اکیسویں قسط

52 8 1
                                    

اسے وجدان کو کچھ دکھانا تھا لیکن وہ اسے دکھا نہیں سکی۔ اس آدمی کی زبان سے ایسی باتیں سن کر اسکے اندر کہیں تکلیف گہری ہونے لگی تھی۔ وہ واپس اپنے کمرے میں چلی آئ۔ ہاتھ میں تھامی کتاب بیڈ پر رکھ دی اور پھر خاموشی سے اپنا سر پیچھے کو ٹکا کر بیٹھ گئ۔ گھٹنے سمیٹ کر سینے سے لگا لیے۔ جوڑے میں بندھے بال اور ان سے نکلتی ریشمی لٹیں چہرے پر گر رہی تھیں۔ آسمانی رنگ کے لباس پر نرم سا گھٹنوں تک آتا سفید سوئٹر بھی اسے گرم رکھنے میں ناکافی ثابت ہورہا تھا۔
جاوید کی اذیت ناک موت یاد کر کے اسکی ناک سرخ پڑنے لگی تھی۔ آنکھوں میں نہ چاہتے ہوۓ بھی بہت سے آنسو جمع ہونے لگے۔ ان کی لکھی گئ ڈائیریز کو بارہا پڑھنے کے بعد وہ اس کے ہر ہر لفظ کو حفظ کرچکی تھی۔ ان ڈائیریز کا خیال آتے ہی اسے حرم کا خیال آیا تھا۔ اس دن کے بعد اس نے دوبارہ کوئ بھی رابطہ رکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ شاید وہ بھی پیچھے ہٹ گیا تھا۔
اسکے دل سے بوجھ سرکنے لگا۔ وہ اسے اپنی وجہ سے کسی بھی مصیبت کا حصہ بنتے ہوۓ نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ بہتر یہی تھا کہ وہ اب کبھی بھی اسکے سامنے نہ آتا۔ اور زاویار۔۔ وہ بھی تو دوبارہ اسے یونی میں دکھائ نہیں دیا تھا۔ جانے وہ کہاں تھا؟ کہیں روبینہ خالہ کا طبیعت تو ناساز نہیں تھی۔
ان کا خیال آتے ہی اسے یکدم زاویار کی فکر ہونے لگی تھی۔ سائیڈ ٹیبل پر رکھا موبائل اٹھا کر اس نے نگاہوں کے سامنے کیا اور پھر بنا کچھ سوچے زاویار کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔ ایک ہفتے کی چھٹی بہت زیادہ تھی۔۔ شاید وہ واقعی بیمار ہوں۔۔
اگلی گھنٹی پر ہی اسکا فون اٹھا لیا گیا تھا۔

"کیسے ہو زاویار۔۔؟ روبی خالہ کی طبیعت کیسی ہے؟" اس نے چھوٹتے ہی سوال کیا تو وہ دوسری جانب حیران ہوا۔

"یہاں سب خیریت ہے، میڈم۔ آپ کیوں پریشان ہورہی ہیں؟"

"اوہ۔۔ تھینک گاڈ۔ تم یونیورسٹی کیوں نہیں آرہے ایک ہفتے سے؟ جانتے بھی ہو کتنا نقصان ہوچکا ہے تمہارا۔" اب کہ اسکی آواز میں سختی سی ہلکورے لینے لگی تھی۔ زاویار اسکی ڈانٹ پر کچھ بول نہیں سکا۔

"مصروف رہا تھا پچھلے دنوں اسی لیے نہیں آسکا۔"

"یہ کوئ بہانہ نہیں ہے اپنی پڑھائ سے رُخ پھیرنے کا۔ غیر ذمہ داری تمہارے کیریر کے لیے بہت مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔"

"مہلک تو کچھ اور بھی ثابت ہورہا ہے، میڈم۔۔" اسکے جواب پر نازنین کے ابرو ناسمجھی سے سکڑے تھے۔

"کیا مطلب ہے اس مبھم اور نا سمجھ میں آنے والے جواب کا۔۔؟" اسکے لتاڑنے پر وہ دوسری جانب ہنس دیا تھا۔

"مجھے یقین ہے کہ جتنا نقصان میرا ہوچکا ہے آپ اسے بھرنے میں میرا بھرپور ساتھ دیں گی۔۔؟"

"بالکل۔۔ بھی نہیں۔ خود بیٹھ کر پڑھائ کرو اور خبردار جو میرے پاس تم اپنے نقصان کی شکایت لے کر آۓ تو۔"

"آپ پہلے پریشان ہو کر مجھے پریشان کررہی ہیں پھر اس پریشانی کے حل کے لیے میرا ساتھ بھی نہیں دے رہیں۔ انگریزی ادب کی استانی ہو کر بھی اتنی سخت کیسے ہوسکتی ہیں آپ؟"

عزازیل Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon