قسط 14

58 7 3
                                    

وہ دونوں بنا پلک جھپکاۓ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ زاویار کی آنکھوں کا محظوظ سا تاثر۔۔۔ اور حرم کی چڑھی تیوری کا پتھریلا سا اثر۔۔ بس ان دونوں تاثرات کو وہ ہی نہیں دیکھ پائ تھی۔۔

"اوہ۔۔ زاویار۔۔ کیسے ہو تم۔۔؟"

"میں ٹھیک ہوں میڈم۔ آپ کیسی ہیں۔۔؟ "

حرم کی آنکھوں سے آنکھیں ہٹاۓ بغیر اس نے ہلکا سا مسکرا کر پوچھا تو نازنین نے ناسمجھی سے حرم کی جانب نگاہیں پھیریں۔۔

"کیا تم دونوں۔۔ ایک دوسرے کو جانتے ہو۔۔؟"

"نہیں۔۔"

"نہیں۔"

دونوں ایک ساتھ زور سے بولے تھے۔ وہ انکے ایک ساتھ تردید کرنے پر لمحے بھر کو حیران ہوئ تھی۔ پھر سر اثبات میں ہلا کر ان کی تردید گویا قبول کرلی۔

"اب جب آپ دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتے تو میں بتاتی چلوں کہ زاویار یہ حرم ہے۔ میرا کزن۔۔ اور حرم یہ زاویار ہے۔۔ میرا اسٹوڈنٹ۔۔ امید ہے کہ تم دونوں کو ایک دوسرے سے مل کر خوشی ہوئ ہوگی۔ ویسے بھی ہم عمر ہی ہو دونوں۔"

اس نے مسکرا کر کہتے ہوۓ ہاتھ بڑھا کر اپنا کارڈ بھی گلے میں ڈال لیا تھا۔ پھر اس کے نیلے اسٹریپ سے اپنے سیاہ بال نکالنے لگی۔ ساتھ ساتھ اس نے کتاب بھی اٹھالی تھی اور قلم تھامے گویا وہ اپنے کام کی جانب متوجہ ہونے کے لیے بالکل تیار لگ رہی تھی۔۔

"مجھے تو بے حد خوشی ہوئ ہے آپکے کزن سے مل کر لیکن شاید_ آپکے کزن کو میں کچھ خاص پسند نہیں آیا۔۔"

اسکی جانب سے پھینکے گۓ جملے پر نازنین نے اب کے جانچتی نگاہیں حرم کے چہرے پر ڈالی تھیں۔ وہ زبردستی مسکرایا۔ پھر ٹیبل پر رکھی مٹھی کھول دی۔

"نہیں! بالکل بھی ایسا نہیں ہے۔ مجھے آپکے اسٹوڈنٹ سے مل کر بہت خوشی ہوئ ہے نازنین۔"

"وہ تم سے بڑی ہیں تو تم ان کا نام کیوں لے رہے ہو؟"

پہلا اعتراض کیا گیا تھا۔ وہ بھی ماتھے پر بل ڈال کر۔ اور اس سے پہلے نازنین جواب دیتی اسے جواب دیا جاچکا تھا۔

"کیونکہ وہ میری کزن ہیں۔ ان کا مجھ سے جو رشتہ ہے وہ آپکے واجبی سے رشتے سے کہیں زیادہ پائیدار ہے۔ اسی لیے میں انہیں نام سے ہی پکارتا ہوں۔ رشتوں کی واضح لکیر میں سابقوں اور لاحقوں کی ضرورت ہرگز بھی نہیں رہتی۔"

"رشتوں کی واضح لکیر کھینچی ہی اسی لیے جاتی ہے تاکہ کوئ بھی غلط فہمی کا شکار نہ ہوسکے۔"

"اب تک تو کوئ بھی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوا۔ البتہ آپ کو دیکھ کر اس خیال پر مہر ثبت کی جاسکتی ہے۔۔"

وہ دونوں یوں بات کررہے تھے گویا وہاں تنہا بیٹھے ہوں۔ نازنین بار بار کوئ جواب دینے کے لیے لب کھولتی لیکن پھر ان دونوں کی حاضر جوابی پر اپنے کھلے لب بند کرلیتی۔ ایسا لگ تو نہیں رہا تھا کہ وہ ایک دوسرے سے پہلی دفعہ مل رہے ہوں۔ ان کی آس پاس کی فضا میں پھیلا تناؤ وہ بخوبی محسوس کرسکتی تھی۔

عزازیل Where stories live. Discover now