قسط 3

90 9 1
                                    

اس نے گاڑی "قصرِ انصاری" کے سامنے روکی اور پھر اگلے ہی پل دروازہ کھولے باہر نکل آئ۔ صوفیہ بھی دوسری جانب کا دروازہ کھولے، گھوم کر اسی طرف آرہی تھیں۔ عالیشان ستونوں پر کھڑا وہ قصر، خنک سی دھندلی ہوا میں لک چھپ رہا تھا۔ اس نے بھاری ہوتے دل کے ساتھ گہرا سانس لے کر، اندر ابلتے بہت سے جذبات کو پرے دھکیلا۔۔
اسکا سینہ جیسے کسی شکنجے میں جکڑتا جارہا تھا اور دل تو کسی نے مٹھی میں لے کر بھینچ ڈالا تھا۔ اتنے سالوں بعد بھی جو ہوا تھا وہ گرد میں نہ اٹ سکا تھا۔۔ وہ آج بھی روزِ اول کی مانند روشن تھا۔۔ روشن رکھا گیا تھا۔۔

اس نے بہت سی گرہیں حلق سے نگل کر اندر کی جانب قدم بڑھاۓ تو صوفیہ بھی اسکے ساتھ ہی آگے بڑھ آئیں۔
قصر انصاری آج بھی اتنی ہی نگاہوں کو خیرہ کردینے والی چکا چوند لیے ہوۓ تھا کہ اسکی روشنیوں میں اسے اپنی آنکھیں کھلی رکھنا کٹھن لگا۔ اس نے چبھتی روشنیوں کے ساتھ اپنی آنکھیں مانوس کیں اور پھر کئ ایکڑ پر پھیلے اونچے نیچے گھاس کے قطعوں پر آگے بڑھ آئ۔ دور دور تک کرسیاں لگا کر مہندی کا انتظام کیا گیا تھا۔ درختوں کی تراش خراش کے بعد انہیں باریک برقی قمقموں سے سجا کر وہ زندگی بخشی گئ تھی کہ دیکھنے والی ہر نگاہ بار بار پلٹنا اپنا فرض سمجھتی۔

لیکن وہ اس سب کو بہت غیر دلچسپی سے دیکھتی آگے بڑھ آئ تھی۔ داخلی قدِ آدم دروازوں کے پار سے پرتعیش لاؤنج کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔ زرق برق، بھاری کامدار ملبوسات کی بہار میں وہ خود کو بہت بے رنگ سی تتلی محسوس ہوئ تھی۔ ہر جانب شور ہنگامہ، قہقہے، بہار اور روشنیاں اتر آئ تھیں۔ لاؤنج کی سیدھ میں کشادہ زینے تھے۔۔ چکردار کشادہ زینوں کا چکر اوپری منزل کی جانب راہ ہموار کیا کرتا تھا۔

اسے ہر راستہ ازبر تھا۔۔ وہ کچھ بھولی ہی کب تھی۔۔ کاش کہ وہ کچھ بھول جاتی۔۔

گہرا سانس لے کر اس نے آس پاس نگاہ دوڑائ تو صوفیہ، شائستہ اور روحیلہ سے بغلگیر ہوتی دکھائ دیں۔ وہ بھی اسی سنجیدگی سے خواتین کی جانب بڑھ آئ تھی۔ پھر انکے سلام اور حال احوال کا بہت پرتکلف سا جواب دے کر لاؤنج میں لگے قیمتی صوفوں پر آ بیٹھی۔۔ اس سے زیادہ مروت وہ کسی کو بھی فی الحال نہیں دکھا سکتی تھی۔۔

اس نے سیاہ گھیردار فراک زیب تن کر رکھا تھا۔ سنہرا تنگ چوڑی دار پجامہ بہت ہلکا سا جھلکتا تھا۔ اسکے لباس کی فال ہی کچھ ایسی تھی کہ لاؤنج میں بہت سے مردوں نے اسے پلٹ پلٹ کر دیکھا۔۔ بالوں کو حسبِ عادت کھلا چھوڑے، لباس کی مناسبت سے برابر میک اپ کیۓ وہ ہر انداز سے پرفیکٹ لگتی تھی۔ اسے دیکھتے رہنے کو دل چاہتا تھا۔

یکایک شائستہ اپنی دو بیٹیوں کے ہمراہ اسکی جانب بڑھیں تو اس نے چہرے پر بمشکل نرمی قائم رکھی۔۔ مسکراہٹ اب بھی مفقود ہی رہی۔۔

"ہیلو نازنین آپی۔۔ کیسی ہیں آپ۔۔؟ ماما بتارہی تھیں آپکے بارے میں ہمیں اینڈ او مائ گاڈ۔۔ یو آر لکنگ گارجیس!!"

عزازیل Where stories live. Discover now