قسط 19

90 8 4
                                    

ایک دن قبل۔۔
وہ شائستہ اور روحیلہ سے رشتے کی بابت گفتگو کر کے اوپر چلا آیا تھا۔ اس نے کمرے میں داخل ہونے سے قبل ایک بار رُخ پھیر کر ریلنگ سے نیچے جھانکا تھا۔ ان تین بے خبر نفوس کو دیکھ کر اسے کمینی سی مسرت کا احساس ہوا تھا۔
حیدر نقوی محض اس کا جاننے والا تھا۔ اس سے کوئ خاص لگاؤ اور گہری دوستی نہیں تھی اسکی۔ لیکن وہ بالکل شجاع کی عمر کا، کسرتی بدن والا بندہ تھا۔ سر کے بال آگے سے ذرا اڑے اڑے اور نقوش واجبی سے تھے۔ ایک پرفیکٹ میچ۔۔ ابیہا کے لیے۔۔ یہ بدلہ اس نے اسی دن طے کیا تھا جس دن اس نے ابیہا اور نینا کو نازنین کی حالت زار کا مزاق اڑاتے ہوا سنا تھا۔ یہ ایک بلاشبہ بہت بے رحم چال تھی۔ لیکن اسے ذرّہ بھر بھی افسوس نہیں تھا۔ ایسا تھا تو پھر ایسے ہی سہی۔۔
اسے اس لڑکی کی زندگی کے دائرہ کار سے ان لوگوں کو باہر نکالنا تھا۔ وہ انہیں ایک ایسا سبق دینا چاہتا تھا جو وہ چاہ کر بھی فراموش نہ کرپاتے۔ اس نے حیدر کو ساری تفصیلات سے آگاہ کردیا۔ وہ عورت جو اس کے ساتھ اس سارے قصے میں اسکی "بہن" بن کر نمودار ہوئ تھی، وہ بھی ایک اداکار ہی تھی۔ اس نے بھی ایسا ہی تماشہ لگانا تھا جیسا تماشہ شائستہ نے نازنین کے سامنے لگایا تھا۔ اور اس نے یہ سب روحیلہ اور سہیل کے سامنے انتہائ بے شرمی سے پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ انہیں، خاندان بھر کے سامنے ایک ایسی ذلت سے دوچار کرنا چاہتا تھا جو انہیں کبھی نہ بھولتی۔ لیکن پھر ایسا نہ ہوسکا۔ روحیلہ اور سہیل کو ایمرجنسی کے باعث آبائ گاؤں کی جانب سفر کرنا پڑا اور اسکے لائحہ عمل پر پہلی ضرب آلگی۔
دوسرا مسئلہ تھا نازنین کو اپنے گھر بلانا۔۔ وہ اسے کسی بھی طرح بس یہاں آنے پر راضی کرنا چاہتا تھا۔ لیکن وجہ۔۔ وجہ۔۔ وجہ۔۔
نازنین کے یہاں بلا جھجھک چلے آنے کی کیا وجہ ہوسکتی تھی بھلا؟ اور اگر کوئ ٹھوس وجہ نہیں تھی تو اسے وہ وجہ گھڑنی چاہیے تھی۔ اسے سہیل اور جاوید کے خوشگوار تعلقات کا علم روحیلہ کے ذریعے ہوچکا تھا۔ اسی لیے اس نے سہیل کو مزید کرید کر کچھ باتیں جاوید کے بارے میں برآمد کر ہی لیں۔ اسے جاوید کے ہاتھ سے لکھی گئی ڈائریز کی بابت سہیل سے کچھ ہلکا پھلکا معلوم ہوچکا تھا۔ باقی کام آسان تھا۔ اس نے پہلے سہیل کا وارڈاب چھان مارا۔ لیکن وہاں ایسی کوئ بھی شے موجود نہیں تھی۔ اگلی جگہ اسٹڈی ہوسکتی تھی۔ وہ ادھر چلا آیا اور ادھر حسبِ توقع اسے جاوید کی ڈائریز مل ہی گئیں۔ وہ اسے یونہی چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلا آیا تھا۔ اسے پہلے نازنین کو کال کر کے یہاں آنے پر آمادہ کرنا تھا۔ اور اسکے پاس وجہ بھی ایسی تھی کہ وہ چاہ کر بھی انکار نہ کرپاتی۔
نازنین کی جذباتی اور نفسیاتی حالت سمجھ کر اسے یہی ایک فائدہ ہوا تھا۔ کہ وہ اسے جیسے چاہتا ٹرک کرسکتا تھا۔ آخر کار اسکی محنت اسکے لیے فائدہ مند ثابت ہورہی تھی۔
اس نے جونہی فون نگاہوں کے سامنے کر کے نمبر ڈائل کرنا چاہا تو نازنین کالنگ اسکے موبائل کی چمکتی اسکرین پر جگمگانے لگا۔
وہ محتاط ہوگیا۔۔
لیکن وہ لڑکی شاید اپنے سزخت رویے پر شرمندگی محسوس کررہی تھی۔ چلو۔۔ اچھا ہی ہوا۔ قدرت نے گویا اسکے لیے راستہ خود ہی کھول دیا تھا۔ اب بس اسے کسی طرح نازنین کو یہاں تک آنے کے لیے قائل کرنا تھا۔ اور متوقع طور پر وہ جاوید کا نام سن کر اگلے ہی پل راضی بھی ہوگئ تھی۔
اس نے فون رکھا اور پھر لائبریری کی جانب چلا آیا۔ اسے نازنین سے پہلے ان ڈائریز کو پڑھنا تھا۔ وہ اسے ابھی کسی بھی حساس مواد تک رسائ دینے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔ کیونکہ نازنین فطرتاً چاہے کتنی بھی سنجیدہ اور سمجھدار ہوجاتی۔ اسکے جذباتی ردعمل دینے والی عادت بہر حال بہت کچھ بگاڑنے کا مؤجب بن سکتی تھی۔ اور ابھی۔۔ کسی بھی رسک کو لینے کا وقت نہیں تھا۔ ابھی تحقیق کا وقت تھا۔۔ اور انویسٹیگیشن بہت خاموشی سے کی جاتی ہے۔ اس پر نگاہیں پڑنے کے ساتھ ہی معاملات بگڑنے کا خدشہ ہوسکتا تھا۔
اس نے پہلی ڈائری میں کچھ بھی قابلِ اعتراض نہیں دیکھا۔ لیکن دوسری اور خستہ ڈائری نے اسکے ماتھے پر بل ضرور ڈال دیے تھے۔ اس ڈائری میں مبھم باتیں کی گئ تھیں۔
ادھر، نازنین کے ٹراما کے بعد کے حالات کو قلمبند کیا گیا تھا۔ رمیز اور شائستہ کے رویے۔۔ مبین کی تنبیہہ۔۔ طلحہ کی بغاوت۔۔ وہ یہ سب پڑھ کر حیران رہ گیا تھا۔ اس پر اس دن آشکار ہوا تھا کہ طلحہ نے کہاں سے اس تنظیم کو گلے لگایا تھا۔
لیکن پھر۔۔ مزید اس ڈائری میں کچھ بھی نہیں لکھا ہوا تھا۔ رمیز کا تناؤ تو بہر حال جاوید کو بھی ہر ایک کی طرح محسوس ہوا تھا لیکن مزید کسی بھی وجہ کا وجود وہاں موجود نہیں تھا۔ یعنی جاوید کو رمیز کی سرگرمیوں کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ ڈائری ایک ادھورے سے موڑ پر ٹھہر گئ تھی۔ گویا جاوید کو مزید لکھنے کا موقع ہی نہ دیا گیا ہو۔
اس نے ڈائری کے اگلے پچھلے صفحات الٹے اور پھر حیرت سے ایک جگہ ٹھہر سا گیا۔
ایک جگہ۔۔ کسی کے نمودار ہونے کی پیشن گوئ کی گئ تھی۔۔ اور ان الفاظ پر خون کے بہت سے قطرے گرے ہوۓ تھے۔ وہ قطرے خشک ہوچکے تھے۔ یعنی جاوید نے وہ انتہائ کرب ناک حالت میں لکھا تھا۔۔
کس کے نمودار ہونے کی بات کی جارہی تھی بھلا؟ کیا جاوید نے کسی کو نازنین کی حفاظت کا کہا تھا؟ کیا یہ وہی شخص تھا جس نے طالوت کو اسے اسائنمنٹ دینے کا حکم دیا تھا؟؟؟
اور اسے لگا گویا اسکے سر پر آسمان گھوم رہا ہو۔ جاوید اس ایک۔۔ بندے کو جانتا تھا۔۔ جاوید نے اپنی جائیداد اس پہیلی کے سپرد اسی لیے کی تھی تاکہ۔۔ وہ۔۔ حرم۔۔ اپنے متوقع وقت پر نمودار ہو کر اس پہیلی کو سلجھاۓ۔۔ یعنی وہ گھوسٹ بھی اس پہیلی سے واقف تھا۔
اس پر بہت کچھ ہی لمحوں میں آشکار ہوگیا تھا۔ جاوید اور وہ گھوسٹ ایک دوسرے کو اگر جانتے تھے تو یہ بات واضح تھی کہ طالوت کو اسے خاص موقع پر کام دینے کا کیوں کہا گیا تھا۔۔
اس نے ڈائری کا وہ خون آلود صفحہ ویسے ہی رہنا دیا۔ وہ نازنین کو چونکانا چاہتا تھا۔ ابھی وہ ڈائری کو بند کر کے ایک جانب رکھنے ہی لگا تھا کہ ٹھہر سا گیا۔ اسکے کتھئ سے موٹے لیکن خستہ گتے کے اوپر کچھ لکھا ہوا تھا۔ مٹا مٹا سا کوئ نام۔۔ اس نے آنکھیں سکیڑ کر ان مٹے الفاظ کو پڑھنا چاہا۔۔
وہ دو لفظ تھے"١٦ صدی۔" اس نے ناسمجھی سے ان الفاظ کو دہرایا لیکن کچھ بھی واضح نہ ہوسکا۔ جب لفظ کا معمہ اس سے حل نہ ہوسکا تو اس نے ڈائری ایک جانب ڈالی اور پھر باہر چلا آیا۔ ایک آخری کام بچا تھا۔۔ وجدان سے بات کرنے کا کام۔۔
رشتے والے دن نازنین اور شائستہ کے درمیان کا مکالمہ محض وجدان ہی بتا سکتا تھا۔
اور پھر اس نے ہر جملہ ازبر کر کے اگلے دن پوری قوقت سے شائستہ کے چہرے پر دے مارا تھا۔۔!
********
ان دونوں کے درمیان برف جیسا سفر موجود تھا۔ یخ، بے جان اور ہر قسم کے رحم سے خالی۔۔
اسکی سرخ آنکھوں سے کئ آنسو ٹوٹ کر قدموں میں سجدہ ریز ہوگۓ تھے۔ پھر وہ ابلتی ہچکیوں کو منہ پر ہاتھ رکھ کر قابو کرتی دوبارہ لائبریری کے اندر بھاگی تھی۔ حرم آہستگی سے قدم اٹھاتا اسکے پیچھے چلا آیا۔ وہ اب کپکپاتے ہاتھوں کے ساتھ جلدی جلدی اپنا پرس اٹھارہی تھی۔ اسکا سارا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔
حرم لائبریری کے دروازے ہی میں چند پل ٹھہرا رہا تھا۔ پھر آگے بڑھ آیا۔۔

عزازیل Where stories live. Discover now