قسط 28

39 7 2
                                    

وہ تینوں اوپر تلے، ایجنسی کے زینوں پر براجمان تھے۔ کسی غیر مرّئ نقطے کو تکتے۔۔ ایک دوسرے سے بے نیاز۔۔ اپنی اپنی سوچوں میں گُم۔۔
ان تینوں کو ہی پچھلے دنوں سے بات کرنے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ طالوت کی آخری رسومات اور پھر اس کے وہ طلباء جو دور دور سے اسکی تازیت کرنے آرہے تھے۔۔ وہ ان تینوں کو حیران کرنے کے لیے کافی تھے۔ انہیں کبھی اندازہ نہیں تھا کہ طالوت ان کے علاوہ اور بھی کتنے لوگوں کو سہارہ دیے ہوۓ تھا۔ کتنے زخمی بچوں کو مٹی سے اٹھا کر وہ بلندیوں کے کئ زینوں پر بٹھا چکا تھا۔ وہ اس کے جنازے کے قریب، سوٹڈ بوٹڈ لڑکوں کو روتے ہوۓ دیکھ کر گنگ رہ گۓ تھے۔۔ انہیں لگتا تھا کہ وہ صرف ان کا استاد تھا۔۔ لیکن وہ غلط تھے۔۔ وہ بہت سے اور لوگوں کا استاد ٹھہرا تھا۔ لیکن ان تینوں کو اس نے اپنا گھرانہ مانا تھا۔ وہ اسکی فیملی تھے۔۔ لوگ تازیت کے لیے انہی تینوں کے پاس آتے رہے۔۔ ایجنسی میں خاص پریڈ کے ذریعے اسے خراجِ تحسین بھی پیش کیا گیا تھا۔۔ اور اب وہ تمام کاموں سے فارغ ہوۓ۔۔ خالی وجود لیے زینوں پر براجمان تھے۔ دور دور تک ایجنسی کا تاریک میدان دکھائ دیتا تھا۔ مغرب خاصی گہری ہوچکی تھی اور ایجنسی میں شب کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔۔
حرم دو دن سے ایجنسی میں ہی تھا۔ سہیل کو اس نے طالوت کی اطلاع دی تو وہ خاموش سے ہوگۓ۔۔ پھر انہوں نے اسی کے لیے مہندی کا فنکشن ایک دن آگے کردیا تھا۔۔ اس نے انہیں منع بھی کیا لیکن عدیل نہیں مان رہا تھا۔ بلکہ گھر میں کوئ بھی فرد اسکی موجودگی کے بغیر کسی تقریب کو لے کر راضی نہیں تھا۔ اسکا کسی تقریب میں شرکت کا دل نہیں تھا۔۔ فی الحال وہ روشنیوں کا سامنہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ چند دن تو بالکل بھی نہیں۔۔
"تمہارے گھر والے فکر کرنے لگے ہیں تمہاری۔۔ دیکھو۔۔ ایک تقریب تک نہیں کرنا چاہتے تمہارے بغیر۔۔" سارنگ نے یونہی کہا تو اس نے گہرا سانس لیا۔ زاویار نے اسے چہرہ موڑ کر دیکھا تھا۔ وہ اس سے ایک زینہ نیچے بیٹھا تھا۔
"تم نے کیوں منع کیا۔۔؟ چلے جاتے۔ یہاں پر ہم ہیں۔۔" اس نے بھی کہا تو حرم نے سر نفی میں ہلایا۔ اسکا دل ہر شے سے بیزار اور اچاٹ ہورہا تھا۔ خاص کر چمکتی دمکتی تقریبات سے۔
"موڈ نہیں تھا۔۔"
"ٹھیک چل رہے ہیں ناں تمہارے گھر والے۔۔ تمہارے ساتھ۔۔؟" کان کی لو کھجا کر بالکل سرسری سا پوچھا۔ حرم نے گردن ذرا ڈھلکا کر زاویار کی جانب دیکھا تھا۔۔
"وہ مجھے اپنے گھر کا فرد نہیں مانتے۔۔ بہت ظلم کرتے ہیں مجھ پر۔۔" اس نے آہستہ سے کہا تو جہاں سارنگ چونکا وہیں زاویار نے گردن پوری گھما کر اسکی جانب دیکھا۔ اسکی پیشانی پر بل ابھر آۓ تھے اور آنکھوں میں یکلخت ہی سختی اتری تھی۔۔
"کیا کرتے ہیں وہ۔۔؟ اور تم وہاں رہ کیوں رہے ہو جب ان کا رویہ ایسا ہے تمہارے ساتھ؟"
وہ اکھڑ ہی گیا تھا۔۔
"میں اس بھری دنیا میں کہاں جاسکتا ہوں۔۔؟" حرم نے اپنا لہجہ کچھ اور خود ترس بنا لیا تھا۔ زاویار اب کہ پورا اسکی جانب گھوم گیا تھا۔ وہ بہت سنجیدہ تھا اور حرم کو اسکی سنجیدگی دیکھ کر کمینی سے خوشی ہورہی تھی۔
"بکواس مت کرو۔۔ تم چھوٹے بچے نہیں ہو۔۔ میرے پاس آ کر رہ سکتے ہو تم۔" سارنگ نے پہلے ان دونوں کی جانب دیکھا اور پھر اسکی نگاہ حرم پر پھسلی۔ اگلے ہی پل وہ گہرا سانس لیتا سیدھا ہو بیٹھا تھا۔

عزازیل Where stories live. Discover now