کروگے۔۔" وہ اگلے ہی پل اسکے گریبان پر جھپٹا تھا۔ زاویار اسکے متغیر چہرے کو محظوظ نگاہوں سے تک رہا تھا۔
"انسان کے بچے بنو۔۔ اور اس سے پہلے کہ وہ کسی بھی نتھو خیرے سے شادی کے لیے ہامی بھرلیں۔۔ اپنے معاملات کو سیدھا کرو اور گھر واپس پلٹ جاؤ۔۔ مضبوط ہو تم۔۔ لیکن اتنے نہیں کہ انہیں میرے ساتھ برداشت کرسکو۔۔ اتنا حوصلہ تم میں نہیں ہے۔" وہ مسکرارہا تھا۔۔ کیا پرکشش مسکراہٹ تھی۔۔ حرم نے اگلے ہی پل اسکا گریبان چھوڑدیا تھا۔ پھر بڑبڑاتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ زاویار اسے پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔ اب اسکے چہرے پر اداس مسکراہٹ تھی۔۔
"اتنا حوصلہ صرف مجھ میں ہے۔۔ تم میں نہیں۔۔" ہلکی سی آواز میں کہہ کر وہ اگلے ہی پل اسکے پیچھے بڑھا تھا۔
********
وہ گھر چلی آئ۔۔ لیکن پھر اسے ساری رات نیند نہیں آسکی۔ وہ اسے بیچ راستے میں بغیر کسی حتمی جواب کے چھوڑ آئ تھی۔ اسے چین کیسے آنا تھا بھلا۔۔؟ رات کے آخری پہر تک وہ بالکنی کی سرسراتی ہوا تلے کھڑی رہی۔ مستقل کھڑے رہنے سے اسکے پیر شل ہونے لگے تھے۔ کسی پہلو پر سکون نہیں آرہا تھا۔ کیا اس نے غلطی کردی تھی۔۔؟ اگر وہ سچ میں واپس نہیں آیا تو۔۔؟ ہر گزرتے پل کے ساتھ اسے اپنے فیصلے پر پچھتاوا ہونے لگا تھا۔ دل کسی انجانے خوف سے بیٹھا جارہا تھا۔
رات ڈھل گئ۔۔ دن چڑھ آیا۔۔ حرم کی خیر خبر نہیں آسکی۔ اس کے پاس حرم سے رابطہ کرنے کا کوئ ذریعہ بھی موجود نہیں تھا۔ وہ خالی نظروں سے موبائل میں اسکا "پیارا لڑکا" کے نام سے سیو ہوۓ نمبر کو دیکھتی رہی۔ وہ اس نمبر کی عدم موجودگی کے باوجود بھی اسے اپنے موبائل سے حذف نہیں کرسکی تھی۔ یہ نمبر حرم نے اپنے ہاتھوں سے سیو کیا تھا۔ وہ اسے کیسے مٹا سکتی تھی بھلا۔۔؟
ناشتے کی ٹیبل پر آفس کے لیے تیار وہ کانٹا پلیٹ میں ادھر ادھر کررہی تھی۔ گھر والے غیر محسوس طریقے سے اسکے گُم صُم انداز کو دیکھ رہے تھے۔ وہ صبح سے کچھ نہیں بولی تھی۔۔ نہ ٹھیک سے کھا رہی تھی۔۔ نہ اس نے وجدان کو مسکرا کر دیکھا تھا۔ وہ بس خلاء میں گُھور رہی تھی۔۔ سہیل نے اسے بغور دیکھا اور پھر لبوں کو ٹشو سے تھپتھپا کر اسکی جانب کا ٹیبل بجایا۔ وہ جیسے چونکی تھی۔۔ خلاء سامنے سے تحلیل ہوئ تو اسے سہیل کی فکر مند سی شکل نظر آئ۔ اب سب اسے ہی دیکھ رہے تھے۔۔ وہ گڑبڑائ تھی۔۔
"آفس سے جلدی آجانا آج۔۔ شہزاد کی ماں تمہارے لیے بہت چاؤ سے رشتہ لانے کی بات کررہی تھیں۔" صوفیہ نے یکدم کہا تو وہ پھر سے چونکی۔ کانٹا بے ساختہ ہی پلیٹ میں جاگرا تھا۔ گھر والے اسکے بوکھلاۓ ہوۓ انداز کو سمجھنے کی کوشش کررہے تھے۔
"آج۔۔؟ کیا ہم دو دن صبر نہیں کرسکتے، امی۔۔ ؟ میں ذہنی طور پر تیار نہیں ہوں۔ " اس نے کہا تو صوفیہ جو اسکی بات کو رد کرنے ہی لگی تھیں، ٹھہر گئیں۔ سہیل نے انہیں ہاتھ سے روک دیا تھا۔ وہ اب نازنین کی جانب نرمی سے متوجہ تھے۔
"ٹھیک ہے۔۔ ایک دو دن ٹھہر جاتے ہیں۔ کوئ قباحت نہیں۔۔"
"شکریہ انکل۔" وہ الجھی الجھی سی ٹیبل سے اٹھ کھڑی ہوئ تھی۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ بلاوجہ ان سے دو دن کی مہلت بھی کیوں طلب کررہی تھی؟ کیا اسے حرم نے کوئ امید دلائ تھی؟ یقیناً نہیں۔
"نازو کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔؟" روحیلہ نے چہرہ موڑ کر اسے جاتے دیکھا تو استفسار کیا۔ وجدان اپنا سراپا پوری طرح پھیرے، فکرمندی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے ناشتہ چھوڑ دیا تھا۔ پھر وہ تیزی سے اسکے پیچھے داخلی دروازے تک چلا آیا۔
"پھپھو، سب ٹھیک ہے ناں۔۔؟ آپ ٹھیک ہیں۔۔؟" وجدان کا قد اس سے دراز ہوگیا تھا۔ وہ اسے غائب دماغی سے دیکھتی، سر اثبات میں ہلارہی تھی۔ وجدان کو اسکے جواب پر یقین نہیں آیا۔
"مجھے تو ٹھیک نہیں لگ رہیں آپ۔"
"میں ٹھیک ہوں۔۔"
"کیا ہم پھر سے راز رکھنے لگے ہیں، پھپھو۔۔؟" اس نے اسے بازوؤں سے تھام کر نرمی سے پوچھا تو نازنین کے سامنے چھم سے حرم کا چہرہ لہرایا۔ اسے بازوؤں سے تھامے وہ بھی اس سے ایسی ہی کوئ بات کہہ رہا تھا۔ اسے جواب دینے میں وقت لگا تھا۔
"نہیں، وجی۔۔ ایسی کوئ بات نہیں۔۔ "
"آپکو شہزاد کے رشتے پر اعتراض ہے تو بتائیں۔۔ ابھی جا کر سب کو منع کردیتا ہوں۔ کوئ آپ سے دوبارہ اس حوالے سے بات نہیں کرے گا۔" اسکے مضبوطی سے کہنے پر وہ اس صبح پہلی دفعہ مسکرائ تھی۔ پھر ہاتھ آگے بڑھا کر اسکے بالوں کو بکھیرا۔۔
"مجھے پتا ہے کہ تم کُول گاۓ بن گۓ ہو۔ سب تمہاری بات سننے اور ماننے لگے ہیں۔ اہمیت بھی دینے لگے ہیں تمہیں۔۔ عنقریب ڈاکٹر بن جاؤگے تو بہت سی لڑکیوں کی مائیں عقابی نگاہوں سے دیکھیں گی تمہیں۔۔ لیکن وجدان انصاری۔۔ تمہاری پھپھو ابھی ہینڈل کرسکتی ہے ان مسائل کو۔۔ مجھے شہزاد کے رشتے پر اعتراض نہیں ہے۔ بس تھوڑا وقت چاہیۓ تاکہ میں خود کو تیار کرسکوں۔۔" اس نے نرمی سے مسکرا کر کہا تھا۔ وجدان اسے بغور دیکھتا رہا۔
"سچ ناں، پھپھو۔۔؟ کوئ تنگ کررہا ہے آپکو تو بتائیں۔۔" اسکے استفسار پر وہ ہنس پڑی تھی۔ پھر چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔
"جو تنگ کررہا ہے تم اسے ہینڈل نہیں کرسکتے۔۔"
"مطلب کوئ آپکو واقعی پریشان کررہا ہے۔۔" وہ سمجھ کر سر ہلارہا تھا۔ وہ ہنستی جارہی تھی۔ وجدان کا انداز ہی ایسا تھا۔
"ہاں۔۔ بہت پریشان کیا ہے اس نے مجھے۔ اب بھی کررہا ہے۔۔"
"کون ہے۔۔؟"
"بتاؤنگی تمہیں۔۔ لیکن ابھی نہیں۔۔ کچھ وقت دو مجھے۔۔"
"پھپھو، آپ کسی خطرناک آدمی سے تو ڈیل نہیں کررہی ہیں ناں۔۔؟" وہ پریشان نظر آنے لگا تھا۔ نازنین اسے چند پل دیکھتی رہی۔ پھر ہلکا سا مسکرائ۔۔
"خطرناک تو ہے وہ۔۔ لیکن مجھے نقصان نہیں پہنچاۓ گا، اتنا میں اسے جانتی ہوں۔ اب تم جاؤ۔۔ دیر ہوجاۓ گی تمہاری کلاس کے لیے۔ میں آفس کے لیے نکل رہی ہوں۔۔ فکر مت کرو سب ٹھیک ہے۔" اس نے نرمی سے اسکے ہاتھ ہٹاۓ تھے۔ پھر آنکھیں بند کر کے اسے دھیرج رکھنے کا کہا۔ وہ آگے بڑھ گئ تھی۔ وجدان اسکی پُشت فکر کے ساتھ دیکھتا رہ گیا تھا۔ سب ٹھیک ہی ہو۔۔ اس نے پلٹتے ہوۓ دعا کی تھی۔
*******
ایک دن درمیان سے بالکل خاموشی سے گزر گیا تھا۔ وہ مزید گُم صُم ہوتی گئ۔ وہ لاؤنج میں بیٹھی رہتی اور اسے بھول جاتا کہ وہ وہاں کیوں بیٹھی تھی۔ وہ لائبریری میں قدم رکھتی تو اسے اندازہ نہ ہوتا کہ وہ وہاں کونسی کتاب لینے کے لیے آئ تھی۔ کھانے اور سونے کے اوقات جیسے گڈمڈ سے ہوگۓ تھے۔ اسی شام زاویار اس سے ملنے چلا آیا تھا۔ ایجنسی والے دن کے بعد وہ اس سے آج مل رہی تھی۔ وہ گیسٹ رُوم میں اسکا انتظار کررہا تھا۔ اس نے اندر داخل ہو کر اسے دیکھا اور پھر وہیں ٹھہر گئ۔ زاویار اس تک اٹھ کر چلا آیا تھا۔۔ ایک فاصلے پر ٹھہر گیا۔
"تمہارے چہرے پر زخموں کے نشان کیوں ہیں؟" وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔ ایسے نشان عجیب طرح سے جانے پہچانے تھے۔ وہ ٹھہر گیا تھا۔۔
"آپ کیسی ہیں، میڈم۔۔؟"
"کیا تم زخموں کا سوال ڈاج کررہے ہو۔۔؟ کیوں۔۔ ؟ کیا میں نہیں جان سکتی۔۔؟" وہ ضرورت سے زیادہ ہی تلخ ہورہی تھی۔ دو دن سے اسکے اندر بے سکون سا شور ہورہا تھا۔ زاویار کی آنکھوں میں ہلکورے لیتی نرمی اسکی تلخی پر سوا ہوگئ تھی۔۔
"جی۔۔ میں آپکے سوال کو ڈاج کررہا ہوں۔ آپ پوچھ سکتی ہیں لیکن فی الحال میں آپکو بتا نہیں سکتا۔"
"اور کیوں نہیں بتاسکتے تم مجھے۔۔؟"
"کیونکہ آپ حساس ہیں۔"
"اوہ پلیز۔۔" اس نے کڑوی سی بیزاریت سے ہاتھ جھلاّیا تھا۔ وہ اسکی بیزاریت کو سمجھتا تھا۔ "تم لوگوں نے مجھے پروٹیکٹ کرتے کرتے بالکل ہی بچہ تصور کرلیا ہے۔ مجھے بتانے دو کہ میں۔۔ بچی نہیں ہوں، زاویار۔ تم مجھے ایک عدد میٹھے جواب کے ساتھ نہیں ٹال سکتے۔ میں ایک بہت تلخ دنیا میں بڑی ہوئ ہوں۔ مجھے تلخی کا سامنہ کرنے سے روکنے والے تم دونوں ہوتے کون ہو۔۔؟"
بولتے بولتے اسکا سانس سا پھول گیا تھا۔ زاویار دو قدم چل کر اور اسکے قریب آیا اور پھر اسکے عین سامنے آ رُکا۔
"کچھ اور۔۔؟"
"مجھے کچھ نہیں کہنا۔ ویسے بھی میری کسی بات پر تمہیں یقین ہی کب آتا ہے۔۔؟"
"مجھے آپکی ہر بات پر یقین ہے، میڈم۔۔"
"اچھا۔۔؟" وہ طنزاً مسکرائ تھی۔ ہاتھ سینے پر بندھ گۓ تھے اور نرم سی نازنین غائب ہوچکی تھی۔ اب وہاں محض تیز زبان والی لڑکی کھڑی بحث کررہی تھی۔
"اگر میں کہونگی کہ حرم زندہ ہے تو کیا تم میری بات پر یقین کروگے۔۔؟" وہ اسکے سوال پر اسے چند پل دیکھتا رہا تھا۔
"مجھے پتا ہے کہ وہ زندہ ہے۔۔" اگلے ہی پل بالکل آہستہ سے کہا تھا اس نے۔ سامنے کھڑی لڑکی کے بندھے ہاتھ پہلوؤں میں آگرے تھے۔ سانس ایک پل کو ٹھہر سا گیا تھا۔ سیاہ آنکھوں میں بے یقینی اس قدر واضح تھی کہ وہ اسکے ارتکاز سے بندھ سا گیا۔
"آپکو کیا لگتا ہے میرے چہرے پر کون مارسکتا ہے ایسے۔۔؟ کسی میں اتنی ہمت نہیں، میڈم۔۔ سواۓ ایک گدھے کے۔"
نازنین کے سارے الفاظ جیسے اس سے گُم ہوگۓ تھے۔ وہ لب وا کیے اسے تک رہی تھی۔ 
"لے کر آؤنگا اسے آپکے پاس۔ تھوڑا صبر کریں۔۔ آپکا اسٹوڈنٹ آپکو مایوس نہیں کرے گا۔ میں آپکا سولجر ہوں۔۔" وہ مسکرایا تھا۔
"وہ کبھی نہیں آۓ گا۔۔ اسکے پلانز۔۔"
"اسکے پلانز کی ایسی کی تیسی۔۔"
"زاویا۔۔"
"مزید اذیت نہیں، میڈم۔ بس۔۔ اب اذیت ختم ہونے والی ہے۔ آپ نے پریشان نہیں ہونا اب۔ میں آپکو یہی بتانے آیا تھا۔۔" وہ اگلے ہی پل اسکے ساتھ سے نکل گیا تھا۔ وہ پیچھے خالی خالی سی کھڑی رہ گئ تھی۔ زاویار کار میں آبیٹھا تھا۔ مسکراہٹ غائب ہوگئ تھی۔۔ تکلیف رگوں میں اترتی جارہی تھی۔ حرم کی واپسی کے بعد سب کچھ معمول پر آجاۓ گا۔ وہ اسٹوڈنٹ تھا۔ وہ اس سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ وہ حرم کی جگہ تھی۔ وہ ہمیشہ سے اسکی جگہ تھی۔ وہ ان دونوں کے لیے خوش تھا۔۔ کہیں پیچھے طالوت کی معنی خیز سی کھنکھار اُبھری تھی۔۔ اس نے بیک ویو مرر میں دیکھا اور ٹھہر گیا۔ طالوت کا ہیولہ اسے ہی تک رہا تھا۔۔ پھر وہ ہیولہ ہولے سے مسکرایا تھا۔
"میرے بچے کے ہاتھ سخت ہیں لیکن دل بہت نرم ہے۔۔ نرم دل بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔۔ تم خود غرض نہیں بن سکتے۔ تم سُلطان ہو۔۔ تمہیں محبت نہیں مل سکتی۔۔ تمہیں محبت دینے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔۔" اس نے اگلے ہی پل سر جھٹکا تھا۔ پھر ایگنیشین میں چابی گُھمائ تو ہیولہ کہیں تحلیل ہوگیا۔
لیکن ہیولہ اب تک بول رہا تھا۔
"محبت دینا اور دیۓ جانا بہت کرب ناک ہوتا ہے، زاوی۔۔" وہ بار بار سر جھٹک رہا تھا۔ طالوت کی آواز اسکا پیچھا کررہی تھی۔
"تم سُلطان ہو۔۔ محبت سے بھی۔۔ اور۔۔ نفرت سے بھی۔۔" گاڑی اب پوری چرچراہٹ سے سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ کچھ راستوں سے تکلیف اور خوشیاں دونوں وابستہ ہوتی ہیں۔ ایسے راستوں کو پار کرنا قیامت کے مصداق ہوتا ہے۔ وہ اب سپاٹ تھا۔۔ بے تاثر چہرہ اور اٹل انداز۔۔
ہاں۔۔ وہ زاوی تھا۔۔ وہی جو۔۔ اس تکون کا ایسا سِرا تھا۔ جو اس تکون کو جوڑے ہوۓ ضرور تھا۔ لیکن وہ سِرا تنہا تھا۔۔
اور کچھ سِرے تنہا ہی رہ جاتے ہیں۔۔
********
پولیس بینچ کے وہ بارسوخ افسران اس کے سامنے براجمان تھے۔ وہ نیشنل پولیس بیورو میں موجود میٹنگ روم میں بیٹھے تھے۔ سامنے ایک چِکنا سا ٹیبل تھا جس کے اطراف میں چھ کرسیاں لگی تھیں۔ ایک کرسی پر سلیمان بھی اسکے سامنے موجود تھا۔
اسکے چہرے پر لگے زخم مندمل ضرور ہوگۓ تھے لیکن نشانات اب تک واضح تھے۔ ڈریس شرٹ کی آہستینیں پیچھے کی جانب مڑی ہوئ تھیں، کالر کے دو بٹن کُھلے تھے اور سیاہ پینٹ میں ملبوس، سنجیدہ چہرہ لیے وہ وجیہہ تھا۔۔ وجیہہ دِکھ رہا تھا۔ اسکے بال جو ماتھے پر گررہے ہوتے تھے وہ اب پیشانی سے ذرا پیچھے جمے تھے۔۔ اسکی پیشانی ہمیشہ کی طرح شکنوں سے پاک تھی۔ پُرسکون اور ٹھنڈی۔۔
"کانٹریکٹ کی میعاد ختم ہوچکی ہے۔ اب تم آزاد ہو، حرم اُریبی۔" کمشنر نے سر ہلاتے ہوۓ اسکا کانٹریکٹ اور فائل اسکے سامنے سرکائ تھی۔ اس نے نگاہ جھکا کر بس ایک نگاہ اس فائل کو دیکھا تھا۔
"آپریشن کامیاب ہوا۔۔ تم ایک قابل شُوٹر ہو۔" آئ جی نے اسی سنجیدگی سے اسکی صلاحیتوں کو سراہا تھا۔ سلیما کے چہرے پر محض فخر تھا۔
"اس سارے آپریشن میں مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئ۔ تم نے ٹاسک فورس کا حصہ بنتے ہوۓ۔۔ مزید فورسس کو اپنے ساتھ کام کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی۔۔؟"
کمشنر نے اچنبھے سے سوال کیا تھا اس سے۔ وہ سیدھا ہو بیٹھا تھا۔
"جتنے زیادہ لوگ۔۔ اتنا زیادہ فس کری ایٹ ہوتا ہے۔ جتنے کم لوگ ہونگے اتنا کام بہتر طریقے سے ہوسکتا ہے۔ اپنا وقت انویسٹی گیشن اور ٹارگیٹ پر صرف ہوتا ہے۔۔ بجاۓ فضول آرگیومینٹس برداشت کرنے اور ٹیم کو منظم رکھنے کے۔۔"
اسکا جواب بالکل واضح تھا۔ نیشنل انٹیلی جنس کے چیف نے سر ہلایا تھا۔
"تم پولیس کیوں جوائن نہیں کرلیتے، ینگ مین۔۔؟ اپنی ٹاسک فورس کے ساتھ ہی کام کرنا۔۔ مزید ٹریننگ اور کچھ اسٹڈی ریکوائرمنٹس کے علاوہ تم انتہائ مناسب آفیسر بن سکتے ہو۔"
وہ ان کی بات سن کر مسکرایا تھا۔ اسکی مسکراہٹ کو سلیمان سمجھتا تھا۔
"پرسنلی مجھے پولیس نہیں پسند۔۔ نہ ان کے کام کرنے کا طریقہ پسند ہے۔۔ پولیس سکس۔۔!" صاف گوئ سے کہا تو آئ جی اکبر کے ماتھے پر ناگواری کی ہلکی سی لکیر اُبھر آئ۔ انٹیلی جینس چیف، یوسف رضا نے سر ہلایا تھا۔
"کچھ شک نہیں کہ تم ایک بے رحم شُوٹر واقع ہوۓ ہو۔ تمہاری زبان بھی اتنی ہی بے رحم ہے۔۔"
"ایک سال کی جہنمی قید کے بعد اچھا خاصہ انسان بھی کڑوا ہوسکتا ہے۔۔"
انہوں نے اسکے جواب پر محض سر ہلایا تھا۔ وہ کرسی پر پیچھے ہو بیٹھا تھا۔
"مستقبل میں مزید آپریشنز کے لیے تمہارا کیا ارادہ ہے۔۔؟ پولیس تمہیں اچھی نہیں لگتی لیکن اپنی مرضی سے طے کی گئ ٹاسک فورس میں تم۔۔ اپنے طریقے سے کام کرسکتے ہو۔ اگر میں اس کانٹریکٹ کی میعاد کو طول دینا چاہوں تو۔۔؟ معاشرے میں پلتے ناسوروں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا۔۔ کچھ برا نہیں ہوگا۔۔"
آئ جی اکبر نے اسے اسکا طنز بالکل اسی کے انداز میں لوٹایا تو وہ سر جھکا کر مسکرایا۔ لیکن اسی پل کوئ اسکے ساتھ کرسی کھینچ کر بیٹھ رہا تھا۔ اس نے چونک کر چہرہ اس جانب پھیرا۔ وہ زاویار تھا۔۔ جو اب۔۔ اسکے ساتھ ان افسران کے بالکل عین مقابل بیٹھا تھا۔
"کانٹریکٹ کی میعاد میں اضافہ کرنے والا آئیڈیا کچھ بُرا نہیں ہوگا، سر۔۔ آپریشنز کر کے ناسور جڑ سے اکھاڑ پھینکنا بھی کچھ بُرا نہیں۔ پولیس کی مزید ریکوائرمنٹس اور ٹریننگ کے بعد ہم دونوں واقعتاً آفیسر بننے کے قابل ہونگے کیا۔۔؟"
روانی سے سوال کیا تو حرم اسے چہرہ پھیرے چپ چاپ دیکھنے لگا۔ اسے نہیں پتا تھا کہ زاویار کیا کرنا چاہ رہا تھا۔
"ایجنسی کی ٹریننگ پر بھروسہ بہت ہے مجھے۔۔ لیکن پھر بھی۔۔ درکار ضروریات کے بعد آفسرز بننے میں کوئ قباحت نہیں۔۔"
آئ جی نے مسکرا کر سر ہلایا تھا۔ زاویار نے چہرہ پھیر کر اسے دیکھا، اٹھی مسکراہٹ اور اسکے کان میں چمکتا وہ ایک عدد ٹاپس۔۔
"اسے منظرِ عام پر آنے کی اجازت مل گئ۔۔؟"
"بالکل۔۔ ہم نے پچھلی تعینات پولیس فورسس کو مختلف جگہوں پر ٹرانسفر کردیا ہے اور نۓ آفسرز کو بھرتی کیا ہے۔ تاکہ حرم کی موجودگی پر کوئ انگلی نہیں اٹھا سکے۔ سیکیورٹی رسکس کی بنیاد پر اسکا نام اور چہرہ کسی کے علم میں نہیں لایا جاسکتا۔ فکر کی کوئ بات نہیں۔۔ پیپر ورک سنبھالا جاچکا ہے۔۔"
اس نے محض سر ہلایا تھا۔ پھر اٹھ کھڑا ہوا۔۔ سر جھکا کر حرم کو دیکھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ بھی تھی۔۔
"اسے اب اکیلا نہیں چھوڑا جاسکتا۔ یہ اپنی موت کو فریم کرنے جیسے کاموں سے باز نہیں آۓ گا۔ کانٹریکٹ کا جواب ہم جلد ہی آپکو دیں گے۔۔ لیکن ایک بات۔۔ الیکٹرک ڈیوائس۔۔ میں کسی صورت بھی اپنے پیر میں نہیں باندھونگا۔۔ انکار کرنے سے قبل میری ہسٹری شیٹ ضرور دیکھ لی جاۓ۔۔ میں گنز کے ساتھ اچھا نہیں ہوں۔۔ لیکن کیا آپ میں سے کسی نے کبھی جمے ہاتھ کا مکا کھایا ہے۔۔؟ یقین کریں۔۔ دنیا نظروں کے سامنے گھومنے لگتی ہے۔۔ وہ بھی گول گول۔۔"
"ہمیں اجازت دیجیے۔۔" حرم نے مسکراہٹ روک کر کہا اور پھر اگلے ہی پل وہ دونوں اس میٹنگ روم سے باہر کی جانب بڑھ گۓ تھے۔ پیچھے افسران دروازے کو دیکھ رہے تھے جہاں سے وہ ابھی ابھی گزر کر گۓ تھے۔
"اس ایجنسی میں ایک سے بڑھ کر۔۔ ایک آرٹ پیس موجود ہے۔۔!" آئ جی اکبر کے ریمارکس پر سلیمان مسکرا رہا تھا۔ وہ دونوں اب آگے بڑھ رہے تھے۔ نیشنل بیورو کی چمکتے شیشوں والی بلڈنگ بلند و بانگ تھی۔ وہ اس عمارت کے سامنے موجود تھے۔ ڈھلتے سورج کی کرنیں اس کے شیشوں سے لگ کر ان دونوں پر گر رہی تھیں۔ وہ ایک دوسرے کے مقابل۔۔ بالکل برابر کھڑے تھے۔۔
"گڈ ورک، اُریبی۔۔!"
"یُو روک، سُلطان۔۔!"
اور وہ دونوں ہی ہنس دیے تھے۔ دھوپ بہت شفاف تھی۔۔ صاف۔۔ چمکتی ہوئ۔۔
"شہزاد نامی چوہے کا کیا بنا۔۔؟"
"اسکا رشتہ پینڈنگ میں ہے۔۔"
"اسکی تو۔۔"
"نو گالی۔۔" زاویار نے اسے ٹوکا تو حرم نے چونک کر اسے دیکھا۔ اسکے ایسے دیکھنے پر وہ ہنس دیا تھا۔
"ایک سال تک میڈم کے ساتھ رہا ہوں میں۔ انسان بننا تو بنتا ہی تھا۔" اس نے سر نفی میں ہلایا اور ایگنیشن میں چابی گُھمائ۔۔
"ہم کہاں جارہے ہیں۔۔؟"
"گھر۔۔"
"اس وقت۔۔؟"
"ہاں۔۔ میڈم سے وعدہ کیا ہے میں نے۔۔"
"کیسا وعدہ۔۔؟"
"کتنے گدھے ہو تم۔ ایک دفعہ انہیں فون کر کے اپنی موجودگی یا واپسی کا احساس تک نہیں دلایا۔۔ گھٹیا۔۔!"
"ہم میں سے کون زیادہ گھٹیا ہے۔۔ کیا میں تمہیں بتاؤں، سلطان۔۔؟"
"بتانے کی کوئ ضرورت نہیں۔ کیونکہ تم۔۔ ہم دونوں میں سے۔۔ سب سے زیادہ گھٹیا ہو۔۔" اور وہ جانے کیوں ہنس پڑا تھا۔ اسے زاویار کے جواب کا اندازہ تھا لیکن پھر بھی۔۔ ہاں پھر بھی۔۔
"اگر تم نے انہیں مزید رُلایا تو میں تمہارے جبڑے کا لحاظ ہرگز بھی نہیں کرونگا۔۔ یاد رکھنا یہ بات۔۔" اور وہ اس بار واقعتاً سنجیدہ تھا۔ اس نے کھڑکی پر بازو رکھا اور پھر باہر پگھلتی دھوپ کو گہرا سانس لے کر دیکھنے لگا۔
"ڈاکٹر صاحب کیسے ہیں۔۔؟"
"عنقریب ہونے والے داماد ہیں۔۔ تمہارے والد صاحب کے۔۔" وہ اسکی بات کا مطلب سمجھ کر اداسی سے مسکرایا تھا۔
"مجھے بس سارنگ کی شکل دیکھنی ہے۔۔" زاویار کو حرم کو دیکھتے ہی بننے والی سارنگ کی شکل کا سوچ کر ہی گُدگُدی سی ہوئ تھی۔ ان دونوں کے چہروں پر زخموں کے نشان تھے لیکن وہاں طمانیت تھی۔۔ ایک لمبے اور تھکادینے والے سفر کے بعد کی طمانیت۔۔ ایک اذیت ناک اور کرب ناک شام کا جیسے اختتام ہوا چاہتا تھا۔۔ ایک نئ اور تازہ صبح کا آغاز بس ہونے ہی والا تھا۔۔ ہاں بس۔۔ اسی پل اس نے اپنا چہرہ زاویار کی جانب پھیرا تھا۔
"گھر جانے سے قبل میں کہیں اور جانا چاہتا ہوں۔" اس نے ایک نگاہ اس پر ڈالی تھی۔ پھر سر اثبات میں ہلایا۔۔
"کہاں جانا ہے۔۔؟"
"ماں جی کے پاس۔۔ شہوار کے پاس۔۔" اس نے کھلے شیشے سے باہر دیکھتے ہوۓ آہستہ سے کہا تھا۔ زاویار نے مزید کوئ سوال نہیں کیا۔۔ اب اسکی کار کا رُخ قبرستان کی جانب تھا۔ شام کی سُرخی مائل سی دھوپ ہر جانب پُکھراج کے پنکھوں کی مانند چمک رہی تھی۔ اس دھوپ تلے۔۔ ایک بیٹا۔۔ اپنی ماں سے اور آنکھوں کو بھلی لگتی اس معصوم محبت سے ملنے جارہا تھا۔۔ بہت دنوں بعد۔۔
*******
شام کے گہرے ہوۓ ساۓ تلے وہ دونوں قبرستان میں داخل ہورہے تھے۔ قبرستان ویسا ہی تھا۔۔ سنسان، پُراسرار، خاموش۔۔
وہ دونوں اب ایک قبر پر کھڑے تھے۔ حرم کے چہرے پر آج سکون تھا۔ وہ آہستہ سے پنجوں کے بل ماں جی کی قبر کے ساتھ بیٹھ گیا تھا۔ زاویار اسکے ساتھ ہی کھڑا، ہاتھ بلند کیے دعا مانگ رہا تھا۔ حرم نے ہاتھ آگے بڑھا کر نم مٹی پر پھیرا۔۔
"آپکی آغوش بہت نرم تھی، ماں جی۔۔ کوئ آغوش اس نرم گرم سی گود کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ " شام کی گھلتی روشنی میں اسکی آواز بہت مدھم اور اداس تھی۔۔
"آپکا بدلہ لیا جاچکا ہے۔۔ بس آپکا بیٹا ویسا نہیں رہا۔۔ معصومیت کھودی ہے آپکے بیٹے نے۔۔ لیکن معصومیت کا سودا اتنا بھی مہنگا نہیں تھا۔ اس سودے کے دوسرے سِرے پر آپ اور شہوار تھیں۔۔" مٹی پر ہاتھ پھیرتا وہ کہہ رہا تھا۔ ڈھلتا سورج بہت خوبصورت اور سُرخ معلوم ہورہا تھا۔ آسمان کسی حسینہ کی سُرخی سے لبریز محسوس ہورہا تھا۔
"میں آپکے پڑھاۓ سبق بھول گیا، ماں جی۔۔ مجھے بندوقیں چلانا یاد رہ گئیں بس۔۔" زاویار گہرا سانس لے کر دوسری جانب دیکھنے لگا تھا۔ مزید کچھ دیر سرگوشیاں کرنے کے بعد وہ وہاں سے اٹھ گیا تھا۔ اسکا رُخ دو قبریں چھوڑ کر شہوار کی قبر کی جانب تھا۔
سفید بے داغ آنچل اور بے ریا سی سیاہ آنکھیں۔۔ دل جیسے سکڑ کر پھیلا تھا۔۔ وہ آنکھوں کا پہلا خواب تھی۔۔ اسکے چھوٹنے پر آنکھیں تک زخمی ہوگئ تھیں اسکی۔۔ وہ اسکی قبر کے برابر میں آہستہ سے بیٹھ گیا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اسکی قبر کو نہیں چُھوا۔۔ شہوار کو شاید یہ بات پسند نہیں آتی۔۔ اس نے اس سے کچھ نہیں کہا۔۔ اسکے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔۔ زاویار نے جھک کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ اسکا بھاری ہوتا حلق وہ محسوس کرسکتا تھا۔ بدلے لیے جانے کے بعد بھی۔۔ کیا دُکھ ختم ہوجاتے ہیں۔۔؟ یادیں مٹ جاتی ہیں۔۔؟ شامیں تکلیف دینا بند کردیتی ہیں۔۔؟ شاید نہیں۔۔ شاید کبھی نہیں۔۔ جُدائ زندہ رہتی ہے۔۔ دل سے خون رستا رہتا ہے۔۔
وہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
پھر پلٹ گیا۔۔ زاویار اسکے پیچھے ہی تھا۔ خشک پتوں پر قدم دھرتے وہ گزر رہے تھے۔ اے شام۔۔ اگر تم سے کوئ پوچھے کہ موت سے زیادہ بے رحم شے کیا ہوتی ہے۔ تو اسے کہنا۔۔ زندگی۔۔!
قبرستان کا دروازہ جُھول رہا تھا۔ ہوا سرسرا رہی تھی۔ مغرب بکھرنے لگی تھی۔ قبریں مہک رہی تھیں۔ عزازیل زندہ تھا۔۔ ابلیس کا خاتمہ ہوچکا تھا۔۔
********
لاؤنج میں آج خاصی رونق لگی تھی۔ مغرب ڈھل چکی تھی۔ وہ چہرے کے گرد سفید دوپٹہ باندھے نماز سے فارغ ہو کر ریلنگ کی جانب بڑھ آئ تھی۔ لاؤنج میں شہزاد کی ماں تحائف لیے براجمان تھیں۔ ان کے آس پاس گھر کے افراد موجود خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ صوفیہ نے اسے دیکھا تو نیچے آنے کا اشارہ کیا۔۔ اس نے بمشکل مسکرا کر سر ہلایا تھا۔ پھر کمرے کے اندر چلی آئ۔۔ ثانیہ نے اسکے سفید چہرے کو بغور دیکھا تھا۔
"آپی۔۔؟ کیا ہوا۔۔؟"
"ہاں۔۔ کچھ نہیں۔۔" وہ الجھ کر دوپٹے کی تہیں چہرے کے اطراف سے کھولنے لگی تھی۔ ثانیہ سنگھار آئینے میں نظر آتے اسکے عکس کو دیکھنے لگی۔
"میری دوستیں کہتی ہیں کہ جب لڑکیاں گُم صُم رہنے لگیں تو انہیں کم و بیش محبت پریشان کررہی ہوتی ہے۔۔" اسکے جملے پر وہ جیسے چونکی تھی۔ پھر ابرو سکیڑ کر اسکی جانب پلٹی۔ دوپٹہ کھل گیا تھا اور اب وہ سیاہ بالوں میں برش چلا رہی تھی۔
"فوراً دوستی ختم کرو ایسی لڑکیوں سے۔۔ " اس نے اسے گھورا تو ثانی ہنس پڑی۔۔ وہ اب پھر سے چہرہ گھماۓ سنگھار آئینے میں اپنا سراپا دیکھ رہی تھی۔
"آپ کسی کا انتظار کررہی ہیں۔۔؟" وہ اسکے پیچھے چلی آئ۔ سیاہ آنکھیں اگلے ہی پل پھیل سی گئ تھیں۔
"نہیں۔۔ نہیں تو۔۔"
"آپ شیور ہیں۔۔؟" اف۔۔ بالکل حرم کی طرح پوچھا تھا اس نے یہ۔
"ثانی، مجھے تنگ نہیں کرو۔ نیچے جاؤ۔۔ میں آتی ہوں ابھی۔۔"
"اوں ہوں۔۔ جب تک آپ بتائیں گی نہیں کہ کیا بات تنگ کررہی ہے آپکو۔۔ تب تک میں نہیں جاؤنگی۔"
"میں نے سنا ہے کہ سارنگ آرہا ہے رات کو کھانے پر۔۔" ثانیہ کے دانت اگلے ہی پل اندر گۓ تھے۔ نازنین اسکے انداز پر مسکرائ تھی۔
"آپی۔۔ آپکو یہ کرنے کی ضرورت نہیں۔۔" گلابی رخسار لیے وہ خفگی سے بولتی کمرے سے باہر کی جانب بڑھی تو وہ گہرا سانس بھر کر رہ گئ۔ سانسیں پھر سے بے چین ہونے لگی تھیں۔ اس نے بالوں کو ہاف باندھا اور پھر کمرے سے باہر نکل آئ۔ جامنی رنگ کی لمبی قمیص اور چوڑی دار پجامہ پہنے وہ سفید روشنیوں تلے پیاری لگ رہی تھی۔ اس نے زینوں سے اترتے ہوۓ داخلی دروازے پر ایک دانستہ نگاہ ڈالی تھی۔
پھر وہ آگے بڑھ کر شہزاد کی ماں سے سلام دعا کرنے لگی۔ اب وہ صوفے پر براجمان ان سے باتیں کررہی تھی۔ ہر جانب خوشگوار سا ماحول تھا۔۔ سکون تھا۔۔ یکایک۔۔ ثانیہ کے ہاتھ سے شیشے کا گلاس بے اختیار چُھوٹ کر زمین پر جاگرا تھا۔ سب نے اسکی جانب چونک کر دیکھا تھا۔۔ نازنین نہیں پلٹی۔۔ اسکا دل بہت بری طرح دھڑک رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ داخلی دروازے پر کون کھڑا تھا۔۔ ثانیہ نے چیخ کر اپنے لبوں پر ہاتھ رکھ لیا تھا۔ لاؤنج میں براجمان ہر فرد اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ شانزے اپنے کمرے سے نکل آئ تھی۔۔ عدیل زینوں پر ہی رُک گیا تھا۔۔ سہیل جو لاؤنج میں روحیلہ کے ساتھ بیٹھے تھے۔۔ سُن ہو کر اٹھ کھڑے ہوۓ تھے۔۔ سب جیسے لمحے بھر کو ٹھہر سا گیا تھا۔۔ ایسے جیسے سب اپنی جگہوں سے ہلنا بھول گۓ ہوں۔ وہ دو قدم آگے بڑھا۔۔ اسکے پیچھے ہی زاویار تھا۔۔ نازنین نے پلٹ کر اسکی جانب نہیں دیکھا۔ وہ نہیں دیکھ سکی۔۔
"ح۔۔ حرم۔۔!!!" روحیلہ اگلے ہی پل بھاگ کر اس سے جالگی تھیں۔ پھر ثانیہ اسکی جانب بھاگی۔ وہ بری طرح رو رہی تھی۔ سہیل ساکت ہوگۓ تھے۔۔ انکی آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔
"تم کہاں تھے۔۔؟ تم کہاں چلے گۓ تھے۔۔؟ میرے بچے میں نے تمہیں بہت یاد کیا تھا۔۔"
"بھائ۔۔ بھائ۔۔" ثانیہ بس یہی کہہ پارہی تھی۔ لفظ جیسے ختم ہوگۓ تھے۔ لاؤنج رونے کی آوازوں سے لبریز ہونے لگا تھا۔ وہ سب کو ساتھ لگاۓ دھیمی سی آواز میں تسلی دے رہا تھا۔ سیاہ رات کاٹنے کے بعد بھی تسلی تو بہر حال اسے ہی دینی تھی۔ وہ ان دونوں کو ساتھ لگاۓ ہی سہیل کی جانب بڑھ آیا تھا۔ ثانیہ اور روحیلہ اس سے الگ ہوگئ تھیں۔ سہیل کے ہاتھ کپکپارہے تھے۔ اگلے ہی پل وہ آگے بڑھے اور اسے خود سے بھینچ کر لگایا۔۔ وہ رو رہے تھے۔ اس کی جدائ نے انہیں بے حد کمزور کردیا تھا۔ وہ اسے بوڑھے نظر آنے لگے تھے۔۔
صوفیہ آنسو صاف کرتیں اسکے سر پر ہاتھ پھیر کر اسے دعائیں دے رہی تھیں۔ وہ دعائیں لینے والا لڑکا تھا۔۔ شائستہ سے ملتے وقت وہ مسکرایا تھا۔۔ وہ اسے نم آنکھوں سے مسکرا کر خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ عدیل اب اسے خود سے بھینچ کر لگاۓ ہوۓ تھا۔۔ کچھ دنوں پہلے ہی اسکے یہاں بیٹا پیدا ہوا تھا۔۔ شانزے اسے سلام کرتی اب اسے اسکا بھتیجا دکھا رہی تھی۔۔ وہ اسکے معصوم رخساروں کو چُھوتا اسے پیار کرنے لگا تھا۔ اسی پہر صوفے پر بیٹھی نازنین پر اسکی نگاہ پڑی تھی۔۔ وہ جھکا اور اسے دیکھا۔۔
"کیسی ہیں آپ۔۔؟ مجھ سے ملیں گی نہیں۔۔؟" نازنین کی آنکھیں بھیگ رہی تھیں اور ناک سرخ ہورہی تھی۔ وہ اس سے نظریں نہیں ملا پائ۔۔ اگلے ہی پل آہستہ سے وہ اٹھ کر زینوں کی جانب بڑھ گئ تھی۔ وہ اسے پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔۔ گھر میں یکدم اتنی ہماہمی مچ گئ تھی کہ نازنین کی غیر موجودگی اسکے علاوہ کسی کو بھی محسوس نہیں ہوئ تھی۔
اسی پل داخلی دروازے سے سارنگ اور وجدان داخل ہوۓ اور پھر اسے لاؤنج میں شہزاد کی ماں سے جھک کر ملتے دیکھ کر وہ ٹھہر گۓ تھے۔ ان دونوں کی شکلیں دیکھنے لائق تھیں۔۔ وجی کی آنکھیں پوری طرح سے پھیل گئ تھیں اور سارنگ پلکیں جھپکانا تک بھول چکا تھا۔ زاویار نے سارنگ کی پشت پر ہاتھ رکھ کر اسے حرم کی جانب دھکیلا تھا۔۔ وہ ساکت ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔ حرم مسکرایا اور پھر اسے کھینچ کر خود سے لگایا۔۔ سارنگ شاید رو رہا تھا۔۔ حرم نے وجدان کو بھی پاس آنے کا اشارہ کیا تو وہ تیزی سے پاس چلا آیا۔۔ زاویار بھی اسی پل آگے بڑھ آیا تھا۔۔ وہ ان تینوں کو ہی اپنے بازوؤں میں سمیٹ چکا تھا۔ سب انہیں دیکھتے ہنس رہے تھے۔۔ وہ خوشی کا گھر تھا۔۔ وہ آنسوؤں سی نم خوشی کا گھرانہ معلوم ہورہا تھا۔ کیا، کیوں، کیسے، کب۔۔ کہاں۔۔ سوال ہی سوال تھے۔۔ وہ ثانیہ کو خود سے لگاۓ سب کے جوابات بہت تسلی سے دے رہا تھا۔۔ سب کی آنکھیں بار بار بھیگنے لگتی تھیں۔ وہ سامنے براجمان تھا۔۔ نگاہوں کو اسکی موجودگی پر یقین نہیں آتا تھا۔ رات قطرہ قطرہ بہتی جارہی تھی۔ روحیلہ بار بار اسکا چہرہ چُھو کر یقین دہانی کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ ثانیہ اسے یک ٹک دیکھ رہی تھی اور سہیل کے سوالات ختم نہیں ہورہے تھے۔ رات کا تیسرا پہر شروع ہوا تو سب نے اسے آرام کا کہہ کر اپنے کمروں کا رُخ کرلیا تھا۔ وہ صبح اٹھنے کے بعد دوبارہ اسے دیکھنے کے لیے اپنے بستر تک چلے گۓ تھے۔۔ ان کی آنکھیں اسے دیکھتے دیکھتے نہیں تھک رہی تھیں۔۔
سارنگ اور زاویار کو دروازے تک چھوڑنے چلا آیا تھا وہ۔ زاویار اسے تنبیہہ کررہا تھا۔ سارنگ ان دونوں کو مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ زاویار اپنی کار کی جانب بڑھا تو وہ سارنگ کی جانب متوجہ ہوا۔۔
"کلینک آؤنگا۔۔ کافی پلادینا۔۔" وہ ہنس دیا تھا۔ پھر سر اثبات میں ہلا کر اسے خود کے ساتھ لگایا۔ حرم میں جان تھی اسکی۔۔ وہ اور زاوی اپنی اپنی منازل کی جانب بڑھے تو وہ گہرا سانس لیتا اندر بڑھ آیا۔۔ لمحے بھر کو اس نے داخلی دروازے پر ٹھہر کر گھر پر اک نگاہ ڈالی تھی۔ گھر وہ ہوتا ہے جہاں انسان خود کو محفوظ محسوس کرے۔ پچھلے ایک سال میں اس نے خود تک آتے ہر شخص کی سانس تک پر شک کیا تھا۔ زندہ رہنے کے لیے اسے اپنی جانب بڑھتے ہر انسان پر شک کرنا تھا۔۔ یہاں تک کہ اس نے ہائیر اپس پر بھی بھروسہ نہیں کیا تھا۔ اس دنیا میں کوئ بھروسے کے قابل نہیں تھا۔
وہ آگے بڑھ آیا۔۔ اسکا رُخ ثانیہ کے کمرے کی جانب تھا۔ وہ دوبارہ اسے نظر نہیں آئ تھی۔ وہ بس اسے ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا۔ اگلے ہی پل اس نے دروازہ دھکیلا تو سامنے بستر خالی دکھائ دیا۔ ثانیہ روحیلہ کے کمرے میں سونے چلی گئ تھی۔ وہ اندر چلا آیا۔۔ ایک نگاہ بے ساختہ بالکنی پر پھسلی تو ٹھہر سا گیا۔
ٹھنڈ میں وہ گھٹنوں پر رُخسار رکھے، سورہی تھی۔ اسکے سیاہ بال جھک کر زمین کو چُھو رہے تھے۔ رات کی سیاہی میں مدھم سی چاندنی تلے وہ، چاندنی کا ہی مجسمہ معلوم ہورہی تھی۔ وہ وہیں ٹھہرا رہا۔۔ آنکھوں میں نرمی لیے اسکے نازک وجود کو دیکھتا رہا۔ یکایک ہوا کا ایک سرسراتا سا جھونکا اسے چُھو کر گزرا تو وہ کپکپائ۔۔ حرم چونکا۔۔ پھر آگے بڑھ کر بیڈ سے چادر اٹھائ۔ قدم قدم چلتا اس تک چلا آیا۔۔ چادر کھول کر اس پر ڈالی تو اگلے ہی پل اس نے ایک جھٹکے سے رخسار گھٹنے سے ہٹایا تھا۔ نیند سے بھری آنکھیں لیے وہ پہلے پہل تو اپنے اوپر جھکے اسکے ہیولے کو ناسمجھی سے دیکھتی رہی۔۔ حرم نے چادر اس پر ڈالی اور جونہی پلٹنے لگا تو نازنین نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔ وہ ٹھہر گیا تھا۔۔ پھر پلٹ کر اسے دیکھا۔۔ وہ چہرہ اٹھاۓ اسے ہی تک رہی تھی۔۔
"سوجائیں۔۔ تھکی ہوئ ہیں آپ۔۔ اور یہاں بہت ٹھنڈ ہے۔ بستر پر سوئیں جا کر۔۔"
"تم تھے ناں وہ جو اندھیرے میں مجھ پر چادر ڈال کر خاموشی سے پلٹ جایا کرتے تھے۔۔؟" وہ اسکا جواب جانتے ہوۓ بھی سوال کررہی تھی۔ حرم نے چونک کر اسکی جانب دیکھا تھا۔ نازنین نے اسکی جیکٹ کی آہستین اب تک تھامی ہوئ تھی۔۔
"میں اتنا کیئرنگ نہیں ہوں جتنا آپ مجھے سمجھتی ہیں۔" وہ اپنا ہاتھ چھڑانے کے بجاۓ اسکے سامنے پنجوں کے بل بیٹھ گیا تھا۔ نازنین کے سیاہ بال ہولے ہولے اڑ رہے تھے۔ بالوں کے ہالے میں دمکتا اس کا چہرہ آج بھی حرم کو ڈسٹریکٹ کررہا تھا۔
"مجھے پتا ہے تم کیئرنگ نہیں ہو۔ تم بدتمیز ہو۔۔" وہ ہنس دیا تھا۔ چاندنی کی بہتی ندی، اسکی ہنسی پر فریفتہ ہوئ تھی۔ نازنین نے اسکی آہستین متاعِ کُل کی مانند تھامی ہوئ تھی۔ اسکی نگاہیں حرم کی کلائ میں بندھے اس تتلی نما ہار پر پھسلی تھیں۔ پھر اسکی نگاہوں نے حرم کی آنکھوں تک سفر کیا تھا۔ اپنائیت سے اسے دیکھتیں۔۔ خوبصورت آنکھیں۔۔
"تم نے میرا ہار مجھے واپس نہیں کیا کبھی۔"
"آپ کو کیا لگتا ہے میں اب تک زندہ کیسے رہا ہوں؟" اسکے سوال پر وہ چونکی تھی۔
"تتلی سے نازنین۔۔ نازنین سے سیاہ آنکھیں۔۔ سیاہ آنکھوں سے حرم۔۔ ایک دائرہ تھا جس میں ہمیشہ میں آپکے ساتھ قید رہا ہوں۔ تتلی، حرم، نازنین، سیاہ آنکھیں۔ چکر دار دائرہ۔۔ جس میں ہر دفعہ گھوم کر میں آپ تک پہنچ جاتا تھا۔ " وہ اسے دیکھتی رہی۔ حرم نے نچلا لب دانتوں تلے دبا لیا تھا۔
"آپ مجھے صبح اٹھ کر دیکھ سکتی ہیں۔"
"ڈر لگ رہا ہے۔۔ صبح اٹھونگی تو سب ہوگا لیکن تم نہیں ہوگے۔" آہستہ سے کہا تو وہ جواباً اسے کچھ نہ کہہ سکا۔
"آپ ناراض نہیں ہیں مجھ سے۔۔؟" آہستین اب تک اسکی مٹھی میں قید تھی۔ نازنین نے ہولے سے سر نفی میں ہلایا تھا۔ اسکے لبوں پر دلکش سی مسکراہٹ بھی ابھر آئ تھی۔
"پھر آپ مجھے دیکھ کر اوپر کیوں آگئ تھیں۔۔؟"
"میں سب کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔"
"اور میرے سامنے۔۔؟ میرے سامنے رو سکتی ہیں آپ۔۔؟" لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ ابھر آئ تھی۔
"ہاں۔۔"
"ہاں۔۔؟" وہ حیران ہوا تھا۔ آنکھوں میں مسکراتی سی حیرت لیے وہ نازنین کو بالکل چھوٹا بچہ لگا تھا۔
"ہاں۔۔ تمہارے سامنے رو سکتی ہوں میں۔۔"
"اسپیشل ہوں پھر تو میں۔۔" سر کے پیچھے ہاتھ پھیرا۔۔ رخسار ہلکے سے گلابی ہوۓ تھے اسکے۔ نازنین اسکے انداز پر ہنس دی تھی۔
"اسپیشل نہیں۔۔ انتہائ خود پسند ہو تم۔"
"آپ انصاف کریں۔۔ کیا مجھے خود پسند نہیں ہونا چاہیۓ۔۔؟" وہ دونوں دھیمی سرگوشی میں ایک دوسرے کو دوبدو جواب دے رہے تھے۔
"خودپسند ہونا اچھی بات نہیں۔۔"
"پھر اچھی بات کیا ہے، مس نازنین انصاری۔۔؟" جس طرح اس نے نازنین کا نام لیا تھا۔ سامنے بیٹھی لڑکی کے دل میں ہلچل سی مچ گئ تھی۔ اس نے اگلے ہی پل اسکی آہستین چھوڑی تو وہ حیران ہوا۔
"آپ پکڑ سکتی ہیں۔۔ میں یہاں مزید ایسے بیٹھ سکتا ہوں۔۔" آنکھوں میں معصومیت سمیٹ کر کہا تو وہ پھر سے ہنس پڑی۔
"اب جاؤ تم۔۔ سوجاؤ۔۔ آرام کرو۔۔"
"مجھے نیند کیسے آۓ گی اب۔۔؟" وہ خفا ہوا تھا۔ اس نے بالوں کو کان کے پیچھے اڑس کر ناسمجھی سے دیکھا تھا اسے۔۔
"کیا مطلب۔۔؟"
"آپ بال باندھیں پہلے۔۔ مجھے اپنی بات بُھول رہی ہے بار بار۔۔" اور وہ پھر سے ہنس پڑی تھی۔ 
"تمہیں کیا مسئلہ ہے میرے بالوں سے۔۔ اتنے تو پیارے ہیں۔" لبوں پر تپاتی ہوئ مسکراہٹ تھی۔ حرم نے اسے آنکھیں پھیلا کر دیکھا تھا۔
"یہی تو مسئلہ ہے کہ یہ بہت پیارے ہیں۔"
اسکے جواب پر وہ مسکرا کر اسے دیکھتی رہی تھی۔پھر اپنے برابر ہاتھ سے جگہ تھپتھپائ تو اسکا اشارہ سمجھ کر وہ آگے بڑھ کر دیوار سے ٹیک لگاۓ۔۔  اسکے ساتھ آ بیٹھا۔
"کیسی رہیں آپ ایک سال تک۔۔؟"
"سنبھالتی رہی۔۔ خود کو۔۔ گھر والوں کو۔۔"
"خوش ہیں اب آپ۔۔؟"
اسکے سوال پر نازنین نے چہرہ گھما کر اسے دیکھا تھا۔ پھر سر اثبات میں ہلایا۔۔
"تھراپی سے ذہنی حالت پہلے سے خاصی بہتر ہوگئ ہے میری۔ ذہنی خانوں میں قید خوف آہستہ آہستہ کر کے اپنے نشان ختم کرتے جارہے ہیں۔ بابا اور دادا سے ملنے اکثر جاتی ہوں میں۔۔ وجی کا داخلہ میڈیکل کالج میں ہوگیا۔ امی کی طبیعت سنبھل گئ ہے۔۔ بابا کی پراپرٹی واپس مل گئ مجھے۔ اس سب کے بعد اگر ناشکری کی تو کفر کے مترادف ہوگا۔۔" وہ بول کر خاموش ہوئ تو حرم نے سمجھ کر گہرا سانس لیا۔
"تم خوش ہو اب۔۔؟" اس نے سوال کیا تو وہ سامنے دیکھتا رہا۔ اگلے ہی پل اس نے نازنین کی جانب چہرہ پھیرا تھا۔ مسکرا کر خفیف سا سر ہلایا۔
"میں ہمیشہ خوش رہتا ہوں۔"
"جھوٹ مت بولو۔۔"
"تکلیف تو ساتھ رہتی ہے۔ ایسے میں خوش رہنا نہیں چھوڑا جاسکتا۔۔"
"ایسی باتیں صرف تم ہی کرسکتے ہو۔۔" اس نے سچائ سے اعتراف کیا تھا۔ حرم اسے چہرہ پھیرے دیکھ رہا تھا۔
"تم اتنے مضبوط ہو کہ تمہاری مضبوطی خوفزدہ کرتی ہے۔ تم اتنے نارمل رہتے ہو کہ ایب نارمل محسوس ہونے لگتے ہو۔" بالوں کو سمیٹ کر دوسرے کندھے پر ڈالتے ہوۓ وہ کہہ رہی تھی۔
"دوسرے لفظوں میں آپ مجھے ناقابلِ قبول کہہ رہی ہیں۔۔؟" وہ اسکے سوال پر ہنس دی تھی۔ وہ خود بھی ہنس رہا تھا۔
"مت بھولیں کہ اس ناقابلِ قبول مخلوق کو ایک سال تک یاد کیا ہے آپ سب نے۔۔" ٹھہر کر اس نے کہا تو نازنین نے اسے دیکھا۔۔ خفگی سے۔۔
"صرف یاد نہیں۔۔ اس مخلوق نے بہت رُلایا بھی ہے ہم سب کو۔"
"اسی لیے آپ میرے پلٹنے پر اس شہزاد نامی گدھے سے شادی کررہی تھیں۔۔؟" اسکی آواز میں موجود خفگی محسوس کر کے نازنین سیدھی ہو بیٹھی تھی۔
"کسی کو گدھا کہنا بری بات ہے۔۔"
"میں اس سے زیادہ ہائ کوالیٹی کا گھٹیا لفظ استعمال نہیں کرسکتا آپ کے سامنے۔۔" وہ ہنس دی تھی۔
"تمہیں ہائ کوالیٹی کے گھٹیا لفظ آتے بھی ہیں۔۔؟" اسکا مزاق اڑاتا انداز حرم کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کرگیا تھا۔ اس نے سرعت سے چہرہ پھیر کر اسے دیکھا تھا۔
"کسی کو بہت خوش فہمی کہ میں خوش گُفتار ہوں۔ مت بُھولیں کہ میں زاویار کا دوست ہوں۔" نازنین نے سر ہلایا تھا محض۔ زاویار کی خوش گفتاری سے کون واقف نہیں تھا بھلا۔۔ دُور کہیں فجر کی اذانیں گونجی تھیں۔۔ رات کی سیاہی میں صبح کی ہلکی سی کرن پُھوٹ پڑی تھی۔
"آپ شہزاد سے شادی نہیں کریں گی۔ آپ اسے پسند نہیں کرتیں اور نہ ہی وہ آپکے قابل ہے۔۔" سعادت مندی سے کہا تو وہ ہاتھ باندھے، مسکراہٹ دبا کر اسے دیکھنے لگی۔
"تم۔۔ جیلس ہورہے ہو۔۔؟" اسکے سوال پر جیسے اسے کسی نے ڈنک مارا تھا۔
"کیا۔۔؟ نہیں!"
"پھر شہزاد بالکل ٹھیک ہے۔۔"
"نازنین۔۔!"
"ہاں۔۔ کیا۔۔؟" انجان بنتے ہوۓ پوچھا تو حرم نے دیکھا۔
"زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔ شہزاد خود گھر پر آکر۔۔ آپ کے رشتے سے انکار کر کے جاۓ گا۔۔"
"حرم۔۔!" اب اسکی باری تھی اسے گھرکنے کی۔ وہ سکون سے مسکرایا تھا۔ پھر بیچارگی سے کندھے اچکاۓ۔
"مجھے نماز پڑھنی ہے۔۔" وہ اٹھ کھڑی ہوئ تھی۔ اس نے بے ساختہ ہی اسکی کلائ تھام لی تھی۔ پھر اٹھ کر اسکے مقابل کھڑا ہوا۔ اسکی کلائ اگلے ہی پل چھوڑ دی۔
"بس دو سال چھوٹا ہوں میں آپ سے۔۔"
اسکی بات پر وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی تھی۔
"تو۔۔؟" اگلے ہی پل ہاتھ باندھ کر اعتماد سے اسے دیکھا۔ وہ اسکے انداز پر گڑبڑایا تھا۔
"تو یہ کہ آپ نے وجدان کو یہ کیوں کہا کہ میں آپکو بچہ لگتا ہوں۔۔؟" اور وہ اسے چہرہ اٹھاۓ دیکھ کر رہ گئ تھی۔ وہ واقعتاً پوچھ رہا تھا۔ ایک سال سے اس نے یہ سوال خود کے پاس سنبھال کر رکھا ہوا تھا۔ نازنین کو سمجھ نہیں آیا کہ اسے کیا جواب دے۔۔ وہ اسے ضرورت سے زیادہ ہی سنجیدہ لگ رہا تھا۔
"کیا تمہارے اس سوال کے بعد مجھے یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ تم بچے کیوں لگتے ہو مجھے۔۔؟" اس نے ذو معنی سا طنز کیا اور پھر وضو بنانے پلٹ گئ۔ وہ بے بسی سے گردن کے پیچھے ہاتھ پھیر کر ہنس دیا تھا۔ اسے اسکا جواب مل گیا تھا۔۔ چاندنی اب ٹھنڈی سی روشنی میں تحلیل ہوتی جارہی تھی۔ اور وہ دونوں اس روشنی تلے، مسکرا رہے تھے۔
*******
اگلے دنوں میں شہزاد کے رشتے سے انکار ہوگیا۔ گھر والے پریشان تھے کہ بغیر کسی وجہ کے شہزاد رشتہ کیسے واپس لے سکتا تھا۔ نازنین نے ایک نظر سامنے صوفے پر براجمان حرم پر ڈالی تھی۔ وہ نظر نہیں، گُھوری تھی۔ حرم نے مسکرا کر بیچارگی سے کندھے اچکاۓ تھے۔
زاویار اب اپنی ماں کو لیے بستی میں آٹھہرا تھا۔ وہ روبینہ کو اپنے قریب رکھنا چاہتا تھا۔ بستی ایجنسی سے بے حد قریب تھی۔ اگلے دن وہ سب سارنگ کے کلینک میں چلے آۓ تھے۔ اس نے کافی پارٹی رکھی تھی۔ حرم کے واپس آنے کی خوشی میں۔۔ ان کی خوش گپیوں سے کلینک کی سفید روشنیاں مزید روشن محسوس ہونے لگی تھیں۔ گھر کی جانب پلٹتے ہوۓ نازنین زاویار تک چلی آئ تھی۔۔ حرم، ثانیہ کے ساتھ اندر جاچکا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرائ تھی۔
"تم نے وعدہ پورا کردیا۔۔ تم واقعی میرے سولجر ہو، زاویار۔۔" وہ محض مسکرا کر رہ گیا تھا۔
"یہ تنگ کرے تو بتائیے گا۔۔" اسکا انداز ویسا ہی تھا۔ نازنین ہنس دی تھی۔ وہ مسکرا کر اسے ہاتھ ہلاتا پلٹ گیا تھا۔ سڑک تک آتے آتے اسکی مسکراہٹ سمٹ گئ تھی۔ لیکن دل مطمئن تھا۔ اس نے وہی کیا تھا جو اسے کرنا چاہیۓ تھا۔ وہ اپنے دوست کے لیے۔۔ نازنین کے لیے بے حد خوش تھا۔
اس نے گھر میں داخل ہو کر روبینہ کے کمرے کا رُخ کیا اور پھر ان کے ہاتھ پر سر رکھے ہی سوگیا۔ وہ انہیں اب تک یاد نہیں آیا تھا۔۔ لیکن وہ اسے آہستگی سے قبول کرنے لگی تھیں۔ وہ اسے ٰزاویارٰ پکارنے لگی تھیں۔ اسکے لیے بس یہی کافی تھا۔
حرم نے نازنین کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ اب اسکے سامنے دروازہ کھولے کھڑی تھی۔ وہ ہلکا سا مسکرایا۔۔
"اب کوئ شہزاد رشتہ نہیں لا سکے گا۔"
"یہ بتانے کے لیے دروازہ بجایا ہے تم نے۔۔؟" وہ مسکراہٹ دباۓ پوچھ رہی تھی۔ حرم نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
"کیا آپ۔۔ شادی کریں گی مجھ سے۔۔؟"
"اگر میں انکار کردوں تو۔۔؟" نازنین نے اپنی ٹھوڑی کچھ اوپر اٹھائ تھی۔۔
"کیا آپکے پاس چوائس ہے۔۔؟" بھوری آنکھیں مسکرائ تھیں۔ نازنین نے دروازہ اگلے ہی پل اسکے منہ پر بند کیا تو وہ ہنستا ہوا پلٹا۔۔
دوسرے دن وہ لائبریری میں کھڑی کوئ کتاب نکال رہی تھی۔ حرم آہستگی سے اسکے ساتھ آکھڑا ہوا۔۔ نازنین نے اسی پہر اپنی ہتھیلی اسکے سامنے پھیلائ تو وہ حیران ہوا۔۔
"کیا۔۔؟"
"میرا نیکلیس۔۔ جو تم نے ہاتھ میں باندھ رکھا ہے۔۔"
"یہ اب میرا ہے۔۔" اس نے بچوں کی طرح ہاتھ کمر کے پیچھے کرلیا تھا۔ نازنین نے زور سے کتاب بند کی۔ لب بھینچ کر، آنکھیں چھوٹی کیے اسے دیکھا۔۔
"وہ تمہارا کیسے ہوگیا۔۔؟"
"کیونکہ اب کوئ شہزاد آپکے لیے رشتہ نہیں لاسکے گا۔۔" اور جملے کے آخر میں وہ خود ہی ہنس پڑا تھا۔ نازنین بمشکل مسکراہٹ دباۓ اسے دیکھ رہی تھی۔
"اسکا کیا تعلق ہے میرے نیکلیس سے۔۔؟"
"اسکا یہ تعلق ہے۔۔ کہ شہزاد کے علاوہ آپکے پاس ایک معصوم شُوٹر کا انتہائ مناسب رشتہ موجود ہے۔ جب آپ رشتے کے لیے ہامی بھریں گی۔ تو آپ آفیشلی اس شُوٹر کی ہوجائنگی۔ جب آپ اس شُوٹر کی ہوجائنگی تو اصولی طور پر آپ کی چیزوں پر اس شُوٹر کا حق ہوگا۔ اس طرح یہ نیکلیس میرا ہے۔۔"
"گاڈ۔۔!!" نازنین اسکی وضاحت پر سُرخ ہوئ تھی۔ اس نے اسکے کندھے پر کتاب مار کر اسے پرے ہٹایا اور باہر کی جانب چلی آئ۔ وہ اسے چلتے پھرتے تنگ کرتا رہا۔۔ اور ایک دن سہیل نے اس سے پوچھ ہی لیا۔۔
"نازنین کو پسند کرتے ہو تم۔؟" وہ بری طرح چونکا تھا۔ لاؤنج میں براجمان ہر شخص کی نگاہ اسکی جانب تھی۔
"جی۔۔؟" اسکے سوالیہ سے "جی" پر ثانیہ اور نازنین کی دبی دبی سی ہنسی ابھری۔۔
"میرا خیال ہے تم راضی ہو۔۔ کیونکہ کسی شہزاد کا رشتہ تو اب ویسے بھی نہیں آۓ گا۔۔" اور ان کی جانب سے ایسی چوٹ پر وہ واقعتاً گڑبڑا گیا تھا۔ سب ہنس دیے۔۔ آخر میں وہ خود پر ہنس پڑا تھا۔ پھر اس نے چہرہ پھیر کر نازنین کو دیکھا۔۔ ابرو اچکاۓ۔۔ "آپ شُوٹر کی ہیں۔۔ اور آپکی کی ہر شے پر اس شُوٹر کا حق ہے۔۔" وہ کہہ رہا تھا۔ نازنین نے گہرا سانس لے کر سر ہلایا تھا محض۔۔ اگلے دنوں میں اسکی حرم سے نسبت طے کردی گئ تھی۔ وہ آفیشلی شُوٹر کی ہوگئ تھی۔۔
کئ راتوں بعد اس کے فون پر ایک پیغام ابھرا تھا۔۔
وہ خاموشی سے کمرے سے اٹھ آیا۔
وہ کمرے سے باہر کی جانب بڑھا۔ رات کا تیسرا پہر چل رہا تھا۔ اپنے پیچھے قدموں کی چاپ سن کر وہ لمحے بھر کو ٹھہرا تھا۔۔ پھر پلٹا۔۔ کمرے کی چوکھٹ پر نازنین کھڑی تھی۔ اسکے سیاہ بال اطراف میں گر رہے تھے اور آنکھوں میں نیند کا کچا سا گلابی پن تھا۔ اسے اس وقت جاتا دیکھ کر بالکل چپ چاپ رہ گئ تھی وہ۔۔
"کہاں جارہے ہو۔۔؟" اس نے پوچھا۔۔ ساتھ ہی پاس چلی آئ۔ ٹھنڈے ماربل پر وہ ننگے پیر کھڑی اس سے استفسار کررہی تھی۔ حرم کے ہاتھ میں لوڈ ہوا پستول دیکھ کر وہ اندر ہی اندر گھبرائ تھی۔
"وہیں جہاں سے میرا تعلق ہے۔ فیلڈ پر۔۔"
"اس وقت۔۔؟" اترتی رات دیکھ کر وہ پریشانی سے بولی تھی۔
"آرڈر از آرڈر۔۔"
"تم جب بھی جاتے ہو۔۔ واپس نہیں آتے۔۔"
"واپس نہیں آتا۔۔؟ پھر یہ آپکے سامنے کون کھڑا ہے۔۔؟ میرا بھوت؟" وہ مدھم سی آواز میں مسکرا کر بولا تو نازنین نے سر نفی میں ہلایا۔ اسکی آنکھوں میں ہلکی سی نمی بھی ابھر آئ تھی۔
"تم یہ کام کیوں کررہے ہو۔۔؟ ایک نارمل زندگی بھی تو گزار سکتے ہو ناں تم۔۔؟" ریلنگ پر ایک ہاتھ ٹکاۓ وہ چہرہ اٹھا کر اسے دیکھ رہی تھی۔ حرم کو اسکا ہاتھ چُھوۓ بغیر اندازہ تھا کہ وہ یخ ہوگا۔ اسکی نگاہوں نے نازنین کی سیاہ آنکھوں تک سفر کیا تھا۔
"نارمل۔۔ میرے لیے اب یہی زندگی نارمل ہے۔" لمحے بھر کو اس نے پستول اٹھا کر اسے دکھایا تھا۔ "میں مزید کسی بچے کو اپنی ماں کے بغیر زندہ نہیں دیکھ سکتا۔ میں کسی کو بچپن کی محرومی کے ساتھ بڑھتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا۔ میں کسی لڑکی کو اپنے خوفناک خوابوں سے ڈر کر اٹھتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا۔ میں۔۔ ان سب کی نارمل زندگیوں کے لیے۔۔ ایک ایب نارمل زندگی گزار لونگا۔ کیونکہ مزید کسی بستی کی تباہ حالی دیکھنا میرے بس میں نہیں ہوگا۔" اسکا جواب بالکل مدھم لیکن مضبوط تھا۔۔ نازنین کی سماعت میں اسکی بھاری سی مضبوط آواز گُھلنے لگی تھی۔ ریلنگ پر رکھا اسکا ہاتھ ٹھنڈا پڑتا جارہا تھا۔
"تم وعدہ کرو۔۔ کہ واپس آؤگے۔۔" وہ چہرہ اٹھاۓ اس سے وعدہ مانگ رہی تھی۔ شاید اسی لیے کہ وہ وعدوں کو نہیں بھلایا کرتا تھا۔ شاید اسی لیے کہ وہ وعدوں کی تکمیل کے لیے اپنی جان تک رہن رکھوا سکتا تھا۔ اس نے ریلنگ سے اپنا یخ ہاتھ ہٹا کر اسکے سامنے پھیلایا۔ وہ اسکے ہاتھ کو دیکھتا رہا۔ گلے میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئ۔
"وعدہ کرو۔۔"
"آپکو مجھ پر یقین نہیں ہے۔۔؟"
"ہے۔۔ بہت ہے۔۔ لیکن وعدہ کرو۔ تمہارے وعدے تمہیں باندھ کر رکھتے ہیں۔ وعدہ کرو کہ تم فیلڈ پر اپنی حفاظت کروگے۔ میرے لیے تم واپس آؤگے۔۔" حرم محبت بھری نظروں سے اسکا چہرہ تکتا رہا۔ پھر اپنا نرم گرم سا ہاتھ اٹھا کر اسکا یخ ہاتھ قید کیا۔۔
"وعدہ۔۔"
"واپس آؤگے۔۔؟" اسکی آواز کانپی تھی۔ حرم نے گہرا سانس لیا۔ بولا تو آواز بوجھل تھی۔۔
"واپس آؤنگا۔۔"
"میں انتظار کرونگی۔۔" اس نے اپنے ہاتھ کو اسکے ہاتھ میں قید دیکھا تو آہستہ سے کہا۔ وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔
"اب آرام کریں۔ میں آپ سے رابطے میں رہونگا۔۔"
"اوکے۔ میں تمہارے ہر پیغام کا انتظار کرونگی۔" اسکی آنکھیں جھلملائ تھیں۔ وہ پلکیں جھپکاۓ بغیر اسکی آنکھیں دیکھتا رہ گیا۔
"ایسے کھڑی رہیں گی تو کیسے جاؤنگا میں۔۔؟" اسکی آواز بوجھل ہورہی تھی۔ وہ یہاں کھڑی رہتی۔۔ ایسی آنکھوں سے دیکھتی تو وہ کیسے جاتا۔۔؟
"میں نے تمہیں نہیں روکا۔۔" وہ نم آنکھوں سے مسکرائ تھی۔ پھر اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکال لیا۔ حرم کا ہاتھ خالی رہ گیا تھا۔
"آپ میری کمزوری ہیں۔۔ پتا ہے ناں آپکو۔۔؟" اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
"جانتی ہوں۔۔ لیکن میں تمہاری طاقت بننا چاہتی ہوں۔ کمزوری نہیں۔۔" وہ چند پل اسے دیکھتا رہا۔ پھر ہولے سے مسکرایا۔
"آپکے بال مجھے بہت پسند ہیں۔" چند پل بعد وہ پھر سے بولا تو نازنین نے مسکراہٹ دبائ۔
"اتنے آبسیسڈ کیوں ہو تم میرے بالوں سے۔۔؟" اس نے یونہی اپنے بالوں کو چُھو کر پوچھا تھا۔ حرم نے اسکی بات نہیں سنی۔۔ کسی لمحے کے زیرِ اثر وہ ہاتھ اٹھا کر اسکے نرم بالوں کو چُھونا چاہتا تھا۔۔ لیکن اگلے ہی پل ٹھہر گیا۔ اپنا ہاتھ پیچھے کرلیا۔ نازنین اسکے انداز کو بغور دیکھ رہی تھی۔
"بس۔۔ میں آبسیسڈ ہوں۔۔"
"اب یہ مت کہنا کہ ان پر بھی تمہارا حق ہے۔" وہ شوخ ہوئ تھی۔ اسکے مقابل کھڑا لڑکا ہنس دیا۔۔
"حق تو ہے۔۔" دو قدم پیچھے ہٹتے ہوۓ اس نے معنی خیزی سے کہا تھا۔ نازنین کے رخسار بے ساختہ گلابی ہوۓ تھے۔ زینوں کے دہانے پر ٹھہر کر اس نے ایک بار نازنین کی جانب دیکھا اور پھر اس سے پہلے کہ وہ خود پر قابو نہیں رکھ پاتا۔۔ تیزی سے زینے اترتا چلا گیا۔ نازنین کی نگاہیں دور تک اسکا پیچھا کررہی تھیں۔ اسکی آنکھیں نم تھیں لیکن لب آسودگی سے مسکرا رہے تھے۔ حرم نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے کا مطلب تھا۔۔ اپنے قدموں کو زنجیر کردینا۔۔
اس نے کال بیک کی اور پھر فون سنتا آگے بڑھ گیا۔
"آپریشن ان پراسس، زیرو۔۔" کئ لمحات بعد اب آؤٹ ڈور شُوٹنگ سینٹر میں اسکا ہیولہ ہاتھ لمبا کیے نشانہ لے رہا تھا۔
"راجر سر۔۔" اس نے کان میں لگے آلے کو دبا کر کہا۔ اسی پہر کوئ اسکے ساتھ آکھڑا ہوا تھا۔ وہ کانٹریکٹ ری نیو کرچکے تھے۔ اس دفعہ ٹاسک فورس کا حصہ زاویار بھی تھا۔۔
"آرگن ٹریفکنگ، بلیک آپریشن شروع ہوا چاہتا ہے۔۔" فضا میں یکدم گولیوں کی بلند آواز گونجی اور سامنے جُھولتا ٹارگٹ، درمیانی دائرے سے پھٹ گیا۔
"حرم اور زاویار فیلڈ پر ہیں۔۔ ویلکم بیک شُوٹرز۔۔"
طالوت کے ہیولے نے کہیں پیچھے سے مسکرا کر کہا تھا۔
زاویار اور وہ۔۔ پے در پے گولیوں سے ٹارگیٹ چھلنی کرتے جارہے تھے۔۔
اور ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہو۔۔
روکو ظالم کا ہاتھ۔۔
کہ جو نہ روکے ایسے ہاتھوں کو۔۔
وہ خود ظالم ہے۔۔ سب بڑا۔۔
گولیوں کی گونج فضا میں بڑھتی جارہی تھی۔۔
زاویار نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا۔
حرم نے بھی اسے دیکھا تھا۔
وہ دونوں ہلکا سا مسکراۓ تھے۔۔
اور پھر کچھ یوں ہوا کہ۔۔
اک سفر۔۔ تمام ہوگیا۔۔
اسکے اتمام کے ساتھ ہی۔۔
اک سفر کا آغاز ہوگیا۔۔
*******
ختم شد۔۔

You've reached the end of published parts.

⏰ Last updated: Sep 27, 2021 ⏰

Add this story to your Library to get notified about new parts!

عزازیل Where stories live. Discover now