قسط 23 (Part 2)

30 6 1
                                    

کلینک میں وہ سب۔۔ ایک ساتھ۔۔ آگے پیچھے ہی کھڑے تھے۔ نازنین نے پلٹ کر پہلے زاویار کی جانب دیکھا اور پھر اسکی نگاہوں نے حرم تک سفر کیا۔ اگلے کئ لمحات میں کلینک کے دروازے پر "کلوزڈ" کا بورڈ آویزاں کردیا گیا تھا۔ وہ اب ایک دوسرے کے آمنے سامنے صوفوں پر براجمان تھے۔ سب کے پاس یہاں آنے کی الگ الگ وجوہات تھیں۔ نازنین، سارنگ سے۔۔ حرم اور زاویار کے متعلق بات کرنے آئ تھی۔ کیونکہ اسے غیر جانبداری کے ساتھ یہ باتیں صرف سارنگ ہی بتا سکتا تھا۔ دوسری جانب زاویار حملہ آوروں کی تفتیشی رپورٹس لیے اسکے کلینک تک آیا تھا۔ اور حرم اس سے ڈاکٹر کی رپورٹ کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔ سارنگ بدر کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ ان سب کی زندگیوں میں آناً فاناً ہی اہم ہوگیا تھا۔
وہ سب صوفوں پر براجمان تھے لیکن حرم ان سب سے دور سارنگ کے ورکنگ ٹیبل پر بیٹھا اسکے لیپ ٹاپ استعمال کررہا تھا۔
دوسری جانب سارنگ بیچاری سی شکل بناۓ کبھی ایک کو تکتا تو کبھی دوسرے کو۔۔ نازنین نے اسے نہیں بتایا تھا کہ وہ یہاں کیوں آئ تھی۔ وہ سب کے سامنے سارنگ سے یہ بات نہیں کہنا چاہتی تھی۔ زاویار گردن جھکاۓ سنجیدگی سے فائلز کی ورق گردانی کرنے میں مصروف دکھائ دے رہا تھا اور ثانیہ، نازنین سے باتیں کررہی تھی۔

"تم یہاں کیا کررہی ہو ثانی؟"

"میں اپنے پپی کے لیے ڈاکٹر صاحب سے بات کرنے آئ تھی، نازنین آپی۔ وہ کچھ بیمار ہوگیا ہے۔" اس نے ساتھ ہی سارنگ کی جانب بھی دیکھا تو اس نے سمجھ کر سر اثبات میں ہلایا۔ یقیناً وہ یہاں اپنے آنے کی وجہ کسی کو بھی نہیں بتانا چاہتی تھی۔ نازنین نے ان دونوں کی نگاہوں کے تبادلے کو بغور دیکھا مگر کچھ بھی کہے بغیر سمجھ کر سر ہلادیا۔ ثانیہ کی نگاہ اسکی پیشانی پر لگی سفید پٹی پر ٹھہر سی گئ۔۔

"آپکو۔۔ یہ چوٹ کیسے لگی۔۔؟"

اسکے سوال پر زاویار کے ورق گردانی کرتے ہاتھ لمحے بھر کو تھم سے گۓ تھے۔ اس نے چہرہ یونہی اٹھا کر دیکھا تو نگاہ سیدھا نازنین پر پھسلی۔ سفید لباس میں اسکی سرخ و سفید رنگت دمک رہی تھی۔ سیاہ خوبصورت آنکھیں ثانیہ کے سوال پر ہلکا سا مسکرائیں تو زاویار نے اپنی نگاہیں بے ساختہ ہی پھیریں۔ وہ اب پھر سے فائلز کو دیکھ رہا تھا۔۔ لیکن سماعت نازنین کے جواب پر ہی لگی تھی۔۔

"یونی میں مجھ پر حملہ ہوگیا تھا۔" آرام سے کہا تو زاویار نے اب کہ چونک کر چہرہ اٹھایا تھا۔ اسکا چونکنا نازنین نے محسوس کرلیا تھا۔ سارنگ بھی نازنین کو ہی تک رہا تھا۔ شاید وہ دونوں اس سے۔۔ اتنے صاف جواب کی توقع نہیں کررہے تھے۔

"کیا۔۔! کیوں۔۔ کیسے۔۔؟ کس نے کروایا حملہ۔۔؟" ثانیہ کی پریشانی بہت بے ساختہ تھی۔ نازنین نے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسے شانت رہنے کا اشارہ کیا لیکن وہ خوفزدہ ہوگئ تھی۔

"آپکو ۔۔ کہیں اور تو نہیں لگی۔۔؟ ایسے کیسے حملہ ہوسکتا ہے۔۔!"

"میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ایک فائٹر ٹرینر نے مجھے بچالیا تھا۔" مزے سے کہا تو زاویار نے اب کہ سر نہیں اٹھایا۔ اسے نازنین کی آواز میں ہلکی سی شرارت محسوس ہوئ تھی۔

عزازیل Onde histórias criam vida. Descubra agora