قسط 15

68 8 1
                                    

"کون ہو تم۔۔؟"

اسکی پُراسرار مسکراہٹ اگلے ہی پل سمٹ گئ تھی۔ حرم کی آنکھوں میں ابھری بے یقینی ایسے لمحے میں اس پر وارد ہوئ تھی کہ وہ کوئ بھی تاثر دینے سے قاصر تھا۔ اس کے ہاتھ طالوت کے گریبان پر اب تک سختی سے جمے ہوۓ تھے۔ طالوت نے دانت پیس کر اسے دونوں ہاتھوں سے دُور دھکا دیا تو وہ توازن قائم نہ رکھنے پر الٹے قدموں زمین پر گر پڑا۔ طالوت بالکل سپاٹ چہرہ لیے آگے بڑھ کر اسے جونہی لات مارنے لگا تو وہ بجلی کی تیزی سے کروٹ لے کر پلٹ گیا۔ پھر اگلے ہی پل اٹھ کر اس نے طالوت کو پچھلے گریبان سے دبوچ کر دیوار کے ساتھ سختی سے لگایا۔

"مجھے بتاؤ کس نے حکم دیا تھا تمہیں؟" اسکا سوال جوں کا توں تھا۔ طالوت ہنس پڑا۔۔ اسکے ہنسنے کا انداز اس قدر مانوس تھا کہ حرم کو لمحے بھر کے لیے گمان گزرا کہ شاید اسے سب یاد آگیا ہو۔ اس نے جلدی سے اسکا گریبان چھوڑ دیا تھا۔ پھر جیسے ہی آگے بڑھ کر اسکے مقابل آیا تو طالوت نے زور دار مکا اس کے جبڑے پر دے مارا۔ ایک بار پھر سے چُوکنے کی باعث وہ زمین پر گھسٹتا ہوا دیوار سے جا لگا تھا۔ اسکی پیٹھ پر خراش کے گہرے نشان پڑ گۓ تھے۔
طالوت نے تیزی سے آگے بڑھ کر ٹیبل پر دھری گن اٹھالی تھی۔ پھر اسکے عین سامنے آکھڑا ہوا۔ گن اسکی پیشانی پر تانی۔۔ حرم نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا اور پھر اسکی آنکھیں طالوت کے ہاتھ میں پکڑی گن کی جانب پھسلیں۔۔ اگلے ہی لمحے وہ ہنس پڑا تھا۔۔ جس نے اسے بندوق پکڑ کر اپنا دفاع کرنا سکھایا تھا آج وہ ہی اس پر اپنی بندوق تانے ہوۓ تھا۔ تو یہ طے تھا کہ وہ آخر کار سب کو ہی کھودے گا۔۔

"کس نے بھیجا ہے تمہیں۔۔؟ میرے ہیڈ آؤٹ کا پتہ کہاں سے ملا تمہیں ؟"

اسکی مشینی سے آواز پر اس نے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر ہاتھ آگے بڑھا کر اسکی گن کو اپنے ماتھے پر ٹکایا۔۔

"شُوٹ۔۔!"

"پہلے جواب دو۔۔"

وہ اس پر دھاڑا تو حرم نے سکون سے گردن ایک جانب ڈھلکائ۔

"سوری طالوت۔۔!" اگلے ہی پل وہ اسکا گن والا ہاتھ پوری طرح موڑتا ہوا اٹھ چکا تھا۔ طالوت نے مزاحمت کی کوشش کی تو اسکے ہاتھ سے بندوق دور جاگری۔ حرم نے اسکے جبڑے پر اتنی ہی قوت سے مکا مارا تھا۔ وہ لڑکھڑایا۔۔ اسے سنبھلنے کا موقع دیۓ بغیر اس نے اسے گردن سے دبوچا اور پھر آگے بڑھ کر گھٹنا موڑتے ہوۓ اسکے پیٹ پر مارا۔ وہ بلبلا کر نیچے جھکا تھا۔
حرم نے ہاتھ روک لیا۔۔ دو قدم پیچھے ہٹا۔۔ ہونٹ پر لگا خون آستین سے رگڑ کر صاف کیا۔۔ لیکن طالوت اب کہ مکمل طور پر چوکنا ہو کر اس پر جھپٹا تھا۔ وہ دونوں ہی لڑنا جانتے تھے۔ ان سے ایک دوسرے کا کوئ بھی وار نہیں چُوک رہا تھا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے ہر وار کو وقت سے پہلے ہی روک رہے تھے۔ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے وہ دونوں ہی ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے بے تاب لگتے تھے۔

عزازیل Where stories live. Discover now