قسط 2

113 10 1
                                    

اگلی صبح بہت بوجھل تھی۔ فجر کے وقت بھی گھر پر سناٹے کا ہی راج رہا۔ نازنین نماز پڑھ کر لیٹ گئ تھی۔ اسکا دل نہیں چاہ رہا تھا کچھ بھی زبان پر رکھنے کو۔ رات امی سے کی گئ بحث کے آثار اب تک اسکی یاد کے پردے پر تازہ تھے۔ لیکن وہ آثار صرف وہی محسوس کرسکتی تھی۔ چہرے سے اس نے، ان تمام احساسات کے آثار مٹا رکھے تھے۔
اگلے ہی پل اس کے کمرے کے دروازے پر دستک ہوئ تو وہ سیدھی ہو بیٹھی۔ دروازہ ادھ کھلا اور اس  میں صوفیہ نمودار ہوئیں۔
انکے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے تھی اور بھاپ اڑاتے چاۓ کے دو کپ اتنی دور سے بھی نازنین کو نظر آگۓ تھے۔

"ناشتہ کرلو۔۔ یونی بھی جانا ہے پھر تم نے۔۔"

وہ اندر چلی آئیں۔ اسکے عین سامنے ٹرے رکھی۔ اور پھر حسبِ عادت اسکی کتابیں اور استری شدہ کپڑے درستگی سے رکھنے لگیں۔
وہ انکی حرکات اداسی سے تک رہی تھی۔ پھر بے ساختہ ہی مسکرادی۔۔

"آپ نے کیا ہے ناشتہ؟"

وہ اسکے بیڈ کی جانب چلی آئیں۔ پھر اسکے سامنے بیٹھ گئیں۔ ایک ہی رات میں نازنین کو وہ بہت کمزور اور بوڑھی محسوس ہونے لگی تھیں۔ اسکے دل کو کچھ ہوا تھا۔ ڈائلاسز کی وجہ سے وہ پہلے ہی خاصی مضمحل محسوس ہوتی تھیں۔

"نہیں۔۔ تمہارے ساتھ کرونگی۔۔ مجھے پتہ ہے تمہارا_ سوکھے منہ ہی کام پر جانے کا ارادہ ہے لیکن مجھے تمہاری فکر ہے۔ ناشتہ کرو۔۔ پھر جانا۔۔"

انکی نرمی پر اسکا دل پگھل ہی تو گیا تھا۔ وہ اس سے کبھی بھی اس قدر تُرش ہو کر بات نہیں کیا کرتی تھیں لیکن اسکے ہر دفعہ کے انکار نے انہیں اندر سے خوفزدہ کردیا تھا۔ اسے پہلے اندازہ نہیں تھا کہ اسکا انکار امی پر اس طرح کا منفی اثر ڈالتا ہوگا لیکن رات والا رویہ اسے یہ سب سمجھانے کے لیۓ کافی تھا۔ اسے اس معاملے کو بہت سبھاؤ سے ہینڈل کرنا تھا۔

"امی_ میں کہہ رہی تھی کہ۔۔ ہم چلیں گے تایا کے گھر۔۔"

اور ابھی اسکی بات مکمل بھی نہ ہوئ تھی کہ صوفیہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔ وہ یکدم چونک کر رک سی گئ تھی۔

"تمہیں نہیں جانا تو مت جاؤ۔ میں تم پر زور زبردستی نہیں کرونگی نازو۔ کیا آج سے پہلے کبھی میں نے ایسا کیا تھا۔۔؟ نہیں بچے۔۔ بس تمہاری یہ بڑھتی عمر اور اپنی ڈھلتی عمر کا غم مجھے اندر ہی اندر کھاۓ جارہا ہے۔ شاید اپنے اندر یہ باتیں کافی عرصے سے رکھتے رکھتے میں تھک گئ تھی اسی لیۓ تم پر رات کو اتنا غصہ ہوگئ۔۔ تم ٹھیک ہو اپنی جگہ۔۔ ہمیں نہیں جانا چاہیۓ۔۔"

اور وہ اتنی بیوقوف تو ہرگز بھی نہیں تھی کہ انکی نم آنکھوں کے پار جگمگاتی خواہش کو محسوس نہ کرپاتی۔ اسے پتہ تھا کہ وہ رات بھر کس کرب سے گزری ہونگی۔۔ صرف اسکی وجہ سے۔۔ وہ سب سالوں کے کرب سے اسی کی وجہ سے تو گزرے تھے۔۔ تو کیا اب وہ تھوڑا سا بھی حصہ انکو نہیں لوٹا سکتی۔۔ کیا تھوڑا سا بھی حق نہیں تھا امی کا اس پر۔۔؟
اس نے اگلے ہی پل امی کے ہاتھ تھام لیۓ تھے۔ پھر سوبر سی مسکراہٹ سجاۓ ہولے سے بولی۔۔

عزازیل Where stories live. Discover now