قسط 16

50 8 1
                                    

اس نے اپنے پیچھے کمرے کا دروازہ بند کردیا تھا۔ پھر دروازے سے لگ کر تب تک کھڑا رہا جب تک نازنین اور صوفیہ، گھر سے باہر نکل نہیں گئیں۔ وہ دروازے کو بدستور مقفل چھوڑے، آگے بڑھ آیا تھا۔ پھر واش روم کا دروازہ دھکیلا۔۔ چند لمحات کے لیے خود کو سامنے لگے آئینے میں دیکھتا رہا۔ اسکی سیاہ آنکھیں، معمول سے زیادہ سیاہی کا مظاہرہ کررہی تھیں۔ اس نے آگے بڑھ کر اپنی شرٹ گردن سے ذرا سرکائ۔ گردن سے ذرا نیچے لگا زخم واضح ہوگیا
یہ وہ زخم تھا جو ان لڑکوں نے اسے دیا تھا۔ اسے اس زخم کے اوپر چڑھی بدنما سی کھال کو دیکھ کر نازنین کا ہر زخم یاد آنے لگا تھا۔
پھپھو نے اس کے لیے اپنی زندگی تیاگ دی تھی۔ پھپھو نے اس کے۔۔ محض اس کے لیے اپنی خوشیوں سے بخوشی ہاتھ اٹھالیا تھا۔ وہ خود زخمی ہونے کے باوجود بھی، صرف اسے دنیا کے سرد و گرم سے بچانے کے لیے ڈٹ کر کھڑی رہی تھی۔ وہ اسکے لیے تھک جانے کے بعد بھی نہیں تھکتی تھی۔
ہاں۔۔ وہ ایک ایسی ہی جراؑت مند اور بہادر لڑکی تھی۔ اسکی پھپھو۔۔ اسکی نازنین۔۔
جس کے بھائ نے اسے بہت سے درندوں کے درمیان زندہ رہنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ جسے اسکے اپنے خاندان والوں نے گھر سے نکال باہر کیا تھا۔ جو اپنی ہی چار دیواری کے درمیان نقب زنی کا شکار ہوئ تھی۔
اسکی سیاہ آنکھوں میں گلابی سی نمی اترنے لگی تھی۔
کیا وہ اسے ایک بار پھر سے تنہا کرنے جارہا تھا؟ کیا وہ ایسا کرسکتا تھا؟ کیا اسکے پاس یہ کرنے کا جواز باقی رہ گیا تھا؟ کیا اس نے خود سے عہد نہیں باندھا تھا۔۔ سب سے الگ اور مضبوط ساتھی کا عہد۔۔ وہ اسے کبھی تنہا نہیں کرے گا۔۔ کسی محاذ، کسی میدان اور کسی جنگ میں بھی نہیں۔۔
پھر وہ یہ عہد کیسے بھول گیا تھا۔۔؟ کیا وہ بھی اپنے باپ کا عکس بنتا جارہا تھا۔۔؟ کیا واقعی وہ طلحہ کا بیٹا ثابت ہونے والا تھا۔۔؟ تو پھر اس ریاضت کا کیا جو پھپھو نے اسکے ساتھ روا رکھی تھی؟ اس تربیت کا کیا جو اسکی تاریکیوں کو عنقا کرنے کے لیے اس پر نچھاور کی گئ تھی۔۔؟

اس نے اپنے چہرے کے ایک حصے پر ہاتھ رکھا تھا۔ یوں کہ اسکا دائیاں حصہ واضح ہوجاتا اور بائیاں چھپ جاتا۔۔
اس نظر آتے حصے میں، تاریکیاں عیاں ہونے لگی تھیں۔ غصہ، نفرت، کفر۔۔ انکار۔۔ بغاوت۔۔
پھر اس نے وہی ہاتھ اپنے چہرے کے دوسرے حصے پر رکھا۔ یہ حصہ۔۔ زخمی تھا۔۔ کمزور، اذیت ناک اور تکلیف کے زیرِ اثر۔۔
وہ انہی دو حصوں کا مجموعہ تھا۔ وہ اچھائ اور برائ کا عکس تھا۔ اسکے اندر کی سیاہیاں، روشنیوں سے مطابقت رکھتی تھیں۔
اس نے قدم پیچھے کی جانب پھیرے۔ وہ طلحہ نہیں بن سکتا تھا۔ وہ رمیز نہیں بن سکتا تھا۔ اسے آدم رہنا تھا۔ اسے مبین رہنا تھا۔۔ اسے جاوید رہنا تھا۔۔ اسے ابلیس نہیں بننا تھا۔۔ اسے عزازیل رہنا تھا۔۔
وہ تیزی کے ساتھ گھر سے باہر نکل آیا تھا۔ پھر دروازہ درستگی سے بند کر کے آگے بڑھ آیا۔ اب کہ اس نے چہرے پر سیاہ ہُڈ گرا رکھا تھا۔ جیبوں میں ہاتھ ڈالے، گردن جھکاۓ وہ اسی جانی پہچانی سی سمت کی جانب قدم بڑھا رہا تھا۔ اسی سمت، جس سمت ہر راستہ جایا کرتا تھا۔
پھر کچھ گلیوں کا سفر طے کر کے وہ ایک سفید ستونوں سے آراستہ، گنبد والی عمارت کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔ چہرہ اٹھا کر دیکھا۔ آسمان سے ترچھی ہو کر گرتی ٹھنڈی سے دھوپ اسکے چہرے پر نرمی سے آلگی تھی۔ اسکی سیاہ آنکھیں روشن نظر آنے لگیں۔ ہر جانب ننھے ذرّوں کی سنہری سی زردی تحلیل ہونے لگی تھی۔
اس نے قدم آگے بڑھاۓ۔ اسکے قدم ہلکی سی لرزش کا شکار تھے۔ وہ مسجد میں داخل ہونے کے بعد سر نہیں اٹھا سکا۔ اس میں سر اٹھانے کی ہمت نہیں تھی۔
ٹھنڈے ٹائلز والی پرسکون سی مسجد اس پہر خالی پڑی تھی۔ ظہر کی نماز میں وقت تھا اور محض مؤذن ہی مسجد کی خاطر کرتے ہوۓ نظر آرہا تھا۔ اس نے تھوک نگلا اور پھر چند قدم چل کر آگے بڑھ آیا۔ شیشے کے بہت سے دروازے ایک ساتھ لگے ہوۓ تھے۔ اندر نماز پڑھنے کی ایک وسیع سی جگہ بھی مختص تھی۔ اس نے ایک دروازہ دھکیلا اور پھر اندر چلا آیا۔ چہرہ گھما کر سب سے سنسان حصے کی جانب دیکھا اور پھر چند لمحات بعد۔۔ وہ دوزانو ہو کر بیٹھا دکھائ دے رہا تھا۔
اس کے چہرے پر ہُڈ آگے تک گرا تھا اور چہرہ جھکا ہوا تھا۔
پھر اس نے سر اٹھایا۔۔
گیلی آنکھوں سے سامنے نظر آتی دیوار کو دیکھتا رہا۔ اس نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم پھنسا کر، ہاتھ بلند کیے تھے۔

عزازیل Where stories live. Discover now