آخری قسط

60 7 1
                                    

نازنین جاچکی تھی۔ وہ ایجنسی کے راستے کو دُکھی نگاہوں سے تک رہا تھا۔ اس نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی تھی لیکن وہ نہیں رُکی تھی۔ وہ اسکی ایسی ذہنی حالت کو سمجھتا تھا۔ کسی وقت میں وہ بھی حرم کے لیے ہر راہ تلاش کرتا رہا تھا۔ وہ اسے ہر جگہ ڈھونڈ چکا تھا۔ جہاں اسکی موجودگی کا کوئ بھی نشان پایا جاسکتا تھا، اس نے اسے ہر اس جگہ ڈھونڈا تھا۔۔ لیکن وہ کہیں نہیں تھا۔ اس نے اسکا جنازہ نہیں پڑھا تھا۔ اس نے اسے اپنے ہاتھوں سے قبر میں نہیں دفنایا تھا۔ اسکی موت پر بھلا اسے یقین کیسے آسکتا تھا۔۔؟
وہ پلٹا۔۔ لیکن پھر ٹھہر گیا۔۔ جانے وہ کتنی ساعتیں اس کھوکھلے راستے پر کھڑا رہا تھا۔ مغرب کی سیاہی کے ساتھ ہی بارش کی بوندیں تیزی سے برسنے لگیں تو وہ چونک سا گیا۔ اس نے اپنے آس پاس نگاہ گھما کر دیکھا لیکن وہاں کوئ موجود نہیں تھا۔ ایجنسی شام کے اس پہر خالی محسوس ہورہی تھی۔
اس نے گہرا سانس لیا اور پھر جونہی آگے بڑھنے کے لیے قدم بڑھاۓ تو رُک سا گیا۔۔ ایک لمحے کے لیے اسکی آنکھیں سُکڑ گئ تھیں۔ آسمان سے برستی بوچھاڑ تلے وہ گویا، لمحے بھر کو سُن ہوا تھا۔ نازنین کے پاس وہ پرچی کہاں سے آئ تھی بھلا؟ کیا حرم واقعی اپنی پناہ گاہ کا نشان۔۔ چھوڑ کر گیا تھا۔۔؟ کیا ایسا ممکن تھا۔۔؟ کیا وہ زندہ ہوسکتا تھا۔۔؟ اچنبھے کی ایک گہری سی لہر نے اگلے ہی پل اسکے وجود کا احاطہ کیا تھا۔ اسے اس پرچی پر لکھا کوڈ یاد آیا۔
"F4.. 000"
اس ایجنسی کا ایسا ڈیپارٹمنٹ جس میں کام کرتے شوٹرز کی اصل حقیقت سے کوئ بھی واقف نہیں تھا۔ وہ اس ایجنسی کا سربراہ مقرر کیا جانے والا تھا لیکن اسے بھی کبھی اس ڈیپارٹمنٹ کی بھنک لگنے نہیں دی گئ تھی۔ کیا کچھ ایسا تھا جو اسے نہیں پتا تھا۔۔؟ آسمان سے برستی بوچھاڑ تیز تر ہونے لگی تھی۔ وہ آگے بڑھا اور پھر پلٹنے کے بجاۓ وہ ایجنسی کے اس مخصوص حصے کی جانب چلا آیا، جس کا کوڈ حرم اپنے عقب میں چھوڑ کر گیا تھا۔ اسے پتا تھا کہ اسکی کوشش لاحاصل ہے۔۔ لیکن وہ اس آخری راستے کو تلاش کیے بغیر نہیں پلٹ سکتا تھا۔ اسے حرم کی طبیعت معلوم تھی۔ وہ اپنے کاموں میں جھول برداشت نہیں کیا کرتا تھا۔ پھر وہ اتنا بڑا ثبوت کیسے وضع کرسکتا تھا۔۔؟
وہ اب اندرونی راہداریوں میں تیزی سے چل رہا تھا۔ اسکا لباس بھیگ گیا تھا اور ماتھے پر گرے بالوں سے قطرہ قطرہ پانی ٹپک رہا تھا۔ ہر بڑھتے قدم کے ساتھ اسکے قدموں میں لرزش بڑھتی ہی جارہی تھی۔ ایجنسی میں گھومتے کئ شوٹرز نے اسے سلام کیا تھا۔۔ وہ سر کے خم سے جواب دیتا ایک خاموش راہداری کی جانب آنکلا تھا۔ اس راہداری کا راستہ آگے جا کر کچھ عجیب طرح سے بنا ہوا تھا۔ وہاں تین بڑے دروازے تھے۔۔ ان دروازوں کو محض وہی پار کرسکتے تھے جن کے پاس ایجنسی کا مخصوص داخلی کارڈ ہوتا۔ اس نے اپنی جیب سے بٹوہ نکالا اور پھر اس کارڈ کو دروازے کے ایک جانب بنے کمیپوٹرائزڈ سسٹم پر لگایا۔۔ تین کلکس کے بعد۔۔ دروازہ کُھل گیا تھا۔ وہ اندر چلا آیا۔۔ یہاں کی راہداریاں، بھول بھلیوں کی مانند تھیں۔ یہ ڈیپارٹمنٹ بہت خفیہ طریقے سے کام کیا کرتا تھا۔ اتنی سخت سیکیورٹی تو اسکے ہیڈ کے لیے بنتی ہی تھی۔ وہ کبھی اس جانب نہیں آیا تھا۔۔ اسے کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئ تھی۔ وہ فِسٹ فائیٹر تھا۔ شوٹنگ ڈیپارٹمنٹ اسکے کام کی جگہ نہیں تھی۔ لیکن یہ جگہ حرم کے کام کی ضرور تھی۔ وہ شُوٹر تھا۔۔ لیکن کیا وہ انڈر کور شُوٹر تھا۔۔؟ یہ اسکے علم میں نہیں تھا۔
راہداری عبور کی جاچکی تھی۔
بالکل آخری سِرے پر ایک آفس بنا تھا۔ اسکے دروازے پر دو بارُودی گارڈز کھڑے تھے۔ ان کے چہرے پتھروں کی مانند سخت تھے اور آنکھوں میں بالکل سپاٹ سا تاثر تھا۔ وہ آگے بڑھ آیا۔۔ ماتھے پر گرے بال نوکوں کی صورت آنکھوں تک آنے لگے تھے۔ وہ قریب چلا آیا تھا۔ گاڑد نے اسے ہاتھ لمبا کر کے اندر کی جانب بڑھنے سے منع کردیا۔ وہ اندر داخل نہیں ہوسکتا تھا جب تک اسکے پاس اپائنمنٹ لیٹر نہ ہوتا۔ اس نے کوئ اپائنمنٹ نہیں لیا تھا۔۔
"مجھے یہاں کے ہیڈ سے ملنا ہے۔ ایجنسی کے فائٹنگ ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ ہوں میں۔۔" اسکے وضاحتی جواب پر گارڈ نے محض سر نفی میں ہلایا تھا۔ اسکا ہیڈ ہونا۔۔ کافی نہیں تھا۔ اسے وہ مخصوص لیٹر ایشو کروانے کے بعد ہی اندر جانے کی اجازت مل سکتی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اس لیٹر کو ایشو ہونے میں کئ دن لگ سکتے تھے۔۔ اور اتنے دن صبر کرنا اسکے لیے قیامت کے برابر تھا۔
"کیا تم دونوں یہاں خون خرابا کرنا چاہتے ہو۔۔؟ مجھے محض چند باتیں کرنی ہیں ہیڈ سے۔۔ اگر داخلہ نہیں دیا تو آگے کسی بھی جارحانہ عمل کی ذمہ داری میرے کندھوں پر نہیں ہوگی۔۔" وہ سختی سے غرایا تھا۔ گارڈ نے اسے سر سے پیر تک دیکھا تھا۔ پھر سر نفی میں ہلایا تو زاویار نے اسکا گریبان تیزی سے پکڑ کر مُکا اسکے اوپر تان دیا۔ اسکی آنکھیں غیر انسانی معلوم ہورہی تھیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک سال قبل، حرم کو ڈھونڈتے وقت اسکی آنکھیں رہنے لگی تھیں۔
"یہ گولی سر کے آر پار ہوجاتی ہے۔ پیچھے قبرستان ہے جہاں ہم لوگوں کو بغیر کسی جنازے کے دفنا آتے ہیں۔ یہ تمہارا فائٹنگ ڈیپارٹمنٹ نہیں ہے۔" گارڈ نے سختی کے ساتھ کہہ کر اپنے گریبان سے اسکا ہاتھ بُری طرح جھٹکا تھا۔ اس ایجنسی میں جانے اور کتنے راز گہرائیوں تک دفن تھے۔ اسے اسی پل احساس ہوا تھا۔ لیکن وہ اس ہیڈ سے ملے بغیر یہاں سے نہیں جا سکتا تھا۔
"اوکے۔۔۔ اپنے ہیڈ سے جا کر کہو۔۔ زاویار ملنے آیا ہے۔۔ اگر وہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتا تو میں چلا جاؤنگا۔۔" اس نے ٹھنڈی سی آواز میں کہا لیکن گارڈ اسکی کوئ بھی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ ان دونوں پر چڑھ دوڑتا اگلے ہی پل۔۔ آفس کا دروازہ کلک کی آواز کے ساتھ کُھل گیا تھا۔ گارڈز نے چونک کر اس ادھ کھلے دروازے کی جانب دیکھا اور پھر ان میں سے ایک اندر داخل ہوا۔۔ زاویار کو پیچھے دوسرے گارڈ نے اپنی گرفت میں جکڑا ہوا تھا۔ اگلے ہی پل اندر داخل ہوا گارڈ باہر نکل آیا پھر دوسرے کو اشارے سے اسے چھوڑ دینے کے لیے کہا۔ اگلے ہی پل وہ اسکے سامنے سے ہٹ گیا تھا۔ زاویار نے چونک کر کُھلے دروازے کی جانب دیکھا تھا۔۔ پھر اپنی جیکٹ جھٹکی اور ایک سخت نگاہ ان دونوں پر ڈالتا اندر کی جانب بڑھ آیا۔۔
آفس میں قیمتی فرنیچر اور سِگار کی خوشبو بکھری ہوئ تھی۔ بھاری پردے بُلند کھڑکیوں پر جا بجا گرے ہوۓ تھے اور زرد روشنیاں روشن ہونے کے باوجود بھی وہ آفس، اندھیر معلوم ہوتا تھا۔ کُرسی دوسری جانب کو گھومی ہوئ تھی۔۔ اس پر براجمان شخص کا چہرہ واضح نہیں تھا۔
"تم مجھ سے کبھی ملنا نہیں چاہوگے، سُلطان۔۔" اگلے ہی پل کُرسی گھومی اور سامنے براجمان شخص کا چہرہ واضح ہوا۔ زاویار کی آنکھیں اگلے ہی پل سُکڑی تھیں۔ یہ چہرہ جانا پہچانا تھا۔۔ لیکن وہ اسے پوری طرح سے پہچان نہیں پارہا تھا۔
"تم پر تمام ثبوت پلانٹ کرنے والا شخص تمہیں کبھی نہیں ملا۔ تمہیں حرم کی جگہ گرفتار کروانے والا شخص ہیڈ ہے اس ڈیپارٹمنٹ کا۔۔" اور اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئ بات کرتا، اسکی ناسمجھی سے سُکڑی آنکھیں اگلے ہی پل کھل گئ تھیں۔ پیشانی کے بل ڈھلک گۓ تھے۔ وہ اسے پہچان گیا تھا۔
"سلیمان اُریبی۔۔!"
اس نے زیرِ لب ہلکے سے کہا تھا۔۔ وہ جیسے سانس تک لینا بُھول گیا تھا۔۔ سامنے براجمان شخص نے اپنا نام اسکی زبان سے سُن کر محظوظ سے ابرو اوپر کو اٹھاۓ تھے۔۔ پھر ہلکا سا مسکرایا۔۔ اسے ہاتھ سے اپنے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔۔ وہ یہاں بیٹھنے نہیں آیا تھا۔۔ اگلے ہی پل وہ آگے بڑھا اور اسے گریبان سے جھپٹا۔ اپنی خونخوار آنکھیں اسکی بُھوری آنکھوں میں گاڑیں۔۔
"میرا دوست کہاں ہے۔۔؟"
"مرچکا ہے۔۔ دُنیا کے لیے۔۔"
"بکواس بند کرو اور سیدھی طرح بتاؤ۔۔ کہاں ہے حرم۔۔ کیا کیا ہے تم نے اسکے ساتھ۔۔؟" اسکی آواز غرّاہٹ میں بدل رہی تھی۔ یوں گویا وہ اسکی گردن دبوچنے سے خود کو بمشکل روکے ہوۓ ہو۔ آنکھیں سُرخ ہوگئ تھیں اور گردن کی رگیں ضبط کے باعث اُبھر آئ تھیں۔۔
"نفرت نہیں ہوتی تمہیں اس سے۔۔؟ اسکی وجہ سے تم مجرم بننے جارہے تھے۔۔"

عزازیل Nơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ