قسط 25

37 7 2
                                    

لاؤنج میں ہر جانب سفید روشنیوں کا راج تھا۔ وہ اسکے سامنے کھڑا تھا اور نازنین، اسکے کندھے کے پیچھے تھی۔ حرم اور اسکے لباس پر جابجا خون کے سرخ دھبے لگے تھے۔ حرم کی ہتھیلی سے تو خون اب تک بہہ رہا تھا اور اسکی کئ بوندیں سفید ٹائلز پر ٹپ ٹپ گر رہی تھیں۔ لیکن فی الحال وہ اپنے زخم کی جانب متوجہ نہیں تھا۔ وہ تو ان سب کے ہونق چہروں کی جانب متوجہ تھا۔۔ جہاں اسکے لیے ہزاروں استفسار موجود تھے۔۔ وہ محض استفسار نہیں تھے۔۔ وہ اعتراضات تھے اور اسے ہر اعتراض کا جواب دینا تھا۔

"یہ۔۔ یہ سب کیا ہے۔۔؟ تم کیسے زخمی ہوۓ۔۔ اور نازنین یہاں کیا کررہی ہے۔۔ ؟ یہ سب کیا ہورہا ہے۔۔ ؟" روحیلہ نے سب سے پہلے سوالات کیے تو اس نے سر اثبات میں ہلا کر انہیں شانت رہنے کا اشارہ کیا۔ وہ ان کے کسی سوال کا جواب دیۓ بغیر نہیں جانے والا تھا۔

"مام۔۔ نازنین پر حملہ ہوگیا تھا۔ مجھے ان کا وہاں رہنا ٹھیک نہیں لگا تو میں انہیں اپنے ساتھ لے آیا۔"

اس نے جواب جتنے سبھاؤ سے دیا تھا۔۔ اتنی ہی تیزی سے روحیلہ کی آنکھیں پھیلی تھیں۔ وہ ناسمجھی سے اسکے جواب پر اسے دیکھنے لگی تھیں۔ سہیل اور صوفیہ بھی اسی طرف چلے آۓ تھے۔ ثانیہ جو اپنی دوستوں کے ساتھ کھڑی تھی۔۔ اڑی رنگت لیے اسی جانب بڑھ آئ تھی۔

"یہ کیا کہہ رہے ہو تم۔۔؟ کس نے حملہ کردیا۔۔؟تمہیں زیادہ لگی تو نہیں۔۔ یا خدا یہ ہاتھ سے اتنا خون کیوں بہہ رہا ہے۔۔؟" وہ حواس باختہ ہورہی تھیں۔ نازنین پر انہوں نے دوبارہ کوئ نگاہ ہی نہیں ڈالی۔ انہیں بس حرم کی فکر تھی۔ جبکہ صوفیہ نازنین سے معاملے کی سنگینی کا پوچھ رہی تھیں۔ اور وہ زندگی میں پہلی بار صوفیہ کو جواب دیتے ہوۓ ہکلا رہی تھی۔ لوگوں کی چبھتی نظروں کے باعث اسکا سانس خشک ہورہا تھا اور چہرہ شدتِ جذبات کے باعث سرخ پڑ چکا تھا۔

"اچھا ابھی یہاں سے چلو۔۔ سب مہمان اسی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہم اس معاملے پر بعد میں بات کریں گے۔ تم جاؤ۔۔ نازنین کو لے کر یہاں سے۔۔ حرم جاؤ۔۔" سہیل نے سختی سے کہا تو اس نے سر اثبات میں ہلایا اور پھر نازنین کو پلٹ کر دیکھا۔ وہ خوفزدہ نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ اس نے اسے کہنی سے تھاما اور اپنے ساتھ لیے زینوں کی جانب بڑھ آیا۔ سب انہیں ذو معنی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ اسے اپنے کمرے میں لے آیا۔۔ پھر دروازہ بند کرتا اسکی جانب گھوما۔۔ وہ بہت غیر آرام دہ لگ رہی تھی۔۔ اس نے نازنین کو کبھی ایسے نہیں دیکھا تھا۔ عام حالات میں وہ بہت اعتماد کا مظاہرہ کیا کرتی تھی۔
"پلیز حرم۔۔ مجھے یہاں نہیں رہنا۔ پلیز مجھے میرے گھر لے جاؤ۔ میں یہاں نہیں رہ سکتی۔ میں یہ سب نہیں کرپاؤنگی۔۔" وہ بھیگتی آنکھوں کے ساتھ بولنے لگی تو حرم کی نگاہیں بے ساختہ ہی اسکی زخمی گردن پر پڑیں۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر اسکے کھلے بال ہلکے سے ہٹا کر دیکھا تو اسے گردن پر لگا گہرا سا کٹ واضح طور پر نظر آیا۔ اگلے ہی پل اسکی نگاہوں نے نازنین کی بھیگی آنکھوں تک سفر کیا تھا۔

عزازیل Où les histoires vivent. Découvrez maintenant