بائیسویں قسط

50 9 3
                                    

ان کی گاڑی سڑک پر تیزی کے ساتھ چرچراتی ہوئ گزر رہی تھی۔ زاویار نے بمشکل خون آلود ہاتھوں سے سارنگ کا نمبر ڈائل کیا لیکن پھر اسے بات کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ یکلخت ہی سڑک پر دائیں بائیں جانب سے دو سیاہ گاڑیاں ان کی گاڑی کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھنے لگی تھیں۔ نازنین نے گھبرا کر دونوں جانب دیکھا تو دھک سے رہ گئ۔ ان کی گاڑی دو گاڑیوں کے درمیان قید ہو کر رہ گئ تھی۔ زاویار البتہ حیران نہیں ہوا تھا۔ اسے غالباً اندازہ تھا کہ وہ دو لوگ نہیں ہونگے۔ حملے کے لیے کبھی بھی بیک اپ پلان کے بغیر افراد کو نہیں بھیجا جاتا۔ اسی لیے اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی سارنگ کا نمبر ڈائل کیا تھا۔ وہ اسے حرم کو مطلع کرنے کے لیے کہنے والا تھا۔ نازنین اور اپنے زخمی ہاتھ کے ساتھ وہ اکیلا کچھ بھی نہیں کرسکتا۔

"گاڑی تیز چلائیں۔۔"

اگلے ہی پل اس نے آس پاس تیزی سے گردن گھما کر دیکھتے ہوۓ نازنین کو بلند آواز سے کہا تو اس نے خشک پڑتے حلق سے تھوک نگل کر تیزی سے سر اثبات میں ہلایا۔ ڈیش بورڈ سے ایک سرخ مفلر نکال کر اس نے اسکا آدھا کپڑا چاک کیا اور پھر اسے اپنے زخمی بازو پر زور سے باندھا۔ تیزی سے بہتے خون کا رکنا بے حد ضروری تھا نہیں تو وہ جلد ہی ہوش کھو بیٹھتا۔ اگلے ہی پل اس نے سامنے رکھی پستول اٹھائ اور پھر کھڑکی سے باہر کو جھانکتے شیشے سے اس نے پچھلی گاڑی کی حرکات دیکھیں۔ اس کے بال ماتھے پر پسینے کے باعث چپک گۓ تھے اور سارا جسم اس سردی میں بھی پسینے سے بھر چکا تھا۔ لیکن وہ پھر بھی ڈرا ہوا نہیں لگ رہا تھا۔ اس کے اعصاب بہت مضبوط اور جابر تھے۔ ایک ہاتھ سے فون کان کے ساتھ لگاۓ دوسرے ہاتھ کو دروازے پر محتاط انداز سے رکھے وہ ہر حملے کے لیے تیار تھا۔

"سارنگ۔۔ سارنگ۔۔ حرم سے کہو ہم مرکزی شاہراہ پر دو گاڑیوں کے درمیان پھنس چکے ہیں۔ اسے کہو کہ فوراً سنسان علاقے کو جاتی سڑک پر ہماری کار کا پیچھا کرے۔۔"

آگے والے کی بات سنے بغیر اس نے فون کان سے ہٹا کر سامنے ڈالا تو نازنین حرم کے نام پر چونکی۔ اس نے بے یقین نگاہوں سے زاویار کی جانب دیکھا تھا۔

"حرم۔۔! کیا تم نے حرم کا نام لیا۔۔؟"

"آگے سے رائٹ لیں۔ جلدی۔۔" وہ سنسان شاہراہ جنگل کو جاتے راستے کی جانب نشاندہی کررہی تھی لیکن ابھی ان کے پاس پلٹ کر شہر کی طرف رُخ کرنے کا وقت نہیں تھا۔ نازنین نے ایکسلیریٹر پر دباؤ بڑھایا اور پھر ان کی گاڑی زن سے آگے بڑھ گئ۔ دو گاڑیاں ان سے کچھ فاصلے پر رہ گئ تھیں لیکن وہ بھی اسی تیزی کے ساتھ ان کی جانب بڑھ رہی تھیں۔

"یہ لوگ کون ہیں؟ ہم کہاں جارہے ہیں ؟ تم حرم کو کیوں بلارہے ہو ؟ یہ لوگ ہمارے پیچھے کیوں پڑے ہیں۔۔ ؟" اس نے اسٹیرنگ پر دونوں ہاتھ مار کر چلاتے ہوۓ کہا تو زاویار نے اسکی جانب دیکھا۔

"ابھی نہیں۔۔ ابھی کچھ نہیں۔۔" اسی پہر زاویار کی جانب سے وہ سیاہ کار پوری قوت سے ان کی گاڑی سے ٹکرائ تو ان کی کار بری طرح ڈول سی گئ۔ نازنین کے حواس جواب دے رہے تھے۔ اب کہ جھٹکا انہیں دوسری جانب سے لگا تھا۔ زاویار نے لبوں پر آتی کوئ گالی روکی تھی۔

عزازیل Where stories live. Discover now