قسط 36

43 9 2
                                    

اگلے دنوں تک کسی نے رشتے سے متعلق کوئ بات نہیں کی۔ گھر والے ثانیہ کی خاموشی کو سمجھتے تھے اسی لیے، اس پر ہامی بھرنے کے لیے زور نہیں دے رہے تھے۔ کچھ دنوں بعد اس نے خود جا کر سہیل سے اس رشتے کی بابت ہامی بھرلی تھی۔ روحیلہ کی آنکھیں اسکے اقرار پر نم سی ہوگئ تھیں۔ حرم کے بعد یہ اس گھر میں پہلی خوشی تھی۔۔ سہیل اٹھ کر اسکے قریب چلے آۓ تھے۔۔ پھر بھیگی آنکھوں سے مسکراتے ہوۓ اسے خود سے لگا گۓ۔۔ ان کے درمیان جو تناؤ کی سی کیفیت تھی وہ اب بالکل تھم چکی تھی۔۔ اگلے دنوں میں سادگی کے ساتھ اسکے اور سارنگ کے نکاح کی تقریب طے کردی گئ تھی۔ اسکی پڑھائ کی وجہ سے شادی کچھ عرصے تک ملتوی کردی گئ تھی۔۔ اور سہیل کا ارادہ تو منگنی کرنے کا تھا لیکن زاویار نے انہیں نکاح کرنے کی تجویز پر راضی کرلیا تھا۔ وہ ان رشتوں کو جوڑے رکھنا چاہتا تھا۔۔
اگلے ہفتے گھر گلابوں اور چنبیلی سے مہک رہا تھا۔ زینوں کی ریلنگ سے لے کر، دیواروں کے اوپر سے  برقی قمقمے گراۓ گۓ تھے۔ نازنین آفس سے تھکی ہاری واپس آئ تو داخلی دروازے کے پاس ٹھہر سی گئ۔ سجے گھر کو دیکھ کر لمحے بھر کے لیے اسکی آنکھیں جِھلملائ تھیں۔ ہاتھ پر پرس ٹنگا تھا، دوپٹہ کندھے پر ڈلا تھا، بال ہمیشہ کی طرح کھلے ہو کر کمر پر گِر رہے تھے اور ایک بے نیاز لٹ۔۔ رُخسار پر جُھول رہی تھی۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا تھا۔۔ لیکن واقعتاً کتنا کچھ بدل گیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ابھی سامنے زینوں سے مسکراتا ہوا اُترے گا۔۔ اسے دیکھ کر دونوں ابر اُچکاۓ گا۔۔ پھر لبوں پر شوخ مسکراہٹ لیے اسکے ساتھ سے گزر جاۓ گا۔۔ ذرا آگے چل کر ٹھہرے گا۔۔ لب دانتوں تلے دباۓ کچھ سوچے گا اور پھر اسکی جانب پلٹے گا۔۔ سنہری تتلیاں اسکے آس پاس اُترنے لگی تھیں۔ سارے ماحول میں جیسے سنہری افشاں سی بکھر گئ تھی۔ افشاں کے ننھے چمکتے ذرّے اسکی سیاہ مانگ میں آگرے تھے۔ وہ اس افشاں تلے سنہری ہوتی جارہی تھی۔
وہ اسی پل پلٹی اور داخلی روش پر جیسے اسے تلاش کرنا چاہا۔ راستہ سنسان تھا اور افشاں فضا سے عنقا ہو کر تحلیل ہوگئ تھی۔ بالکل کسی گمان کی مانند۔ اس نے گہرا سانس لیا اور آگے بڑھ آئ۔
چند گھنٹوں بعد سارنگ آئینے کے سامنے سفید کُرتا زیب تن کیے ایستادہ تھا۔ اسی پہر زاویار کمرے میں داخل ہوا تو اسے دیکھ کر لمحے بھر کو دروازے میں ہی ٹھہر گیا۔ ہلکی سی مسکراہٹ اسکے لبوں پر اُبھری تھی۔ سارنگ نروس ہورہا تھا۔۔ سبز آنکھیں ذرا بوکھلائ ہوئ لگتی تھیں۔
"میں ٹھیک لگ رہا ہوں نا۔۔؟" اس نے پلٹ کر پریشان چہرے کے ساتھ پوچھا تو زاویار نے سر اثبات میں ہلایا۔ اسکی شکل دیکھ کر اسے تنگ کرنے کا ارادہ فی الحال ملتوی کردیا تھا اس نے۔
"تم ویسے ہی لگ رہے ہو جیسے لگتے ہو۔۔" ایک ساتھ باہر نکلتے ہوۓ اس نے کہا تو سارنگ نے ٹھہر کر اسے دیکھا۔
"مجھے آج اسپیشل لگنا چاہیۓ۔۔"
"میں چھوڑ کر چلا جاؤنگا اگر ایک منٹ بھی تم مزید یہاں رُکے تو۔۔" وہ جو کلینک میں لگے آئینے کے سامنے پھر سے ٹھہر کر بالوں کو سنوار رہا تھا، زاویار کی دھمکی پر عجلت سے باہر نکلا۔ وہ کار میں اسکا انتظار کررہا تھا۔ کار کا دروازہ بند کرتے ہی اس نے زاویار کو بگڑے چہرے کے ساتھ دیکھا تھا۔
"آج کے دن تو باز آجاؤ کم از کم۔۔ میرا نکاح ہے۔۔ او گاڈ میرا نکاح ہے۔۔" کہہ کر وہ ایک بار پھر سے لب کاٹنے لگا تھا۔ زاویار نے گہرا سانس لے کر سر ہلایا تھا۔
"تمہارا نکاح ہے ناں۔۔ میرا تو نہیں۔۔ پھر میرے پاس باز آنے کا کیا جواز ہوگا بھلا۔۔؟"
"بھاڑ میں جاؤ۔۔" سارنگ کے پاس اس سے بحث کرنے کی توانائ نہیں تھی۔ وہ اُریبی ہاؤس پہنچے اور پھر اندر کی جانب بڑھ آۓ۔ ان دونوں کا نکاح اگلے پہروں میں کردیا گیا تھا۔ مسکراہٹیں ہر جانب سے پھوٹی پڑ رہی تھیں۔ نازنین مہمانوں سے مل رہی تھی۔ وہ وجدان کی کسی بات پر ہنس بھی رہی تھی۔ وجی، ثانیہ کو چھیڑ رہا تھا۔ ثانیہ کو پہلے کی طرح چِڑتا دیکھ کر وہ آج بہت خوش تھی۔ اس نے ان دنوں کے لیے بہت محنت کی تھی۔ اسے اسکا ثمر دیا جاچکا تھا۔۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے وہ باہر نکلنے لگی تو اسکے دوپٹے کا پلّو دروازے میں اٹک گیا۔۔ وہ پلٹی اور اس سے پہلے کہ وہ اس پلّو کو دروازے سے آزاد کرتی۔۔ کسی نے جھک کر ہاتھ بڑھایا اور اسکا دوپٹہ دروازے کی گرفت سے آزاد کردیا۔۔ اس نے چونک کر اس جانب دیکھا تھا۔۔ سفید کُرتا شلوار میں وہاں زاویار کھڑا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرائ تھی۔۔ وہ بھی مسکرایا تھا۔۔
وہ اب اسے انگلی اٹھا کر اپنے نکاح کی تیاری کرنے کی تنبیہہ کررہی تھی اور وہ جواب میں کوئ تیکھا سا جملہ بول کر اسے تنگ کررہا تھا۔ روحیلہ کے آواز دینے پر وہ پلٹی اور پھر اسے انگشتِ شہادت سے آخری دفعہ تنبیہہ کرتی آگے بڑھ آئ۔۔ وہ اسے مسکراتی نگاہوں سے دیکھتا، گہرا سانس بھر کر رہ گیا تھا۔ نکاح ہوچکا تھا اور لوگ اپنے گھروں کی جانب پلٹ گۓ تھے۔ سارنگ اور زاویار بھی اب گھر والوں سے اجازت طلب کررہے تھے۔ پھر وہ دونوں آگے پیچھے گھر سے باہر چلے آۓ۔۔ گاڑی میں بیٹھے ہوۓ سارنگ اسے پہلے سے خاموش محسوس ہوا تھا۔۔ اس نے ڈرائیو کرتے ہوۓ ایک نگاہ اس پر ڈالی تھی۔
"کیا ہوا۔۔؟ کوئ بات پریشان کررہی ہے کیا۔۔؟" اسکے پوچھنے پر وہ جیسے اپنے خیالات سے چونکا تھا۔ پھر اسے دیکھا۔۔
"کیا ثانیہ خوش ہے اس رشتے سے۔۔؟ وہ آج مجھے بے حد خاموش محسوس ہورہی تھی۔ ایک ہی جھلک نظر آئ تھی مجھے بس اسکی۔۔ کیا اسکے ساتھ زبردستی کی گئ ہے۔۔؟" اسکے چہرے پر پھیلی سنجیدگی پر زاویار نے گہرا سانس لیا تھا۔
"اس نے اپنا بھائ کھویا ہے، سارنگ۔ وہ اتنی جلدی نارمل نہیں ہوسکتی۔۔ وہ ایموشنلی ڈسٹرب ہوگئ ہے۔۔ کچھ وقت دو اسے۔۔" اسکے جواب پر وہ اداس آنکھوں سے سامنے دیکھنے لگا تھا۔ زاوی نے ایک نگای اس پر ڈالی تھی۔۔
"اداس مت ہو۔۔ نکاح کے وقت ایک جھلک دکھائ دے گئ ہے اسے ہی غنیمت جانو۔۔" اسکی چوٹ پر وہ جیسے ٹھٹکا تھا پھر اسکا مطلب سمجھ کر بے بسی سے ہنس دیا۔ یخ ہوا گاڑی کی کھلے شیشوں سے اندر کو گِر رہی تھی۔
"میں نے تو مزید جھلکیوں کی خواہش ہی نہیں کی۔۔"
"اور تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری اس بات پر یقین کرلوں۔۔؟ سارنگ بدر۔۔ میں رات میں ضرور پیدا ہوا ہوں لیکن میں کل رات پیدا نہیں ہوا ہوں۔۔" سارنگ اب گردن پیچھے پھینکے ہنستا جارہا تھا۔ پھر کار کو شناسا سے راستے کی جانب بڑھتا دیکھ کر وہ چونک سا گیا۔ زاویار اسی سکون کے ساتھ ڈرائیو کررہا تھا۔
"ہم کہاں جارہے ہیں۔۔؟"
"حرم سے ملنے۔۔ جھوٹ مت کہنا کہ تم اس سے یہاں ملنے نہیں آتے۔۔" اسکی بات پر وہ کھسیانا سا ہو کر چُپ سا ہوگیا تھا۔ سمندر پر وہ کئ دفعہ حرم سے ملنے آچکا تھا۔ وہ ان سے یہاں کھویا تھا۔۔ وہ اسکی تلاش میں بھلا کہیں اور کیسے جاسکتے تھے۔۔؟
کچھ پل بعد وہ دونوں گیلی ریت پر ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ سمندر کی لہروں کا شور رات کی سیاہی کے ساتھ گہرا ہوتا جارہا تھا۔ ان کے بال ہوا کے دوش پر اڑ رہے تھے۔ چاند کی ٹکیا آسمانِ دنیا پر آب و تاب سے جگمگا رہی تھی۔۔ اسکا عکس سمندر کو بوکھلاۓ دے رہا تھا۔۔
"اس نے سب کچھ اکیلے کیوں کیا۔۔؟ ہم تو ہمیشہ سے دوست تھے۔۔ کیا وہ ہمیں اپنے ساتھ اس لائحہ عمل میں شامل نہیں کرسکتا تھا۔۔؟" ہر رات سوچا گیا سوال سارنگ ساتھ بیٹھے زاویار سے پوچھ رہا تھا۔ چند پل وہ اسکے جواب میں کچھ نہ بولا۔۔
"اسے ہمیں اس لائحہ عمل میں شامل کرنے سے ایک شے نے روک رکھا تھا۔۔" اسکی بات پر سارنگ نے چہرہ گُھما کر سوالیہ نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا تھا۔۔
"موت۔۔۔" اسکے جواب پر اسکے حلق میں گلٹی سی ابھری تھی۔ زاویار خاموش آنکھیں لیے سمندر کی مست لہروں کو تک رہا تھا۔ اسکے ہاتھوں میں حرم کا وجود جیسے پھر سے آخری سانسیں لینے لگا تھا۔
"سالے نے سب کچھ اکیلے کیا اور ہمیں غیر کردیا۔ قیامت تک معاف نہیں کرونگا اسے میں۔۔" تلخی سے کہہ رہا تھا وہ۔ سارنگ نے کوئ جواب نہیں دیا اسے۔ کچھ لمحات بعد آہستہ سے بولا۔۔
"ہمیشہ سے ہی ایسا تھا وہ۔۔"
"جانتا ہوں۔۔"
"وہ اتنا مسکراتا تھا کہ مجھے بھول ہی گیا کہ اس کے اوپر بھی بوجھ ہوسکتا ہے۔ اس نے بوجھ کے ساتھ زندہ رہنا سیکھ لیا تھا۔۔ اس نے بوجھ بانٹنا نہیں سمیٹنا سیکھا تھا۔ طالوت ٹھیک ہی کہتا تھا۔۔ حرم کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔۔ کوئ ادراک نہیں کرسکتا۔"
سمندر کی لہریں ان سے خاصے فاصلے پر تھیں۔ وہ دونوں اب خاموشی کے ساتھ خنک سی ہوا میں، کُھلے آسمان تلے اپنے دوست سے ملاقات کے لیے آۓ بیٹھے تھے۔ دنیا کی سب سے زیادہ عجیب ملاقات تھی یہ۔۔
دیر رات تک بیٹھنے کے بعد وہ دونوں اسی خاموشی کے ساتھ اسے خدا حافظ کہتے پلٹ آۓ تھے۔ سارنگ کلینک کے اندر چلا آیا۔ کمرے کی جانب آتے آتے اس نے کچھ سوچ کر فون نکال کر نگاہوں کے سامنے کیا اور پھر اسے کان سے لگایا۔۔ اسے نازنین سے کچھ بات کرنی تھی۔۔
*******
اگلے ہفتے ثانیہ کے کالج کی چھٹی تھی اور آج وہ گھر پر ہی موجود تھی۔ دوپہر کا بہت سا حصہ گزر گیا تھا۔ اسی پہر نازنین نے اسکے کمرے کا دروازہ بجایا اور پھر ہلکا سا اندر جھانکی۔۔ وہ گنگھریالے بالوں کو ہاف باندھ رہی تھی۔۔ اسے دیکھ کر رک سی گئ۔۔
"ثانی، کوئ نیچے ملنے آیا ہے تم سے۔۔" اس سے پہلے کہ وہ اس سے پوچھتی کون آیا ہے وہ جھپاک سے دروازے کے پار غائب ہوگئ تھی۔ اس نے گہرا سانس لیا اور پھر دروازہ کھول کر آگے بڑھ آئ۔۔ زینے اتر کر گیسٹ روم تک آئ۔۔ لیکن پھر وہیں دروازے میں ٹھہر گئ۔۔ سارنگ اسے دیکھتے ہی اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔ سبز آنکھیں بہت دنوں بعد دیکھی تھیں ثانیہ نے۔۔
"میں مام کو۔۔"
اس نے کہنا چاہا لیکن وہ اسکی بات نرمی سے کاٹ گیا تھا۔
"کیا آپ مجھے حرم کا کمرہ۔۔ ایک بار دکھا سکتی ہیں۔۔؟" ثانیہ اسے چہرہ اٹھاۓ دیکھتی رہی اور پھر آس پاس گھر والوں کو ڈھونڈا لیکن وہاں کوئ موجود نہیں تھا۔۔ اس نے بھاری دل کے ساتھ سر ہلایا اور اسے باہر آنے کی دعوت دی۔ وہ اب اسے لیے زینوں کی جانب رواں تھی۔ سارنگ نے دوبارہ اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ اسے حرم کے کمرے تک لے آئ تھی۔۔ پھر دروازہ کھول کر جونہی اسکے ساتھ قدم اندر رکھا تو رک سی گئ۔۔ ہر جانب اسکی خوشبو بکھری تھی۔ وہ اس کمرے کا رُخ نہیں کیا کرتی تھی۔ اس کمرے کی ہر شے اسے حرم کی یاد دلاتی تھی۔۔
سارنگ اب آگے بڑھ کر اسکی ہر شے دیکھ رہا تھا۔ ثانیہ خالی نگاہوں سے سنگھار آئینے میں نظر آتے سارنگ کے اونچے سراپے کو تک رہی تھی۔
"کیوں دیکھنا چاہتے تھے آپ یہ کمرہ۔۔؟" اس نے خاموشی کو توڑنے کے لیے سوال کیا تھا۔ سارنگ نے لاعلمی سے کندھے اچکاۓ تو وہ حیران ہوئ۔۔
"شاید میں آپکو یہ کمرہ دکھانا چاہتا تھا۔۔" وہ اب بیڈ پر بیٹھ کر اسی کی جانب متوجہ تھا۔ ثانیہ کی کانچ سی بھوری آنکھوں میں نا سمجھی سی اُبھری تھی۔
"لیکن میں نے تو یہ کمرہ دیکھا ہوا ہے۔۔"
"یہی فرق ہے۔۔ آپ نے یہ کمرہ دیکھا ہوا ہے۔۔ لیکن اب آپ اس کمرے میں آنے سے کترانے لگی ہیں۔۔" 
وہ اسکے جواب پر ٹھہر کر اسے دیکھنے لگی تھی۔ پھر پاس چلی آئ۔ ناگواری سے ہاتھ سینے پر باندھے۔  سارنگ بے حد سکون سے اسے چہرہ اٹھاۓ تک رہا تھا۔
"میں کیوں کتراؤنگی یہاں آنے سے۔۔؟ یہ میرے بھائ کا کمرہ ہے۔۔"
"آپ کے یہاں نہ آنے کے لیے بس ایک وجہ ہی کافی ہے کہ اب آپکا بھائ اس کمرے میں نہیں رہتا۔۔" وہ اٹھ کر اسکے مقابل کھڑا ہوگیا تھا۔ بے بسی سے ثانیہ کی آنکھوں میں آنسو آگۓ تھے۔ سارنگ کی بات جیسے اسے کہیں اندر تک چُبھ سی گئ تھی۔
"میں نے آپکو ابھی تک اپنے معاملات میں بولنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ پلیز۔۔ بھائ اور میرے تعلق سے دور رہیں آپ۔۔"
سارنگ اسکی دہکتی رنگت کو چند پل خاموشی سے دیکھے گیا تھا۔ اسکی سبز آنکھیں بے حد نرم تھیں۔ ثانیہ ان آنکھوں کی نرمی کے سامنے بے بس ہونے لگی تھی۔
"آپکا بھائ۔۔ جانتا تھا کہ میں آپکو پسند کرتا ہوں۔" اسکی غیر متوقع بات پر وہ بھک سے اُڑی تھی۔
"ک۔۔ کیا مطلب۔۔؟"
"حرم کو معلوم تھا کہ آپ مجھے اچھی لگتی ہیں۔ اسے رشتے پر کوئ اعتراض نہیں تھا۔ وہ آپ سے بھی بات کرنے ہی والا تھا لیکن اسے موقع نہیں مل سکا۔۔ کیا آپ۔۔ اس رشتے سے ناخوش ہیں۔۔؟ کیا آپکے ساتھ کسی نے زبردستی کی ہے۔۔؟ مجھے بتائیں۔۔ میں آپکا مسئلہ حل کرسکتا ہوں۔" وہ منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔ سارنگ کو اس نے آج سے پہلے کبھی اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا تھا۔
"میں۔۔"
"سچ۔۔ مجھ سے صرف سچ بولیں۔۔ میں آپکو ابھی آزاد کردونگا اگر یہ رشتہ آپکی خوشی سے نہیں ہوا ہے تو۔۔" ثانیہ نے اسکی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت اور تلخی تلاش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پھر وہ ناکام ہی رہی۔ پھر اسکی آنکھوں سے۔۔ جانے کیوں بے موسم برسات سی برسنے لگی۔ وہ اسکے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔۔ اس نے اگلے ہی پل آنکھیں رگڑ کر صاف کی تھیں لیکن ہچکیاں اندر سے ابھرنے لگی تھیں۔
"آپ ایسے کیوں کہہ رہے ہیں۔۔؟"
"کیونکہ اگر میں نے اپنی دوست کی بہن کو ذرا سی بھی تکلیف دی تو وہ مجھے اگلے جہان میں کبھی معاف نہیں کرے گا۔۔ بہت پیار کرتا تھا وہ آپ سے۔۔" اور ثانیہ اس سے زیادہ نہیں سن سکتی تھی۔ وہ رو رہی تھی۔ سارنگ اسے اپنائیت سے تک رہا تھا۔
"بیٹھیں۔۔" وہ اب اسے کندھوں سے تھامے بیڈ پر بٹھا رہا تھا۔ وہ آنکھوں پر بچوں کی طرح دونوں ہاتھ رکھے رو رہی تھی۔ سارنگ اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ اس نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔ جب اس نے اپنا دل ہلکا کرلیا تو اس نے ہولے سے ہاتھ آگے بڑھا کر اسکے بال سہلاۓ تھے۔۔ اب وہ چہرے پر مسکراہٹ لیے اسے تک رہا تھا۔ ثانیہ اسے آنکھیں اٹھاۓ دیکھنے لگی تھی۔
"اس کمرے میں آتی رہا کریں۔۔ اور اتنا مت رویا کریں۔۔ تھینک یو اپنا وقت دینے کے لیے۔۔ جارہا ہوں۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ ثانیہ اسے چہرہ گھماۓ تک رہی تھی۔ وہ چوکھٹ تک جا کر ٹھہر گیا تھا۔۔ پھر پلٹ کر اسے دیکھا اور ہلکا سا مسکرایا۔ وہ اس سارے عرصے میں پہلی دفعہ مسکرائ تھی۔۔ حرم کا کمرہ آج بہت دنوں بعد زندہ محسوس ہورہا تھا۔ ہاں۔۔ بہت دنوں بعد۔۔ زینوں کے پار سے صوفیہ کے کمرے میں جاتی نازنین نے سارنگ کو دیکھا۔۔ اور پھر سر کے خم سے اسکا شکریہ ادا کر کے آگے بڑھ آئ۔۔
*******
اگلے دن لاؤنج میں خُوب رونق لگی ہوئ تھی۔ کوئ خاتون صبح ہی صبح آئ بیٹھی تھیں۔ وہ آفس کے لیے تیار ہوئ کمرے سے باہر نکلی تو ٹھٹک کر رُک سی گئ۔ روحیلہ اور صوفیہ اسے اپنے پاس آنے کا اشارہ کررہی تھیں۔ وہ نا سمجھی سے پاس چلی آئ۔۔ لیکن اگلے ہی پل اسے سمجھ آگیا تھا کہ وہ خاتون کیوں اتنی صبح صبح ان کے گھر چلی آئ تھیں۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے نازنین کا ہاتھ مانگنے آئ تھیں۔ پہلے بھی کئ مرتبہ وہ صوفیہ کو دبے الفاظ میں نازنین کے رشتے سے متعلق کہہ چکی تھیں۔ اس کے دلچسپی نہ لینے پر صوفیہ نے ہمیشہ کی طرح بات آگے بڑھانے سے پرہیز کیا تھا۔۔ لیکن اب وہ بھی انکار نہیں کرپا رہی تھیں۔ روحیلہ اور سہیل دل سے چاہتے تھے کہ اسکی شادی جلد از جلد ہوجاۓ۔ وہ اسکا بسا ہوا گھر دیکھنا چاہتے تھے۔ 
اس نے سرسری سا جواب دیا اور پھر بوجھل دل لیے باہر چلی آئ۔ صبح ہی صبح اسے اپنے آس پاس بہت سی اداسی محسوس ہونے لگی تھی۔ آفس میں بھی وہ خاموش ہی رہی۔۔ یہ سچ تھا کہ وہ صوفیہ کو کب تک اور کیا کہہ کر ٹال سکتی تھی۔۔؟ دُکھتے سر کو اس نے اپنی انگلیوں سے دبایا اور پھر دوپہر چڑھے ہی آفس سے اٹھ آئ۔ اسے کھلی فضا میں سانس لینے کی ضرورت تھی۔۔ کار سڑکوں پر بے مقصد دوڑاتے ہوۓ وہ جانے کیسے اپنی پرانی درسگاہ تک چلی آئ تھی۔ اگلے لمحات میں وہ اب داخلی دروازے سے اندر داخل ہوئ، سبزہ زار کی خوشبو اپنے پھیپھڑوں میں تیزی سے بھرتے ہوۓ خود کو پہلے سے کہیں زیادہ بہتر محسوس کرنے لگی تھی۔ درسگاہ ویسی ہی تھی۔۔ قدیم۔۔ مضبوط ستونوں پر کھڑی۔۔ اسکے سفید بُلند ستون سر اٹھا کر دیکھنے پڑتے تھے۔۔ اب وہ ہیل کی ٹک ٹک لیے لائبریری کو جاتے جانے پہچانے سے راستے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ دوپہر کے وقت طلباء کا رش معمول سے خاصہ کم تھا۔ وہ لائبریری کے دروازے میں ہی ٹھہر گئ تھی۔۔ سامنے ہی وہ بینچ لگی تھی جس پر کبھی وہ بیٹھا اسکا دیا گیا یونانی ڈرامہ پڑھ رہا تھا۔ اس نے تکلیف سے آنکھیں پھیرلی تھیں۔۔ الہام کی شادی ہوچکی تھی اور وہ یہ جاب چھوڑ چکی تھی۔ لائبریری الہام کے بغیر بالکل ہی خاموش تھی۔۔ وہ جگہیں جس پر کبھی وہ دونوں بیٹھا کرتی تھیں، آج نۓ لائبریرینز سے پُر تھیں۔ وقت بھی کتنی تیزی سے بدلا کرتا تھا۔۔ وہ شیلفز کی جانب چلی آئ۔۔ ہر شیلف کی ترتیب ویسی ہی تھی۔ شیلف میں رکھی کُتب کی ترتیب سالوں بعد تبدیل کی جاتی تھی۔۔ اسے پتہ تھا۔ اگلے ہی پل اس نے کندھے پر ٹنگا بیگ ایک ٹیبل پر رکھا اور پھر کتابوں تک چلی آئ۔۔ کتابوں کے احساس سے ہی اسکے تنے اعصاب ڈھیلے پڑنے لگے تھے۔ ہاتھ بڑھا کر یونہی ایک کتاب نکالی تو ایک چھوٹا سا ورق قدموں میں جاگرا۔۔ اس نے چہرہ جھکا کر اس پیپر کو دیکھا پھر جُھک کر اسے ہاتھ میں اٹھا لیا۔۔ کتاب ایک ہاتھ میں پکڑے وہ اب اس بوسیدہ سی پرچی کو کھول رہی تھی۔۔ لیکن اندر درج الفاظ دیکھ کر وہ سیدھی ہوگئ تھی۔ دوپہر اور آسمان سے برستی زرد روشنی جیسے ٹھہر سی گئ تھی۔ حرم یہاں بیٹھا۔۔ کبھی اسکا دیا گیا ڈرامہ پڑھ رہا تھا اور اسی پہر۔۔ اس نے ایک چھوٹی سی پرچی پر چند الفاظ گھسیٹ کر اسے کتابوں میں چھپا دیا تھا۔ وہ اسکے لکھے گۓ الفاظ کو ہاتھ میں لیے۔۔ لڑکھڑا سی گئ تھی۔۔
"F4.. 000"
ان ہندسوں کے ساتھ ہی چھوٹا سا "حرم" درج تھا۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے اپنے بیگ سے فون نکالا اور پھر وجدان کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔ اگلی ہی گھنٹی پر اسکا فون اٹھالیا گیا تھا۔ وہ چُھوٹتے ہی بولی تھی۔۔
"کیا تم (F4.. 000) کا مطلب جانتے ہو، وجدان۔۔؟" اسکے بے وقت کے سوال پر وہ چونکا ضرور تھا لیکن پھر سکون سے بتانے لگا۔۔
"جی۔۔ یہ ایجنسی میں ایک ڈیپارٹمنٹ کا کوڈ ہے جہاں صرف انڈر کور شوٹرز ہی کام کرتے ہیں۔۔ کیوں۔۔ آپ کیوں پوچھ رہی ہیں۔۔؟" اس نے اسکی بات کا کوئ جواب نہیں دیا تھا۔ پیپر اپنے ہاتھ میں مروڑے وہ دروازے دھکیل کر باہر کی جانب بھاگی تھی۔ دل بُری طرح دھڑک رہا تھا اور وہ ہیلز کی پرواہ کیۓ بغیر تیزی سے راہداری عبور کرتی جارہی تھی۔ کہیں وہ پیچھے اب تک بول رہا تھا۔۔
"کیا آپ کی کہانیوں میں کسی نے میرے جیسا کردار اب تک نہیں لکھا ہے۔۔؟" وہ کار کی جانب تیزی سے چلی آئ تھی۔ اسکا چہرہ سفید پڑ رہا تھا اور ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ حرم کی لاش کبھی نہیں ملی تھی۔ اسے اسکی موت پر نہ یقین آتا تھا اور نہ ہی صبر۔۔ وہ اب گاڑیوں کی قطار سے اپنی کار تیزی کے ساتھ نکال رہی تھی۔
"کچھ مسیحا خوفزدہ کردینے کی حد تک مسیحا ثابت ہوتے ہیں۔۔" اسکی ہر بات ذو معنی تھی۔ اسکی ہر بات کے کئ مفاہیم تھے۔ اس پرچی کے پیچھے بھی شاید وہ اسے خود تک پہنچنے کا ایک اشارہ دے گیا تھا۔ یہ بات بالکل بکواس تھی لیکن وہ اس پر فی الحال یقین کرنا چاہتی تھی۔۔
"ہوسکتا ہے کہ میں پھر آپ کے ساتھ نہ کھڑا ہوں۔۔" اسکی گاڑی ایجنسی تک جاتے کچے راستوں پر دوڑ رہی تھی۔ دُھول اُڑاتے راستوں پر اسکی کہی گئ ہر بات نازنین کے وجدان میں گونجنے لگی تھی۔
"یہ دنیا کاز اور ایفیکٹ کے اصول پر کام کرتی ہے۔۔" وہ وجدان کے ساتھ بہت دفعہ ایجنسی آچکی تھی۔ اسی لیے اسکا راستہ آسان تھا۔ وہ اب ایجنسی کے داخلی دروازے سے اندر کی جانب بھاگی تھی۔ سیاہ کھلے بال پیچھے کی جانب اُڑ رہے تھے اور وہ پرواہ کیے بغیر ہر راستہ عبور کرتی جارہی تھی۔۔
"کیا آپ مجھ پر بھروسہ کرتی ہیں۔۔؟"
وہ آگے بھاگ رہی تھی۔ ایجنسی میں موجود طلباء اسے مڑ مڑ کر دیکھنے لگے تھے۔۔ وہ اب راہداریوں میں زاویار کو تلاش کرنے لگی تھی۔ وہ ہر ایک سے اسکا پتہ پوچھ رہی تھی۔
"میں آپکو بچا رہا ہوں۔۔" اسکی باتیں ذہن کے پچھلے حصے میں اب تک کہیں گُونج رہی تھیں۔ دوپہر کا بہت سا حصہ ڈھل چکا تھا۔ وہ اب زاویار کے ساتھ اس مخصوص ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھ رہی تھی۔ وہ اسے سمجھا رہا تھا لیکن وہ ابھی کچھ بھی سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اس آخری امید کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔
"یہ حقیقت نہیں فریب ہے۔۔ غور کریں۔۔" وہ اس ڈیپارٹمنٹ میں موجود ہر شوٹر کو سر تاپا دیکھ رہی تھی۔ وہ نہیں تھا۔۔ وہ کہیں نہیں تھا۔۔
"بوجھ تو بوجھ ہوتا ہے۔۔ وہ مزید بھاری کیسے ہوسکتا ہے۔۔؟" اسکا دل بیٹھا جارہا تھا۔ یوں گویا کوئ اسے مٹھی میں جکڑ رہا ہو۔ وہ اب آؤٹ ڈور شوٹنگ سینٹر میں کھڑی گردن گھما کر اسے ہر جانب تلاش کررہی تھی۔ اسے اپنی ذہنی حالت پر شک سا ہونے لگا تھا۔
"کیا جو مرجائیں وہ زندہ ہو کر واپس آسکتے ہیں۔۔؟" اس نے سینٹر سے باہر کی جانب بڑھتے، ایک اونچے سے ہیولے کو دیکھا تو سُن ہوگئ۔ وہ اس ہیولے کے پیچھے تیزی سے بڑھی تھی۔ زاویار جو دور کھڑے شوٹرز سے بات کررہا تھا۔۔ اسے آگے بڑھتا دیکھ کر اسکے پیچھے بھاگا۔۔
"قاتل سے محبت نہیں کیا کرتے۔۔" اس نے اگلے ہی پل آگے بڑھ کر اس اونچے سے شوٹر کا کندھا چُھوا اور پھر وہ سانس روکے پیچھے ہوگئ۔ زاویار اسکے عقب میں ہی تھا۔ اسے لگا وہ اگلا سانس نہیں لے سکے گی۔۔ سامنے موجود وہ آخری شوٹر بھی حرم نہیں تھا۔ اسکی امید ٹوٹ گئ۔۔ دل ٹوٹ گیا۔۔ خوب ٹوٹ گیا۔۔ وہ جیسے اندر تک کہیں ٹوٹ گئ تھی۔۔ شوٹر نے اسے ناسمجھی سے دیکھا اور پھر آگے بڑھ گیا۔ اسے تلاش کرتے کرتے شام سر پر آن کھڑی ہوئ تھی۔ زاویار نے اسے اگلے ہی پل اپنی جانب گھمایا تھا۔۔ پھر اسے کندھوں سے تھام کر خود کی جانب دیکھنے کے لیے کہا۔۔ وہ کھوکھلی آنکھوں سے اسے دیکھتی جارہی تھی۔۔ اسکے ہاتھ میں وہ مڑا تڑا سا کاغذ اب تک کسی متاعِ کُل کی مانند قید تھا۔
"کیا کررہی ہیں یہ آپ۔۔؟"
"میں اسے ڈھونڈ رہی ہوں۔۔ وہ زندہ ہے، زاویار۔ میں نے اسکا مردہ وجود نہیں دیکھا ہے۔۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ وہ مرا ہے۔۔ وہ زندہ ہے۔۔ یہ دیکھو۔۔ یہ کاغذ ثبوت ہے کہ وہ مجھے اپنی آخری پناہ گاہ کے بارے میں بتانا چاہتا تھا۔۔" وہ لرزتے ہاتھوں سے اسکے سامنے پرچی کھولنے لگی تھی۔ زاویار نے ترحم سے اسکی حالتِ زار کو دیکھا تھا۔
"ادھر دیکھیں میری طرف۔۔ مرگیا ہے وہ۔۔ حرم۔۔ مرگیا ہے۔۔ کبھی واپس نہیں آۓ گا وہ اب۔ سمجھیں اس بات کو۔ کیا حالت بنا لی ہے آپ نے اپنی۔۔" لہجے میں سختی لیے وہ اسے ڈانٹ رہا تھا۔ نازنین نے اگلے ہی پل اسکے دونوں ہاتھ تلخی سے جھٹک دیے تھے۔ پھر اسے بھیگتی آنکھوں سے دیکھتی رہی۔۔
"میرا دل نہیں مانتا۔۔ وہ زندہ ہے۔۔ مجھے یقین نہیں آتا۔۔" وہ اسے سمجھانا چاہ رہا تھا لیکن وہ کسی کی بات کو سننا نہیں چاہتی تھی۔ اگلے ہی پل وہ آگے بڑھی تو زاویار نے اسے آواز دے کر رکنے کے لیے کہا۔ وہ نہیں رکی۔۔ رخساروں سے آنسو رگڑ کر آگے بڑھتی گئ۔۔ کار تک وہ اسکے پیچھے آیا تھا۔ پھر اسے دور جاتا دیکھتا رہا۔۔ دھوپ ڈھل چکی تھی اور آسمان اچانک ہی بادلوں سے ڈھکا محسوس ہورہا تھا۔ فضا میں گھٹن کا احساس خاصہ بڑھ گیا تھا اور مغرب کی نیلی روشنی ہر جانب بکھرنے لگی تھی۔ وہ سمندر تک چلی آئ تھی۔۔ ایک آخری راستہ۔۔ ایک آخری جگہ جہاں وہ بیٹھ کر کئ گھنٹوں تک ہمیشہ کی طرح اسکا انتظار کرسکتی تھی۔ یہ جانتے ہوۓ بھی کہ وہ واپس نہیں آۓ گا۔۔ یہ جانتے ہوۓ بھی کہ اسکا یہ انتظار بھی ہر انتظار کی مانند رائیگاں جاۓ گا۔۔ یہ سب جانتے ہوۓ بھی وہ دیوانوں کی طرح اس گیلی ریت پر آبیٹھی تھی۔ گھٹنوں کے گرد اپنے بازو باندھے وہ رخسار گھٹنے پر ٹکاۓ ہوۓ تھی۔۔ ہاتھ میں کاغذ اب تک قید تھا۔۔ رات کا اندھیرا گہرا ہونے لگا تھا۔۔ یکایک بارش سی برسنے لگی۔۔ بوچھاڑ اس قدر تیز تھی کہ کچھ سُجھائ نہ دیتا تھا۔۔ سمندر کی لہریں اور آسمان سے برستا پانی جیسے برابر ہوتا جارہا تھا۔۔ اس برستے پانی تلے اسکی آنکھوں سے بہتا سیال بھی شامل ہورہا تھا۔ پھر اس نے تلخی سے سر اٹھا کر سمندر کی جانب دیکھا۔۔
"تم نے کہا تھا کہ تم مجھے کبھی تنہا نہیں کروگے۔۔ تم نے کہا تھا کہ تم ہمیشہ میری حفاظت کروگے۔۔ تم نے کہا تھا تم واپس آؤ گے۔۔ تم جھوٹے ہو۔۔ تم جھوٹے تھے۔۔ تم نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا۔ تم نے غلط بیانی کی تھی مجھ سے۔۔ تم نے۔۔ تم نے۔۔" ہچکیاں بلند ہونے لگی تھیں۔ سمندر کی پلٹتی لہروں نے لمحے بھر کو اسے ٹھہر کر دیکھا تھا۔ تیزی سے چلتی ہوا کی سرسراہٹ اسکی ہچکیوں پر اداس ہونے لگی تھی۔ پچھلے ایک سال سے خود پر خوشی کا چڑھایا خول جیسے آج چٹخ سا گیا تھا۔ اسکے ہاتھ سے لکھے وہ چند الفاظ اسے وہیں لے آۓ تھے جہاں سے وہ چلی تھی۔۔
"تم نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ۔۔ کیوں کی تم نے مجھ سے محبت۔۔؟ یہ تم نے کیا کردیا، حرم۔۔! یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔۔ میں اب کیسے زندہ رہونگی۔۔ مجھے سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔۔ مجھے کسی دوسرے انسان کے ساتھ زندگی گزارنے کا خیال ہی جیسے ڈسنے لگتا ہے۔۔ تم نے بہت برا کیا ہے میرے ساتھ۔۔ مجھے قید کر کے چلے گۓ تم۔۔ کبھی نہ واپس آنے کے لیے۔۔" وہ اب خود میں سمٹی تیزی سے رونے لگی تھی۔ اسکا دل کرب سے بھنچ رہا تھا۔۔ برستی بوچھاڑ ہر شے دُھندلاتی جارہی تھی۔۔ رات کی تاریکی تلے ہر شے سیاہ پڑتی محسوس ہورہی تھی۔ سمندر کی ابھرتی لہروں کے ساتھ، گیلی ریت پر ایک لڑکی بیٹھی رو رہی تھی۔
"میں تمہیں کہاں ڈھونڈونگی اب۔۔! تم ظالم ہو۔۔ ظالم تھے ہمیشہ سے۔۔ میں تمہیں کہاں تلاش کرونگی اب۔۔!" اسکی سسکیاں دلدوز تھیں۔ سمندر کا انداز اسکے آنسو دیکھ کر ڈول سا گیا تھا۔ وہ روتی رہی۔۔
اسی پل۔۔
کوئ بے حد آہستگی سے۔۔
اسکے ساتھ آکھڑا ہوا تھا۔۔
پھر اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر۔۔
سیاہ چھتری۔۔
اسکے اوپر تان دی تھی۔۔
دور سے دیکھنے پر یہی احساس ہوتا تھا کہ کسی نے اپنے بھیگنے کی پرواہ کیۓ بغیر چھتری والا ہاتھ لمبا کر کے۔۔ بے تحاشہ روتی ہوئ لڑکی کو ڈھانپ لیا تھا۔
سمندر کا شور جیسے سمٹ سا گیا تھا۔۔
نازنین نے اپنے اوپر تلے بارش رکی محسوس کر کے اگلے ہی پل رخسار گھٹنے سے اٹھایا تھا۔۔
چھتری والے ہاتھ سے۔۔
تتلی کا ایک عدد ہار لٹکا جھول رہا تھا۔۔
اس تتلی کی چمک جانی پہچانی تھی۔۔
اسکے ہاتھ پر ایک مخصوص نشان بھی تھا۔۔
جسے شوٹرز کا نشان تصور کیا جاتا تھا۔۔
بوچھاڑ تلے۔۔
اک پرانا سا منظر دہرایا جارہا تھا۔۔
وہی منظر جب وہ اسکا مسیحا بن کر نمودار ہوا تھا۔۔
تتلی جھول رہی تھی۔۔
ہوا سرسرا رہی تھی۔۔
جو مرجائیں۔۔
اکثر پلٹ آتے ہیں۔۔
چھتری والا ہاتھ اب تک تنا ہوا تھا۔۔
نازنین اسے چہرہ اٹھاۓ۔۔ تک رہی تھی۔۔
وہ جیسے ریت کا مجسمہ بن گئ تھی۔۔
شوٹر نے گردن جھکائ۔۔ پھر ہلکا سا مسکرایا۔۔
"میں آپکو بتانا بھول گیا تھا۔۔ کہ جب آپ ایسے روتی ہیں۔۔ تو مجھے یہاں۔۔" ٹھہر کر اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا۔۔ "یہاں تکلیف ہوتی ہے۔۔"
طالوت کہا کرتا تھا کہ شوٹرز کو کوئ نہیں مار سکتا۔۔
وہ اپنی موت خود طے کرتے ہیں۔۔
پھر زندہ رہتے ہیں۔۔
اور وقت کے دھارے میں کبھی کبھی یونہی کسی۔۔
بوچھاڑ تلے چلے آتے ہیں۔۔

اور جب تمہیں لگے کہ کہانی ختم ہوچکی ہے تو بغور دیکھنا۔۔ سمندری لہروں تلے۔۔ بعض کہانیاں۔۔ اپنا وجود۔۔ دہرانا بخوبی جانتی ہیں۔۔

*******
Continue

عزازیل Kde žijí příběhy. Začni objevovat