قسط 18

67 8 4
                                    

وہ سامنے کھڑا تھا۔ سیاہ لانگ کوٹ پہنے۔۔ بُھوری آنکھوں میں دنیا جہاں کی نرمی سمیٹے۔ نازنین نے کبھی ان آنکھوں میں سختی کے کسی پہر کو اترتے ہوۓ نہیں دیکھا تھا۔ شاید ان آنکھوں کو سخت ہونا آتا ہی نہیں تھا۔ یا شاید وہ اسکے ساتھ سخت ہونے کو خود پر حرام کیے رکھتا تھا۔ ہاں۔۔ شاید۔۔
ہوا کا ایک سرسراتا ہوا جھونکا ان دونوں کو جھنجھناتا ہوا گزر گیا تھا۔ وہ ٹھٹھر گئ تھی۔۔ حرم کے ماتھے پر بال گر کر لہراۓ تھے۔۔

"اندر نہیں بلائنگی۔۔؟"
اس نے پوچھا تو وہ چونکی اور پھر دروازہ وا کیے ایک جانب ہوگئ۔ ایک وقت تھا جب وہ اسے اپنے گھر میں داخلے کی اجازت دیتے ہوۓ ہچکچا رہی تھی۔ جب وہ اسکے منہ پر ہی دروازہ بند کردینا چاہتی تھی۔ جب وہ اس سے اور اسکے گھرانے سے کوئ بھی تعلق نہیں رکھنا چاہتی تھی۔ جب وہ اسکے زخم کو دیکھ کر بھی بمشکل ہی پگھلی تھی۔ جب وہ اس لڑکے کو لاابالی اور فلرٹ تصور کررہی تھی۔ ہاں۔۔ جب وہ اس کو بھی اپنے مخصوص دائرے سے باہر دھکیل رہی تھی۔
آج وہ خود، اس لڑکے کے لیے اپنے گھر کا دروازہ وا کیے کھڑی تھی۔ اس نے کبھی کسی اجنبی کے لیے دروازہ وا نہیں کیا تھا۔ لیکن وہ اس اجنبی کے لیے دروازہ کھولنا چاہتی تھی۔ وہ اجنبی، جو بہت عجیب طریقے سے اسکا اپنا ثابت ہوا تھا۔ جو بہت نرم ہوتے ہوۓ بھی عجیب طرح سے مضبوطی کا ثبوت دیا کرتا تھا۔ جو بہت عجیب ڈھنگ سے باتوں کو تلخی کی جانب جانے سے روک لیا کرتا تھا۔ جو بہت عجیب رنگ اپنی آنکھوں میں سموۓ، معصومیت سمیٹ لیا کرتا تھا۔ کتنا عجیب تھا وہ۔۔ عجیب اور الگ۔۔ ایسا جیسے اس جیسا کوئ بھی نہ ملتا ہو۔ وہ اپنے طرز کا آخری پیس رہ گیا ہو۔۔
وہ اندر چلا آیا تھا۔ وجدان اور صوفیہ اپنے کمرے میں موجود تھے۔ کچے صحن والا گھر خنکی کے باعث یخ بستہ ہورہا تھا۔
وہ داخلی روش پر چند قدم چل کر اسکے ساتھ رک گیا تھا۔ پھر چہرہ پھیر کر اسے دیکھا۔
"کیسی ہیں آپ۔۔؟"

"ٹھیک ہوں۔۔ تم۔۔؟"

اسکی سنجیدگی لوٹ آئ تھی۔ وہ پرانی نازنین ہی معلوم ہورہی تھی۔ اسکی کمزوری اور لڑکھڑاتے الفاظ سنبھل گۓ تھے۔ اور اسے ایسے دیکھ کر حرم کو سکون ملا تھا۔
"میں بھی ٹھیک۔۔"

"آجاؤ اندر۔۔"

وہ اسکے آگے چلتے ہوۓ راستہ ہموار کرتی بڑھ رہی تھی۔ اس نے بھی گہرا سانس لیا اور پھر اسکے پیچھے ہولیا۔ کچے صحن میں موجود کیاریاں، چلتی ہوا کے باعث پھولوں کی خوشبو سے معطر تھیں۔ اس نے برآمدے میں لگی کرسیوں میں سے ایک کرسی گھسیٹی اور پھر بیٹھ گیا۔ سانس کے ساتھ گھاس اور گیلی مٹی کی خوشبو اندر کو اتاری۔۔
نازنین صوفیہ اور وجدان کو بلانے انکے کمرے میں گئ تھی۔ اگلے ہی پل صوفیہ اور وجدان اسکے ساتھ ہی کمرے سے نکل آۓ تھے۔ وہ صوفیہ اور وجدان سے خوشدلی سے ملا۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہمیشہ ملا کرتا تھا۔ صوفیہ تو بار بار، اسکے وقت پر پہنچ کر نازنین کو بچالینے کے لیے شکر گزار تھیں۔ اور وہ انکی شکر گزاری پر شرمسار ہوا جارہا تھا۔ اگلے ہی پل صوفیہ چاۓ بنانے اٹھ کر گئیں تو وہ، وجدان اور حرم برآمدے میں بیٹھے رہ گۓ۔
"آپکو پھپھو کہاں ملی تھیں، حرم بھائ۔۔؟"

عزازیل Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora