قسط 6 بقیہ حصہ

67 8 1
                                    

وہ گاڑی میں آ کر بیٹھی اور پھر گلابی سی زخمی آنکھوں سے اسٹیرنگ وہیل کو تھامے رہی۔ اسکی رگوں میں گردش کرتا خون تیزی کے ساتھ اسکے دل کے آس پاس اکھٹا ہورہا تھا۔ رخسار طیش سے دہک کر گلابی ہورہے تھے اور لب سفید پڑ رہے تھے۔ اس نے اپنے کمزور لمحات میں خود کو سنبھالنا سیکھا تھا۔۔ لیکن اپنے طاقتور لمحات میں بھی خود کو کمزور محسوس کرنا محض اسکا ہی خاصہ تھا۔
وہ جانے کتنی ہی دیر اس وہیل کو سختی سے تھامے بیٹھی رہی۔۔ اتنی سختی سے کہ اسکی ہتھیلیوں میں پسینہ آنے لگا۔۔ لمحات کی گنتی اسے بھولتی جارہی تھی۔۔ آنکھوں کی پتلیاں ساکت تھیں اور لمحہ بہ لمحہ وہ اس سرمئ سے اندھیرے میں سیاہ پڑتی جارہی تھی۔ اسکے ارد گرد کچھ تحلیل ہورہا تھا۔ کچھ بہت کڑوا اور چبھتا ہوا۔۔ اسے لگتا تھا کہ ہر دفعہ اس رات کو یاد کرنے پر وہ بکھر جاۓ گی۔۔ ٹوٹ جاۓ گی۔۔ مسمار ہوجاۓ گی۔۔ مسل دی جاۓ گی۔۔
لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا۔ انسان ایک وقت تک روتا ہے۔۔ ایک وقت بعد آنسو خشک ہوجاتے ہیں اور روح کو جھلساتی آگ انسان کا احاطہ کرلیتی ہے۔ ہمیشہ اس رات کو ۔۔ اور اس جیسی ہر رات کو یاد کرنے پر اب اسے رونا نہیں آتا تھا۔۔ بلکہ اب اسکا وجود ایک تباہ کن آگ میں جھلستا رہتا تھا۔ وہ اندر ہی اندر بھسم ہوتی جارہی تھی۔۔ جلتی جارہی تھی۔ اسے آگ نے جلا کر جاکستر کردیا تھا۔۔
اس نے میکانکی انداز میں سامنے لگے شیشے سے آنکھیں ہٹاۓ بغیر اگنیشین میں چابی گھمائ اور پھر زن سے گاڑی آگے بڑھالے گئ۔۔ راستے پر گاڑی ڈالتے ہوۓ اس نے ہمیشہ کی طرح اپنے ساتھ ہوۓ ظلم کو نہ معاف کرنے کی قسم کھائ تھی۔

وہ اس ایک انسان کو کبھی معاف نہیں کرسکتی تھی۔۔ کبھی بھی۔۔ اگر زندگی نے کبھی بھی اس ایک انسان کو اسکے عین سامنے لا کر کھڑا کیا تو وہ ضرور اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کرے گی۔۔ وہ ضرور اسے تباہ کردے گی۔۔ جیسے اس نے اسکی زندگی تباہ کردی تھی۔۔

سفید پڑتے چہرے اور زہر خندہ سی سانسوں کے درمیان اک عہد تھا جو ایک بار پھر سے اپنی منازل طے کرنے لگا تھا۔

************
اٹھارہ سال قبل۔۔

رمیز اور جاوید میں محض ایک سال کا فرق تھا۔ انکی شادیاں بہت چھوٹی عمروں میں کی گئ تھیں۔کاروباری اور کسی بھی مالی تفریق کو مبین انصاری نے کبھی اپنی اولادوں کے درمیان نہیں آنے دیا تھا۔ وہ ٹیکسٹائیل انڈسٹری کے اونر تھے اور انکے دونوں بیٹوں کے حصوں میں برابر کاروبار اور مال تقسیم کیا گیا تھا۔ لیکن کہیں اندر مبین اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ رمیز لالچی طبیعت رکھنے والا شاطر انسان واقع ہوا ہے۔ وہ اگرچہ انکا اپنا بیٹا تھا لیکن وہ اسکی خصلت سے آگاہ تھے۔ اور وہ اس بات کو بھی جاننے والے تھے کہ جاوید۔۔ اپنے بڑے بھائ کے بالکل برعکس طبیعت رکھنے والا بے حد نرم اور خاصہ قناعت پسند واقع ہوا تھا۔ وہ جتنا ہے جو ہے پر راضی رہنے والا انسان تھا۔۔ لیکن رمیز ایسی کسی بھی بکواس کو ماننے پر تیار نہیں تھا۔۔ اسکے کاروبار کی ترقی اور مادیت پسندی کے جانب بڑھتے رجحان نے مبین کو جانے کیوں بے حد محتاط کردیا تھا۔۔

عزازیل Where stories live. Discover now