عزازیل

By khanamrabia

3K 411 141

موت کے درمیان جھولتی زندگیوں کی کہانی! More

قسط 1
قسط 2
قسط 3
قسط 4
قسط 5
قسط 6
قسط 6 بقیہ حصہ
قسط 7
قسط 7 بقیہ حصہ
قسط 8
قسط 9
قسط 10
قسط 10 کا بقیہ حصہ
قسط 11
قسط 11 بقیہ حصہ
قسط 12
قسط 12 کا بقیہ حصہ
قسط 13
قسط 13 کا بقیہ حصہ
قسط 14
قسط 15
قسط 16
قسط 16 بقیہ حصہ
قسط 17
قسط 18
قسط 18 پارٹ 2
قسط 18 پارٹ 3
قسط 19
بیسویں قسط
اکیسویں قسط
بائیسویں قسط
قسط 22 پارٹ 2
قسط 23
قسط 23 (Part 2)
قسط 24
قسط 24 (پارٹ 2)
قسط 25
قسط 27
قسط 28
قسط 29
قسط 30
قسط 31
قسط 32
قسط 33
قسط 34
قسط 35
قسط 36 پارٹ 1
قسط 36
آخری قسط
آخری قسط

قسط 26

47 7 1
By khanamrabia

زاویار نے وجدان کو چھوڑنے کے بعد، نازنین کے گھر کا رُخ کیا تھا۔ چند لمحات کی ڈرائیو کے بعد وہ اس سرخ اینٹوں سے بنے گھر کے سامنے اپنی گاڑی روک رہا تھا۔ پھر دروازہ دھکیل کر اندر چلا آیا۔۔ داخلی روش پر ہی بہت سی کتب گری ہوئ تھیں۔ وہ جھکا اور پھر ان کتابوں کو اٹھا لیا۔ گھر کی ابتر حالت کو بغور دیکھتا وہ آگے بڑھ آیا تھا۔ وہاں گویا کوئ عذاب سا گزر گیا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر کمرے کے ٹوٹے دروازے کی جانب دیکھا۔۔ تو ایک پل کو گہرا سانس لیا۔۔ جانے وہ کتنی خوفزدہ ہوئ ہوگی۔۔ اس نے کتابیں نازنین کے بیڈ پر رکھیں اور پھر برآمدے میں آنکلا۔ جب کچھ بھی قابلِ غور اسے محسوس نہیں ہوا تو وہ، برآمدے کے دو زینوں پر اتر آیا۔
پھر جینز کی جیب میں اڑسا فون نکال کر نگاہوں کے سامنے کیا۔۔ اب وہ فون کان سے لگاۓ، داخلی دروازے کی جانب بڑھ رہا تھا۔
احمد جو اپنے آفس میں براجمان تھا، لمحے بھر کو اپنے بجتے موبائل کی جانب متوجہ ہوا۔ وہاں زاویار لکھا جگمگا رہا تھا۔ اس نے اگلے ہی پل فون اٹھالیا تھا۔
"رمیز کا دماغ درست ہے۔۔؟!"

"اتنی حساس باتیں تم فون پر نہیں کرسکتے۔" احمد نے اسے اسکی لاپرواہی پر ٹوکا تھا۔ جیسے زاویار نے اسکے ٹوکنے پر۔۔ اسکی بات مان ہی لینی تھی۔

"میں اس سے کہیں زیادہ حساس باتیں رمیز کے منہ پر بھی کرسکتا ہوں۔۔"
احمد نے اسکے انداز پر گہرا سانس لیا تھا۔ پھر سر جھٹک کر فون کو کان کے ساتھ کچھ اور جمایا۔

"مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ نازنین کو یوں ٹرمینیٹ کردے گا۔۔"

"ٹرمینیٹ۔۔! وہ انہیں مارنے کے لیے بندے تک بھیج چکا تھا۔ اتنا اجنبی سا ردعمل دینا تم جیسے انسان کو جچتا نہیں ہے۔"

وہ لاپرواہی سے کہہ رہا تھا لیکن احمد اسکی بات پر بری طرح چونک کر سیدھا ہو بیٹھا تھا۔ پھر آنکھیں محتاط انداز میں سکڑ گئیں۔۔ اسکی نگاہیں اپنے آفس کے بند دروازے پر جم گئ تھیں۔

"کونسا حملہ۔۔؟"

"اچھا۔۔! تو اب تمہارا وہ گاڈ فادر تم سے راز بھی رکھنے لگا ہے۔ مجھے تو لگا تھا کہ تم اس کے خاصے قریبی اور اہم بندے ہو۔۔ لیکن نہیں۔ تم بھی اسکے لیے کسی پپٹ سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔۔" اس نے کہتے کے ساتھ ہی ٹھک سے فون رکھا تو وہ حیران سا فون کان سے ہٹا گیا۔ رمیز نے اسے نازنین پر حالیہ حملے کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ اس نے موبائل سامنے میز پر ڈالا اور پھر اپنی کرسی پر پیچھے ہو بیٹھا۔ اسکی پیشانی پر بہت سے بلوں کا اضافہ ہوگیا تھا اور نگاہیں بہت کچھ سمجھ کر۔۔ اب سخت سی محسوس ہورہی تھیں۔ اسے رمیز کا انداز پہلے ہی کچھ حد تک خاصہ مختلف محسوس ہورہا تھا لیکن وہ نہیں جانتا تھا۔۔ کہ وہ اپنے مخصوص کاموں کے لیے۔۔ اسکے علاوہ کسی اور کی جانب رُخ پھیرنے لگا تھا۔
وہ اپنے آفس سے اٹھ آیا۔۔ ایک ہاتھ میں روالور بھی تھام رکھا تھا۔ اسکی پیشانی پر پسینہ ابھرا ہوا تھا اور وہ داخلی دروازہ پار کر کے اپنی کار کی جانب بڑھ آیا تھا۔ کچھ تھا جو ہر گزرتے لمحے میں۔۔ اسکی گردن کے گرد لگے پھندے کو کستا جارہا تھا۔۔
رمیز نے اپنی گلاس وال سے احمد کو خاموشی کے ساتھ جاتے ہوۓ دیکھا تھا۔ ایک ایک کر کے۔۔ سب اسکا ساتھ چھوڑتے جارہے تھے اور وہ اس بھری سیاہ دنیا میں تنہا ہوتا جارہا تھا۔ لیکن وہ ڈوبنے والوں میں سے نہیں تھا۔ وہ ڈوب نہیں سکتا تھا۔۔ ڈوبنا اسکے لیے آپشن نہیں تھا۔۔ اسکے پاس ایک ہی آپشن تھا۔۔ اور وہ تھا۔۔ سروائیو کرنا۔۔ زندہ رہنا۔۔ جس کے لیے وہ اس روۓ زمین پر موجود ہر ذی روح کی روح قبض کرسکتا تھا۔ کیونکہ جینے کی چاہ نشہ آور ہوتی ہے۔ یہ بڑھتی ہے اور بڑھتی ہی جاتی ہے۔۔
*********
زاویار نے جمے دانتوں کے ساتھ فون کان سے ہٹایا اور پھر اپنی کار کی جانب بڑھ آیا۔ اگلے کئ لمحات میں وہ سارنگ کے کلینک میں پچھلے دروازے سے داخل ہورہا تھا۔ پچھلے دروازے کی چابی اسے سارنگ نے ہی دی تھی۔ ایسی ایک چابی حرم کے پاس بھی موجود تھی۔ وہ دبے قدموں تاریک پڑے اسٹوڈیو کی جانب بڑھ آیا تھا۔ پھر لائٹ بورڈ پر ہاتھ مارا تو کمرہ روشن ہوگیا۔۔ ٹیبل کے گرد لگی کرسیوں میں سے ایک گھسیٹ کر وہ بیٹھنے ہی لگا تھا کہ۔۔ دور وائٹ بورڈ پر کچھ لکھا دیکھ کر بیٹھتے بیٹھتے۔۔ ٹھہر سا گیا۔۔
پھر اٹھ کر اس بورڈ کے قریب چلا آیا۔ وہ اس لکھائ کو پہچانتا تھا۔۔ یہ حرم کی لکھائ تھی۔ اس نے خالی چہرے کے ساتھ ساری تفصیلات پر سرسری سی نگاہ ڈالی اور پھر بورڈ کے ساتھ لگے میز پر۔۔ دھری فائل اٹھالی۔ اس نے ابھی فائل کھولی ہی تھی۔۔ کہ اس میں رکھی چند رپورٹس زمین پر گر پڑیں۔ وہ چونکا۔۔ پھر جھک کر رپورٹس ہاتھ میں لیں۔۔ آہستگی سے سیدھے ہوتے ہوۓ اسکے نقوش میں گھلا ہر تاثر زائل ہوتا گیا۔
ابھی اسکی نگاہیں تیزی کے ساتھ رپورٹ میں موجود تفصیلات کو اسکین کرنے ہی لگی تھیں کہ اسے اپنی گردن پر پستول کی ٹھنڈی نال محسوس ہوئ تھی۔ وہ ساکت ہوگیا۔۔ سانس تک روک لیا۔۔ ہاتھ میں تھامی رپورٹس اگلے ہی پل نیچے کیں اور جونہی تیزی سے گھوم کر سامنے والے پر مکا تانا تو ٹھہر سا گیا۔۔ وہاں حرم کھڑا تھا۔۔ سر پر کیپ پہنے۔۔ بالکل۔۔ اسکے برابر۔۔
وہ دونوں جینز پر سیاہ جیکٹس پہنے ہوۓ تھے اور ان کے چہرے، کیپ آگے ہونے کے وجہ سے خاصے چھپ گۓ تھے۔ اس نے اپنا ہاتھ اسکی گردن سے ہٹالیا تھا اور وہ بھی اسے دیکھ کر حیران ہوا تھا۔

"اس وقت یہاں کیا کررہے ہو تم۔۔؟ اور ہماری اجازت کے بغیر تم نے رپورٹس کو ہاتھ کیسے لگایا۔۔؟" وہ سختی سے پوچھ رہا تھا۔ زاویار نے اسے استھزاء سا مسکرا کر دیکھا تھا۔

"کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں نے پہلے کبھی۔۔ چیزوں کو ہاتھ لگانے سے قبل اجازت لی ہوگی۔۔!" حرم نے اسے پوری قوت کے ساتھ دیوار سے لگایا تھا۔ اسکے بازو میں تکلیف اب تک موجود تھی اور حرم نے اس کے اسی زخمی حصے پر زور دے کر اسے دیوار سے لگا رکھا تھا۔

"کتنا جانتے ہو تم۔۔؟"

"بالکل اتنا ہی جتنا تم جانتے ہو۔۔" اس نے حرم کا زخمی ہاتھ دیکھا تو اسے پوری قوت سے اسی ہاتھ سے پکڑ کر مروڑا۔۔ وہ کرّاہ کر پیچھے ہوا تھا۔ خون جو بمشکل رکا تھا وہ پھر سے ہتھیلی کو سرخ کرنے لگا۔

"تمہارا باپ۔۔ دشمنوں کی صف میں شامل ہے۔ میں تم پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔ ابھی کہ ابھی رپورٹس رکھو اور یہاں سے دفع ہوجاؤ۔۔" وہ دو قدم قریب چلا آیا تھا۔ پھر اسے بے تاثر نگاہوں کے ساتھ پلٹ جانے کو کہا تو زاویار کی آنکھوں میں کچھ زخمی سا چمکنے لگا۔۔

"میرے پرسنلز کو درمیان میں مت لاؤ، حرم۔۔" اس نے اسے تنبیہہ کی تھی۔ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے وہ دونوں ہی غصے میں تھے۔

"جب تم خود کو بیچ میں لاۓ ہو تو تمہارے پرسنلز بھی درمیان میں لاۓ جائیں گے۔ احمد کے ساتھ مل کر کیا کرنا چاہتے ہو تم۔۔؟ میرے پلانز کے درمیان اگر تم نے آنے کی کوشش بھی کی۔۔ تو تمہاری موت میرے ہاتھوں ہوگی۔"

"تمہارے پلانز۔۔!" وہ اسکی بات دہرا کر ہنسا تھا۔ حرم اسکی ہنسی کو ناسمجھی سے دیکھنے لگا۔ پھر آگے بڑھ کر اسکا گریبان جکڑا۔ اسکی بھوری آنکھیں زاویار کے اندر تک اتر رہی تھیں۔

"کیا حقیقت ہے تمہارے پلانز کی۔۔؟ انویسٹرز کے قتل کی تفتیش کرنا۔۔ نازنین کو حملوں سے بچانا۔۔ اور یہ رپورٹس۔۔ مبین اور جاوید کے قتل کو ثابت کرتی ہیں۔ اس سے زیادہ کیا کروگے تم رمیز کے مقابلے میں۔۔؟ زیرو کو روک سکو گے۔۔؟" اس کے سوال پر حرم کی آنکھیں سپاٹ ہی رہیں۔ وہ اسے کوئ جواب نہیں دینا چاہتا تھا۔ وہ اس سے نفرت کرتا تھا۔

"ہوسکتا ہے کہ۔۔ ان انویسٹرز کو تم نے ہی قتل کیا ہو۔۔! کیوں۔۔ کیا تم قتل کے وقت۔۔ قتل گاہوں کے آس پاس ہی موجود نہیں تھے۔۔؟" وہ اسکی آنکھوں میں جھانک کر آہستہ سے بولا تو زاویار کے چہرے سے اگلے ہی پل رنگ اڑا۔۔ اسکی آنکھیں سخت ہوگئ تھیں۔

"اور میں تو تم پر زیرو ہونے کا الزام بھی عائد کرسکتا ہوں لیکن افسوس۔۔ کہ تم گنز کے ساتھ اتنے اچھے نہیں ہو۔ نازنین کو اگر تمہاری ایسی حرکتوں کی بھنک بھی پڑجاتی تو وہ دوبارہ تمہاری شکل تک دیکھنا گوارہ نہیں کرتیں۔ اور۔۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ یہ سچ بھی ہوتا یا نہیں۔۔ کیونکہ ایک دنیا جانتی ہے کہ میں جھوٹ کو سچ کیسے ثابت کرتا ہوں۔۔!"

اسے پتا تھا کہ اس نے زاویار کو اپنے ہی الفاظ سے گھائل کردیا تھا۔ وہ بالکل خالی آنکھوں سے حرم کا چہرہ تک رہا تھا۔ پھر اسکے ہاتھوں کو اپنے گریبان سے بری طرح جھٹکا۔۔

"تم اگر انہیں پسند کرتے ہو تو۔۔ شادی کیوں نہیں کرلیتے ان سے۔۔؟ یہ طریقہ انہیں محفوظ رکھے گا اور تمہارا وہ سو کالڈ وعدہ بھی پورا ہوجاۓ گا۔۔" اس نے اپنی بات جاری رکھنا چاہی لیکن حرم کی جانب سے پڑے مکے پر اسکا چہرہ گھوم کر رہ گیا تھا۔ اسے پتا تھا کہ وہ نازنین سے شادی کرنے پر کبھی راضی نہیں ہوگا۔ اسی لیے وہ اس سے۔۔ اسکا پلان اگلوانا چاہتا تھا۔ کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ حرم مزید کیا کرنے والا تھا۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ وہ آخر کس بساط پر کونسی چال چلنے والا تھا۔

"افسوس ہے مجھے کہ کبھی۔۔ میں تمہارا دوست رہا ہوں۔۔" اس نے ہلکی سی آواز میں کہا اور پھر روالور کو جیب میں اڑستا باہر کی جانب بڑھ گیا۔ زاویار اسکے جاتے ہی اپنا زخمی بازو دبانے لگا تھا۔ شاید اسکا زخم دباؤ کی وجہ سے کھل گیا تھا کیونکہ اسے اپنی جیکٹ کی آستین نم سی محسوس ہورہی تھی۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھا کر دیکھا تو وہاں خون کی باریک سی لکیر دکھائ دی۔
باہر حرم نے اپنے ہاتھ پر بندھی پٹی اتار کر گلی میں موجود ڈسٹ بن میں ڈال دی تھی۔ پھر سڑک کے کنارے پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔ سڑک رات کے اس پہر بالکل سنسان تھی۔ کہر برساتی راتوں میں تو ویسے بھی کسی انسانی ذات کا ادراک نہیں ہوا کرتا تھا۔ وہ آہستہ سے اپنی جگہ سے اٹھ آیا تھا۔ پیچھے زاویار اب تک زمین پر بکھری ان رپورٹس کو تک رہا تھا۔
********
وجدان نے اسے سر سے پیر تک کئ دفعہ دیکھا تھا۔ تاکہ وہ اسکے اندیکھے زخموں کی تشخیص کرسکے۔ لیکن صد شکر کہ حرم نے اسے وقت پر بچالیا تھا۔۔ وجدان کو حرم نے اپنے ہی کمرے میں سونے کا کہہ دیا تھا اسی لیے وہ مزید سوال جواب کیے بغیر۔۔ اسکے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔ نازنین کو ثانیہ اپنے کمرے میں لے آئ تھی۔۔ صوفیہ کا کمرہ روحیلہ پہلے ہی درست کرواچکی تھیں۔۔ کیونکہ وہ یہاں کچھ عرصے کے لیے عدیل کی شادی تک رہنے آئ تھیں۔ انہیں نہیں معلوم تھا کہ اب یہ ٹھکانہ مستقل ہوچکا تھا۔
نازنین کے ساتھ دراز ثانیہ کروٹ لیے سو رہی تھی۔ گھڑی رات کے تین بجارہی تھی۔ وہ کھلی آنکھوں سے کمرے میں روشن مدھم روشنی تلے، چھت کو تک رہی تھی۔ بار بار پچھلا منظر اسکی نگاہوں کے سامنے لہرانے لگتا تھا۔ وہ آنکھیں میچ کر کئ بار اس منظر کو جھٹک چکی تھی۔۔ لیکن وہ تیز دھار چُھرا۔۔ خون۔۔ نقاب پوش۔۔ سنہری تتلی۔۔ اسکی گردن پر موجود لمس اگلے ہی پل سلگنے لگا تھا۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر اپنی گردن پر پھیرا۔ بہت کچھ گردن کے اس مخصوص حصے کو چھوتے ہی اسے یاد آجایا کرتا تھا۔ وہ بستر پر اٹھ بیٹھی۔ چہرہ پھیر کر ثانیہ کو دیکھا اور پھر کمرے میں موجود بالکنی کے بند دروازے کو۔۔ اگلے ہی پل اب وہ بالکنی کا دروازہ وا کیے۔۔ ٹھنڈی ہوا میں کھڑی تھی۔ اسے خنک ہوا میں اپنا جسم سرد پڑتا محسوس ہورہا تھا لیکن وہ پھر بھی کھڑی رہی۔ اندر بڑھتی گھٹن ایک اسی طرح کم ہوسکتی تھی۔
ہوا سے اسکے کھلے بال مستقل لہرا رہے تھے۔ پھر وہ آہستگی سے ٹھنڈی پڑتی بالکنی کی گرل کے ساتھ بیٹھ گئ۔ کمر دیوار سے ٹکا لی اور گھٹنے سمیٹ کر سینے سے لگا لیے۔ ہاتھوں کو گھٹنوں کے گرد لپیٹے وہ اپنا رخسار گھٹنے پر رکھ چکی تھی۔ آسمان بادلوں سے ڈھکا تھا اور ٹھنڈی ہوا لمحہ بہ لمحہ اسے سرسراتی ہوئ گزر رہی تھی۔
حرم گھر میں داخل ہوا اور پھر ایک نگاہ خاموش پڑے لاؤنج پر ڈالی۔ وہ بنا چاپ پیدا کیے آگے بڑھ آیا تھا۔ اپنے کمرے کی جانب بڑھنے کے بجاۓ اس نے اپنے قدموں کا رُخ ثانیہ کے کمرے کی جانب پھیرا تھا۔۔ لیکن بستر پر محض ثانیہ ہی دراز تھی۔ وہ جلدی سے آگے بڑھ آیا۔۔ ڈریسنگ روم کا دروازہ وا تھا اور اندر کوئ بھی موجود نہیں تھا۔ اسکا سانس ٹھہر گیا۔۔ لیکن جونہی وہ کمرے کی بتی روشن کرنے کے لیے آگے بڑھا تو اسے بالکنی میں اکڑوں بیٹھا دیکھ کر ٹھہر سا گیا۔۔ وہ شاید سو چکی تھی۔۔ اسکے کھلے سیاہ بال، ٹھنڈے فرش پر بکھرے تھے۔ وہ گہرا سانس لے کر چند پل وہیں کھڑا رہا اور پھر بالکل خاموشی سے آگے بڑھ آیا۔ اسے گردن جھکا کر دیکھا لیکن وہ واقعی سو رہی تھی۔ وہ بالکنی کے دروازے سے لگ کر بالکل خاموشی سے بیٹھ گیا۔ وہ سو رہی تھی اور حرم چہرہ پھیرے اسے تک رہا تھا۔۔ پھر اس نے اپنا سر دروازے سے ٹکادیا۔۔ وہ دونوں ٹھنڈی ہوا میں برف کے مجسمے بنتے جارہے تھے۔
اسے نازنین کی تکلیف اور اسکے کرب کا اندازہ تھا۔ اسکا ٹراما آج تک زندہ تھا، یہ بات اس پر عیاں تھی۔ وہ راتوں کو خوابوں سے ڈر کر اٹھتی تھی۔۔ وجدان اسے بتا چکا تھا۔ نازنین نے اپنے ٹراما کو پراسس نہیں کیا تھا اور اب وہ اسکی رگوں میں رچ بس گیا تھا۔ ٹراما۔۔ پراسس کرنے سے ختم ہوتا ہے۔ یہ سامنہ کرنے سے مٹتا ہے۔ اگر اس کا سامنہ نہ کیا جاۓ تو وہ ہمیشہ کے لیے ہمارے دماغ کے خلیوں میں قید ہوجاتا ہے۔ اسے اپنے اندر سے باہر نکالنے کے لیے ہی تھراپیز لینی پڑتی ہیں۔ یہ الفاظ نازنین کے ماہرِ نفسیات کے ہی تھے جو ملک سے باہر منتقل ہوچکے تھے۔ یہ ان کی جانفشانی سے کیا گیا علاج ہی تھا کہ نازنین ان سارے معاملات کو اب تک سبھاؤ سے جھیلتی آئ تھی۔ حرم نے باسط سے نازنین کے ماہرِ نفسیات کا نمبر لے کر ذاتی طور پر ان سے بات کی تھی۔ اور ان کے الفاظ کچھ اسی طرح کے تھے۔

نازنین نے اپنے ٹراما کا سامنہ نہیں کیا تھا۔ وہ ان باتوں کو یاد کرنے سے کتراتی تھی۔ اسکا ذہن پرانی یادوں کی تکلیف سے خوفزدہ تھا۔۔ اسی لیے وہ ان سب باتوں کے بارے میں سوچتی نہیں تھی۔۔ وہ اسے پراسس نہیں کرپارہی تھی۔۔ وہ اسکا سامنہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ لیکن وہ ساری یادیں ذہن کے کسی خانے میں آج تک تازہ تھیں۔۔ اسی لیے وہ کئ مرتبہ خوابوں سے ڈر کر اٹھتی تھی۔ ہمارے سب کانشیس میں موجود ہر تکلیف دہ یاد ہمارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتی۔۔ بالکل ویسے ہی جیسے کوئ زخم اپنے زخم ہونے کا احساس تکلیف کے ذریعے دلایا کرتا ہے۔ ٹراماز بھی اپنے ہونے کا احساس نائیٹ میئرز کے ذریعے دلایا کرتے تھے۔
نازنین کی آنکھ فجر کی اذانوں پر کھلی تھی۔ اس نے اپنے گھٹنے سے چہرہ اٹھایا اور پھر اپنے اوپر چادر دیکھ کر وہ چونک گئ۔ نگاہ جلدی سے ثانیہ تک گئ لیکن وہ اپنی جگہ پر سورہی تھی۔ اس نے سیدھا ہونے کی کوشش کی تو کمر میں درد کی تیز لہر اٹھی۔ ایک ہی زاویے پر سونے کی وجہ سے اسکی پشت اکڑ گئ تھی۔ وہ ٹھنڈے فرش سے اٹھ کھڑی ہوئ۔۔ پھر بالکنی کا دروازہ بند کرتی ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ آئ۔۔ کچھ لمحات بعد وہ جاء نماز ڈالے نماز ادا کررہی تھی۔ اسے حیرت بھی ہوئ تھی کہ وہ بغیر کسی خوفناک خواب کے اتنا پرسکون کیسے سوگئ۔۔ اس نے نماز پڑھی اور پھر کمرے سے باہر نکل آئ۔ فجر کی نیلی روشنی ہر سو بکھرنے لگی تھی۔ وہ یخ ریلنگ پر ہاتھ پھیرتی زینے اتر کر صوفیہ کے کمرے تک جانے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔ لیکن اسے لاؤنج میں کوئ صوفے پر بیٹھا نظر آیا تھا۔۔
اس نے آگے بڑھ کر دیکھا تو وہ حرم تھا۔ سامنے ٹیبل پر اسکا کھلا لیپ ٹاپ اور چند فائلز رکھی تھیں۔ وہ شاید کوئ کام کررہا تھا اسی لیے بیٹھے بیٹھے ہی سو گیا تھا۔ اس نے صوفے کے ہتھے پر لپٹی چادر دیکھی اور پھر وہ جونہی۔۔ اسکے اوپر چادر ڈالنے لگی تو حرم نے اپنی جانب بڑھتا اسکا ہاتھ یکلخت پکڑ لیا۔۔ رفلیکسس تیز ہوں تو انسان نیند میں بھی اپنی جانب بڑھتے ہر ہاتھ کی حرکت بھانپ لیتا ہے۔ اس نے بھی اسی تیزی کے ساتھ اسکا بڑھتا ہاتھ پکڑا تو نازنین ایک پل کو سانس نہیں لے سکی۔۔ وہ نیند کے خمار میں لپٹی آنکھیں لیے اسے ناسمجھی سے تک رہا تھا۔

"شہوار۔۔؟" وہ بڑبڑایا تو نازنین نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچا۔ وہ چونکا تھا۔۔ پھر جلدی سے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔ نازنین سیدھی ہوگئ تھی۔ اس پر چادر ڈالنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔۔ وہ انگلیوں سے آنکھیں مسل رہا تھا۔

"یہ کونسی جگہ ہے سونے کی۔۔؟" نازنین نے اسے دیکھ کر تادیبی انداز میں پوچھا تو وہ آگے بڑھ کر ٹیبل سے اپنا سامان سمیٹنے لگا۔

"آپ رات۔۔ ٹھیک سے سوئ تھیں۔۔؟ کوئ پریشانی تو نہیں ہوئ۔۔؟" اس کے دوپٹے کے ہالے میں مقید چہرے کو دیکھتے ہوۓ وہ پوچھ رہا تھا۔ پاکیزہ سی صبح میں۔۔ اسے دیکھنا حرم کے لیے بہت پیارا سا اتفاق تھا۔

"ہوں۔۔ کوئ پریشانی نہیں تھی۔ تمہارا بہت شکریہ۔۔" کہتے ہی نازنین کی نگاہ اسکے ہاتھ پر پڑی تھی۔ اسکی پٹی غائب تھی اور زخم بالکل واضح تھا۔

"پٹی کہاں گئ تمہاری۔۔؟ رات کو تو روحیلہ پھپھو نے باندھی تھی۔۔"

"آں۔۔ وہ کھل گئ تھی تو۔۔"

"تو تم نے اسے دوبارہ باندھنے کی زحمت تک نہیں کی۔ اتنے لاپرواہ کیوں ہو تم۔۔؟ دیکھو کتنا گہرا زخم آیا ہے۔"

"اتنا بھی گہرا نہیں ہے۔۔"

"تمہاری توجہ حاصل کرنے کے لیے۔۔ ایٹ لیسٹ زخم کو کتنا گہرا ہونا چاہیۓ۔۔؟" نازنین کے طنز پر وہ مسکراتا ہوا اپنا لیپ ٹاپ اور فائلز لیے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ پھر اسے مسکراتی نگاہوں سے دیکھا۔ کیا اس لڑکی کو کسی نے بتایا تھا کہ وہ چہرے کے گرد بندھے اس دوپٹے میں کتنی پیاری لگتی تھی۔۔؟ اور اس بندھے دوپٹے کے ساتھ۔۔ اسے ڈانٹتی ہوئ تو وہ اور بھی پیاری لگ رہی تھی۔

"ایٹ لیسٹ۔۔ دو سے تین انچ گہرا تو ہونا ہی چاہیۓ۔ اس سے کم گہرائ لیے ہوۓ زخم خود ہی وقت کے ساتھ مندمل ہوجاتے ہیں۔ بنا کسی توجہ کے۔۔" اسکی وضاحت پر نازنین نے گہرا سانس لیا تھا۔

"میں کیوں تم سے صبح صبح الجھ رہی ہوں۔ میرا دماغ خراب ہے یقیناً۔۔" وہ کہہ کر زینوں کے اس پار صوفیہ کے کمرے کی جانب بڑھ گئ تھی۔ فجر کی نیلی روشنی دودھیا سی صبح میں ڈھلنے لگی۔ وہ مسکراتا ہوا زینوں کی جانب بڑھ آیا تھا۔ ابھی اس نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ سامنے بیڈ پر دراز وجدان کو دیکھ کر چونکا۔ اس پر لحاف نہیں تھا اور وہ نیند میں ہاتھ آس پاس مارتا لحاف تلاش کررہا تھا۔ کمفرٹر بیڈ سے آدھا نیچے گر رہا تھا۔۔ اسکی پہنچ سے خاصہ دور۔۔
حرم نے گہرا سانس لیا اور پھر آگے بڑھ آیا۔ لیپ ٹاپ اور فائلز سائیڈ ٹیبل پر رکھیں۔ جھک کر کمفر ٹر اٹھایا اور پھر اسے درستگی سے وجدان کے اوپر ڈالنے لگا۔ لحاف کے اپنے اوپر آتے ہی وجدان کچھ اور اس میں سمٹ گیا تھا۔ ماتھے پر گرے بالوں کے ساتھ، ہلکے سے کھلے لب لیۓ سوتا ہوا وہ بہت معصوم لگ رہا تھا۔ حرم نے اس پر آخری نگاہ ڈالی اور پھر ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا۔
*******
" یہ لڑکا یہاں آیا تھا۔۔؟ کب۔۔؟" احمد نے حرم کی تصویر رستم آفندی کے فارم ہاؤس کے باہر ایستادہ سیکیورٹی گارڈ کے سامنے کی تو وہ سر اثبات میں ہلانے لگا۔ وہاں پر تفتیشی افسران کی تفتیش اب تک مکمل نہیں ہوئ تھی، اسی لیے وہاں عام لوگوں کا داخلہ ممنوع تھا۔

"لیکن یہ یہاں کیسے داخل ہوسکتا ہے۔۔؟ کیا کسی نے منع نہیں کیا اسے۔۔؟"

"صاحب اس کے پاس کسی ایجنسی کا کارڈ تھا اسی لیے ہم نے اسے یہاں پر داخل ہونے سے نہیں روکا۔۔" گارڈ نے اپنا مدعا پیش کیا تو احمد نے سمجھ کر سر ہلایا۔ پھر وہ پلٹ آیا۔۔ چند پل گاڑی میں خاموشی سے بیٹھا رہا۔ اگر زاویار ہر قتل گاہ کی جانب دکھائ دیا تھا۔۔ تو حرم بھی ہر قتل گاہ کی جانب دیکھا گیا ہے۔ اگر کوئ اس کے بیٹے پر شک کرے گا تو اسے حرم پر بھی اتنا ہی شک کرنا چاہیۓ۔۔ لیکن زاویار کی موجودگی کے ثبوت موجود تھے۔۔ حرم کی موجودگی کے کوئ واضح ثبوت موجود نہیں تھے۔ کیا کوئ زاویار کو پھنسا رہا تھا۔۔؟ یا پھر۔۔ یا پھر۔۔ زاویار نے واقعی۔۔ ان انویسٹرز کو قتل کیا تھا۔۔؟ یہ ایک ایسا خیال تھا جس کے بارے میں وہ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ ہر جگہ سے زاویار کے حوالے سے اسے ایسے کلو ملے تھے جن سے وہ نگاہیں نہیں پھیر سکتا تھا۔
کچھ سوچ کر اس نے ایگنیشن میں چابی گھمائ اور پھر گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔ اسکا رُخ زاویار کے اپارٹمنٹ کی جانب تھا۔
وہ حسبِ توقع اس وقت اپارٹمنٹ میں موجود نہیں تھا۔ اس نے اسکے اپارٹمنٹ کا کوڈ حفظ کر رکھا تھا۔ وہ دبے قدموں اندر داخل ہوا اور پھر سب سے پہلے بیڈروم کی جانب بڑھ آیا۔۔ درازیں اور الماری کھول کر اندر تک چھان ماری۔۔ وہاں کچھ بھی قابلِ غور نہیں تھا۔ جب اسے وہاں کچھ نہیں ملا تو وہ اگلے ہی پل الماری کا پٹ بند کر کے پلٹنے لگا۔۔ لیکن اسکی نگاہ، ایک جانب گرے انجیکشن پر پڑی تھی۔ وہ نیچے جھکا اور پھر انجیکشن ہاتھ میں اٹھالیا۔
آنکھیں سکڑ گئیں۔۔ رستم آفندی کے جسم میں ایک مخصوص قسم کا مواد انجیکٹ کیا گیا تھا۔ اس نے رپورٹس دیکھی تھیں۔۔ وہ (Cadocolin) تھا۔ جو اس کے دونوں کانوں میں موجود تھا۔ اس سے انسانی دھڑکن بتدریج کم ہو کر تھم جاتی تھی اور چہرے کے زاویے ایک ہی جگہ ٹھہر جایا کرتے تھے۔۔ جیسے پیرالائز ہوگۓ ہوں۔ اس نے انجیکشن اپنی جیب میں ڈالا اور پھر الماری میں لٹکے زاویار کے کپڑوں کو ٹٹولنے لگا۔ اس انجیکشن کی حقیقت تو فارینسک رپورٹ کے بعد ہی کھل سکتی تھی۔ لیکن اندر ہی اندر وہ پریشان ہوچکا تھا۔۔ اور خاصہ مشکوک بھی۔
اسکے ماتھے پر پسینے کی ہلکی ہلکی بوندیں بھی ابھری ہوئ تھیں اور وہ ساتھ ساتھ ایک نگاہ دروازے پر بھی ڈالتا تھا۔ شاید وہ بغیر کسی نیت کے جامنی رنگ کی یو ایس بی تلاش کررہا تھا۔ اگر زاویار اس رات وہاں موجود تھا تو ہوسکتا ہے کہ وہ یو ایس بی اسی نے اٹھائ ہو۔۔ لیکن یو ایس بی اس کے پاس موجود نہیں تھی۔ یو ایس بی پورے گھر میں کہیں موجود نہیں تھی۔
وہ چند پل اپارٹمنٹ کے وسط میں کھڑا رہا اور پھر آگے بڑھ آیا۔ اپنے پیچھے داخلی دروازہ احتیاط سے بند کیا اور پھر گاڑی کی جانب چلا آیا۔ اسکا رُخ اب لیبارٹری کی جانب تھا۔ اسکے گاڑی نکالتے ہی کوئ اپارٹمنٹ کے زینوں پر نمودار ہوا تھا۔ وہ اسکی جاتی گاڑی کو خاموشی سے دیکھے گیا اور پھر فون کان سے لگاتا، زینوں سے اتر آیا۔۔
اب وہ دور جاتا کسی سے فون پر محوِ گفتگو تھا۔
********
دوپہر سر پر چڑھی معلوم ہورہی تھی۔۔ گھر کے مکینوں کی تیاریاں تیز تر ہوتی محسوس ہورہی تھیں۔ عدیل کی بارات میں محض چھ دن ہی رہ گۓ تھے۔ روحیلہ نے آج کی تقریب منسوخ کردی تھی۔ بلکہ انہوں نے آنے والے دنوں کی دو تین تقریبات کو منسوخ کردیا تھا۔ شاید وہ لوگوں کی باتوں کا جواب دینے کے لیے ابھی تک خود کو ذہنی طور پر تیار نہیں کرپائ تھیں۔
دن چڑھ آیا تھا۔ وجدان اور صوفیہ اپنے کچے صحن والے گھر گۓ ہوۓ تھے۔ روحیلہ نے ہی انہیں بھیجا تھا تاکہ وہ اپنی ضرورت کا سامان لا سکتے۔ ثانیہ کالج گئ ہوئ تھی اور روحیلہ موقع دیکھ کر نازنین کے پاس چلی آئ تھیں۔ وہ صبح سے ثانیہ کے ہی کمرے میں تھی۔۔ اسے باہر نکلنا بہت آکورڈ لگ رہا تھا۔ کسی اور کے گھر میں وہ کیسے منہ اٹھا کر گھوم پھر سکتی تھی۔ اس سب پر مستزاد، روحیلہ اسے پسند نہیں کرتی تھیں۔ اسی لیے بہتر یہی تھا کہ وہ ان کے سامنے کم سے کم جایا کرتی۔
کمرے کا دروازہ بجا۔۔ اور پھر روحیلہ اسے دروازے میں کھڑی نظر آئیں۔ وہ سیدھی ہو بیٹھی۔۔ اس نے آسمانی رنگ کی قمیص اور چوڑی دار پجامہ زیب تن کر رکھا تھا۔ بالوں کو جوڑے میں باندھے، وہ  چپ چاپ بیڈ پر بیٹھی ہوئ تھی۔ روحیلہ نے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور پھر آگے بڑھ آئیں۔ بالکنی کے پاس لگی کرسی کی جانب اسے آنے کا اشارہ کیا تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئ۔۔ پھر ان کے عین سامنے آ بیٹھی۔ ان دونوں کے درمیان بہت فاصلہ حائل تھا۔۔ وہ کبھی بھی اپنی ان سے بے تکلف نہیں تھی۔ وہاں ہمیشہ آکورڈ سی خاموشی موجود رہتی تھی۔

"تمہارے ساتھ اب تک جو بھی ہوا مجھے اس بات پر افسوس ہے۔ مجھے سالوں پہلے تمہاری بات پر بھی بھروسہ تھا جب تم نے کہا تھا۔۔ کہ تمہیں کسی نے رات کی تاریکی میں ظلم کا نشانہ بنایا ہے۔ میں بس اس بات کا اظہار اس وقت نہیں کرپائ تھی۔۔ کیونکہ میں کسی کے گھریلو معاملات میں مداخلت بالکل بھی پسند نہیں کرتی۔"
نازنین انہیں خاموشی سے دیکھے گئ۔ پھر اس نے گہرا سانس لیا۔ اسکی اذیت اور کرب۔۔ ان کے لیے کسی اور کا گھریلو مسئلہ تھا۔۔! اسے تکلیف سے زیادہ ان کی سوچ پر افسوس ہوا تھا۔

"جب مجھے بھابھی نے تمہارے نفسیاتی مسائل کے بارے میں بتایا تو میں محتاط ہوگئ تھی۔ تمہیں تو معلوم ہے کہ یہ نفسیاتی امراض کس قدر تیزی سے ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس وقت عدیل بہت چھوٹا تھا۔ میں چاہتی تو جاوید بھائ کو اپنے گھر میں جگہ دے سکتی تھی۔۔ لیکن میں تمہاری بگڑتی ذہنی حالت سے خوفزدہ تھی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ ایسے کسی بھی معاملے سے عدیل یا پھر سہیل سَفر کریں۔ میری نیت کبھی بھی بری نہیں تھی۔"

وہ بے نیازی سے بول کر خاموش ہوئیں اسکا چہرہ تک رہی تھیں۔ اسکا چہرہ خالی تھا۔۔ بالکل خالی۔۔ وہ میچور تھی۔ ایسی باتوں پر وہ جذباتی ردعمل نہیں دے سکتی تھی۔ رات کی نیند کے باعث اس کے اعصاب پرسکون تھے۔

"آپکو اس سب کی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں۔ میں نے کبھی آپ سے کوئ جواب نہیں مانگا۔ میں آپکی شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے۔۔ ایسے حالات میں اپنے گھر میں رہنے کی جگہ دی ہے۔ جیسے ہی معاملات سنبھلیں گے۔۔ میں جلد ہی اپنے گھرانے کو لے کر یہاں سے چلی جاؤنگی۔"

"بہتر۔۔ میں یہی کہنا چاہتی تھی۔۔ کہ جتنی جلدی ہو اپنی رہائش کا بندوبست کرلو۔ ابھی تم یہاں آرام سے رہ سکتی ہو۔ مجھے تمہارے یہاں رہنے پر کوئ اعتراض نہیں۔۔ لیکن یہ مت بھولنا کہ یہ تمہارا نہیں۔۔ میرا گھر ہے۔۔" وہ جتا رہی تھیں۔ نازنین بے ساختہ ہی مسکرائ تھی۔ روحیلہ نے اسکی جانب ناسمجھی سے دیکھا تھا۔

"اپنی اٹھارہ سالہ زندگی میں، میں نے کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا، پھپھو۔ اٹھارہ سال کی زندگی بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ کبھی کسی کی چیز کی جانب نہیں دیکھا اور اپنی حیثیت کو ہمیشہ یاد رکھا ہے۔ جاوید انصاری کی بیٹی سے آپ کو ایسی توقع نہیں رکھنی چاہیۓ تھی۔۔ یہ آپکا گھر ہے۔۔ آپکا ہی رہے گا۔۔"

اس کے کہنے پر روحیلہ کھنکھار کر سیدھی ہو بیٹی تھیں۔ ایک پل کو وہ انہیں بالکل جاوید جیسی لگی۔ انہی کی طرح۔۔ ٹھہر ٹھہر کر۔۔ سنجیدگی سے اپنے جملے مکمل کرتی ہوئ۔۔ وہ چند پل کچھ بول نہیں سکی تھیں۔

"تمہاری جاب کیسی جارہی ہے۔۔؟" انہوں نے کچھ پل بعد استفسار کیا تو نازنین نے گہرا سانس لیا۔ پھر آہستہ سے بولی۔۔

"مجھے ٹرمینیٹ کردیا گیا ہے۔" روحیلہ استفہامیہ نگاہوں سے اسے تکنے لگی تھیں۔ اس نے سر اثبات میں ہلایا کر انکی یقین دہانی کروائ تھی۔

"یونی انتظامیہ نے مجھے بغیر کسی خاص وجہ کے ٹرمینیٹ کردیا ہے۔ میں پچھلے ہفتے سے جاب ہی تلاش کررہی تھی۔۔"

"لیکن کیوں۔۔؟ کیا وجہ تھی۔۔؟" وہ پریشان ہوگئ تھیں۔ نازنین کے کندھوں پر بوجھ بڑھتا ہی جارہا تھا۔  اس نے بوجھل دل کے ساتھ سانس لی تھی۔

"میں نہیں جانتی۔۔" اس کا انداز دو ٹوک تھا۔ وہ روحیلہ کو ابھی اتنی بڑی بات نہیں بتاسکتی تھی۔ عدیل کی شادی تھی اور یقیناً رمیز بھی اس میں شرکت کرنے والا تھا۔ وہ ان کی خوشگوار تقریبات کو بدمزگی نہیں بخشنا چاہتی تھی۔ روحیلہ اٹھ کر جاچکیں تو وہ وہیں بیٹھی رہی۔ کب تک وہ کسی کے گھر میں رک سکتی تھی؟ سوچ سوچ کر اب اس کا سر بھاری ہونے لگا تھا۔۔
******* 
سرِ شام ہی گھر کی بتیاں روشن کردی گئ تھیں۔ بھاری پردے گرادیے گۓ تھے اور ہر جانب خنکی خاصی بڑھ گئ تھی۔ صوفیہ اور وجدان گھر میں مغرب کے بعد داخل ہوۓ تھے۔ صوفیہ نے سامان گاڑی میں ہی رہنے دیا اور آگے بڑھ آئیں۔ ان کا سانس پھولا ہوا لگ رہا تھا اور رنگت کام کرنے کی وجہ سے سفید تھی۔ وہ آ کر خاموشی سے لاؤنج میں لگے صوفوں پر بیٹھ گئ تھیں۔ روحیلہ بھی کچن سے نکل کر سیدھا ادھر ہی چلی آئ تھیں۔ وہ اب صوفیہ سے سامان کی بابت استفسار کررہی تھیں۔ ساتھ ساتھ انہوں نے ملازمہ کو صوفیہ کے لیے پانی لانے کا بھی حکم جاری کیا تھا۔ وجدان ڈرائیور کے ساتھ سامان نکلوا رہا تھا۔ پھر وہ دو تھیلے لیے آگے بڑھ آیا۔۔ ثانیہ بھی لاؤنج میں بیٹھی اپنے سامنے کتابیں پھیلاۓ ہوۓ تھی۔ فون پر وہ شاید کسی سے کل کی پریزنٹیشن کے بارے میں خاصی پریشانی اور ذرا جھنجھلاہٹ سے کچھ کہہ رہی تھی۔ وہ ابھی داخلی دروازے سے سامان لیے اندر داخل ہوا ہی تھا۔۔ کہ ثانیہ کی بات پر لمحے بھر کو ٹھہر کر اسے پلٹتے ہوۓ دیکھا۔ وہ اپنا بھاری سوٹ کیس وہیں رکھ کر صوفے کی پشت تک چلا آیا تھا۔ پھر ثانیہ کے سر کے اوپر سے جھانک کر کتاب کی جانب دیکھا۔۔ وہ بائیو لاجی کی کتاب تھی اور اس میں برین سسٹم کی تفصیلات وضع تھیں۔ لیکن اسے اس بات نے اس جانب متوجہ نہیں کیا تھا۔۔ بلکہ اسے ثانیہ کی غلط انڈرسٹینڈنگ نے اسکی جانب متوجہ کیا تھا۔ وہ دماغی حصوں کے مختلف اور خاصے مشکل ناموں کو آپس میں گڈ مڈ کررہی تھی۔ ساتھ ساتھ وہ ان کے فنکشنز کی بھی غلط تشریح کررہی تھی۔۔ اس سے رہا نہیں گیا اور وہ یکدم ہی بول اٹھا۔۔

"آپ برین سسٹم غلط پڑھ رہی ہیں۔ اس کے تین بنیادی حصوں کے فنکشنز مختلف ہیں۔ آپ فرنٹل لوب کا فنکشن، دوسری لوب کے ساتھ ملا کر اسے غلط سمجھ رہی ہیں۔۔" اس کے بولنے پر جہاں اسے ثانیہ نے چونک کر دیکھا تھا وہیں روحیلہ بھی اسکی جانب متوجہ ہوئ تھیں۔ وہ میڈیکل کا طالبِ علم تھا۔ اسکی جانب سے ایسی تصحیح صوفیہ کے لیے تو بالکل ہی معمولی سی بات تھی۔ گھر میں بھی وہ نازنین کی بارہا تصحیح کرتا رہتا تھا۔

"کیا کہا آپ نے۔۔؟ کیا آپ مجھے یہ سمجھا سکتے ہیں۔۔؟ مجھے ایک حصے کا فنکشن سمجھ آتا ہے تو دوسرا سمجھ نہیں آتا۔ سب کے کام ایک جیسے لگ رہے ہیں۔۔" وہ بھوری آنکھوں میں امید لیے اسے گردن پھیر کر دیکھتی کہہ رہی تھی۔ وجدان نے جھجھکتے ہوۓ روحیلہ کی جانب دیکھا۔۔ اسکے رخسار بے ساختہ ہی گلابی ہوۓ تھے۔ توجہ کا مرکز بننا وجدان کے لیے مشکل تھا۔۔

"فرنٹل لوب، سیریبرم کا حصہ ہے۔ سیریبرم دماغ کا ایک بڑا حصہ ہے اور اس کے مزید چار چھوٹے حصے ہیں۔ ہر حصے کا کام اور وضع مختلف ہے۔ یہ دماغ کی ادراکی سمجھ۔۔ یعنی کاگنیٹو تھنکنگ (Cognitive Thinking) کا کام سر انجام دیتا ہے۔۔" وہ چہرہ اٹھاۓ اسے دیکھ رہی تھی۔۔ روحیلہ نے رُخ اسی جانب پھیر لیا۔۔

"کیا پڑھ رہے ہو تم۔۔؟" ان کا پہلا سوال یہی تھا۔

"میں۔۔ میڈیکل کے لیے اینٹری ٹیسٹ کی تیاری کررہا ہوں۔ میڈیکل کا اسٹوڈنٹ ہوں میں۔"

"تو کیا تم ثانیہ کو پڑھا سکتے ہو۔۔؟ اگر ہاں تو یہاں آ کر بیٹھو اور اسے سمجھاؤ۔ بائیولاجی ثانیہ کے لیے ہمیشہ بہت مشکل رہی ہے۔" وہ چند پل پس و پیش میں کھڑا رہا پھر لب کاٹتا آگے آ کر صوفے پر بیٹھ گیا۔ ساتھ ہی اس نے ثانیہ کے ہاتھ سے کتاب لے لی تھی۔ اب وہ پینسل ہاتھ میں لیے اہم تفصیلات کی نشاندہی کرتا اسے سمجھا رہا تھا۔ ثانیہ کو پہلے تو اسکی کوئ بھی بات سمجھ نہیں آئ۔ کیونکہ وہ مشکل الفاظ اور خالصتاً میڈیکل کی زبان استعمال کررہا تھا۔ لیکن توجہ سے سننے پر اسے کچھ کچھ سمجھ آنے لگا تھا۔ اتنا۔۔ کہ وہ کل اپنی پریزنٹیشن باآسانی دے سکتی۔

"سیریبلم کو چھوٹا دماغ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا خاص کام انسان کی فزیکل موومنٹس کو آپریٹ کرنا ہوتا ہے۔۔ جیسے ایموشنل ریسپانسس کے لیے ہمارا سیریبرم ذمہ دار ہوتا ہے۔ اسی طرح جسمانی ردعمل اور رفلیکسس کے لیے دماغ کا یہ حصہ کام کرتا ہے۔ یہ پارٹ مشکل نہیں ہے۔ اس میں مزید اور حصوں کے فنکشنز موجود نہیں۔" بغیر رکے وہ اسے سمجھاتا جارہا تھا۔ ثانیہ کہیں کہیں اسے روک کر دوبارہ سے پوچھتی تھی۔ یہ باتیں اتنی بھی آسان نہیں تھیں۔

"بائیولاجی اتنی پیچیدہ کیوں ہے۔۔ اور اتنی بورنگ بھی۔۔!" ثانیہ نے ناک بھوں چڑھا کر کہا تو وجدان پہلی دفعہ مسکرایا۔

"اگر آپکو بائیو بور لگ رہی ہے تو آپ اسے درست استاد سے نہیں پڑھ رہے۔۔" اس کے کہنے پر روحیلہ اسکی جانب متوجہ ہوئ تھی۔

"جب تک یہاں ہو۔۔ تب تک ثانیہ کو بائیو لاجی تم ہی پڑھایا کرو۔ عدیل کی شادی کی وجہ سے اسکے پاس سینٹر کی کلاسس اٹینڈ کرنے کا ٹائم نہیں۔۔" ان کے کہنے پر اس نے سر اثبات میں ہلادیا تھا۔ صوفیہ اسے فخریہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔ اسکی ذہانت نے ہمیشہ انہیں بہت خوش کیا تھا۔

"آپکو ان سارے پارٹس کے نام اور ان کے فنکشنز انگلیوں پر کیسے یاد ہیں؟ میں تو ایک یاد کروں تو دوسرا بھول جاتا ہے۔" جب وہ اسے بنا کتاب کے سب باتوں کا لبِ لباب دینے سے فارغ ہوا تو ثانیہ نے کہا۔

"میں ایک ہی ٹاپک کو کئ کتابوں سے اور مزید سورسز سے پڑھنے کا عادی ہوں۔ یہ کام تھوڑا محنت طلب ہے اور ایسے پڑھنے میں کافی وقت بھی لگتا ہے۔ لیکن مجھے کئ دن کی محنت کے بعد یہ سب نام اور ان کے فنکشنز آسانی سے یاد رہ جاتے ہیں۔"
وجدان نے اس سے کہا۔
ثانیہ خوش تھی۔۔ اسکے نوٹس تیار تھے اور اب وہ آرام سے اپنا ہوم ورک کرسکتی تھی۔  اسی پہر حرم گھر میں داخل ہوا۔۔ وہ صبح سے سہیل کے ساتھ آفس میں مصروف رہا تھا اور گہری ہوتی شام کے ساتھ ہی گھر میں داخل ہوا تھا۔
وہ سیدھا لاؤنج میں ہی چلا  آیا۔ ثانیہ کی اونچی بندھی پونی ٹیل ہلکی سی کھینچی اور پھر صوفے پر آ بیٹھا۔ ثانیہ اسکے تنگ کرنے کی اتنی عادی ہوچکی تھی کہ کوئ ردعمل ہی نہ دیا۔ وہ اب صوفیہ اور روحیلہ سے ان کے دن کی بابت پوچھ رہا تھا۔ صوفیہ اسکا بار بار شکریہ ادا کر کے اسے شرمندہ کررہی تھیں۔

"تم کیسے ہو، وجدان۔۔؟" اس نے پوچھا اور پھر چہرہ گھما کر نازنین کو تلاش کرنے لگا۔

"پھپھو کہاں ہیں تمہاری۔۔؟"

"نازنین آپی کمرے میں ہیں۔۔" وجدان کے بجاۓ ثانیہ نے جواب دیا تھا۔ اس نے سر ہلادیا۔ پھر ان دونوں کی جانب جھکا۔۔

"تم دونوں کیا کررہے ہو۔۔؟" اسے یونہی تجسس ہوا تھا۔

"وجدان، مجھے برین سسٹم سمجھارہا تھا اور بھائ آپکو پتا ہے۔۔ اسے یہ ساری چیزیں دیکھے بغیر یاد ہیں۔۔" ثانیہ کو وجدان کی یادداشت نے کچھ زیادہ ہی متاثر کردیا تھا۔ حرم وجدان کی ذہانت سے واقف تھا اسی لیے مسکراہٹ دبا کر سیدھا ہو بیٹھا۔ پھر اس کی آنکھیں کسی شرارت کے زیرِ اثر چمکیں۔۔ اس نے رخسار کھجاتے ہوۓ ثانیہ کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔

"اچھا بتاؤ۔۔ اگر ١٢٥ کو۔۔ ہم ٧ سے ملٹپلائ کریں تو کیا جواب آۓ گا۔۔؟" وہ ہمیشہ دور کی کوڑی لاتا تھا۔ ثانیہ نے جلدی سے موبائل اٹھا کر ہندسوں کو کیل کیولیٹ کرنا چاہا تھا لیکن وجدان اس سے پہلے ہی جواب دے چکا تھا۔

"٨٧٥" اسکا جواب اتنا بے ساختہ تھا کہ حرم بھی ایک پل کو حیران ہوا تھا۔ لیکن ثانیہ کا ردعمل سب سے زیادہ مضحکہ خیز تھا۔ موبائل ہاتھ میں تھامے۔۔ وہ آنکھیں پوری کھولے وجدان کو چہرہ پھیرے تک رہی تھی۔

"اتنا جلدی۔۔! آپ انسان ہیں یا کیل کیولیٹر۔۔؟"
حرم اسکے سوال پر ہنسا تھا اور وجدان نے خجل ہو کر بال کھجاۓ تھے۔

"یہ انسانی کیل کیولیٹر ہے۔۔" حرم نے کہا تو ثانیہ کے دانت نکل آۓ۔ کچھ پل بعد لاؤنج کی محفل برخاست ہوئ تو سب اپنے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گۓ۔ رات کا کھانا کھایا جاچکا تھا اور وہ نازنین سے کھانے کی ٹیبل پر مل بھی چکا تھا۔ وہ اسے پہلے سے خاموش محسوس ہوئ۔ صوفیہ تو سہیل اور روحیلہ کے ساتھ برابر باتیں کررہی تھیں لیکن نازنین اسے چپ چپ لگی تھی۔ شاید وہ کچھ سوچتی رہی تھی۔۔ وجدان اور ثانیہ کی تو دوستی ہی ہوگئ تھی۔ ثانیہ اس سے ہر دو منٹ بعد ہندسوں کو تقسیم اور ضرب دینے کا کہہ دیتی۔ وہ بے ساختگی سے جواب دیتا تو ثانیہ کو بہت مزہ آتا۔ اس نے ایسا انسانی کیل کیولیٹر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
رات گہری ہوئ تو وہ ثانیہ کے کمرے سے اپنا سامان سمیٹ کر صوفیہ اور وجدان کے کمرے میں جا کر سونے کے بارے میں سوچنے لگی۔ ابھی اس نے اپنا موبائل اور دوپٹہ اٹھایا ہی تھا کہ ثانیہ کمرے میں چلی آئ۔۔ اسے دوپٹہ اور موبائل ہاتھ میں لیے دیکھ کر ایک پل کو ٹھٹکی۔۔

"آپ۔۔ کہیں جارہی ہیں کیا۔۔؟"

"میں سوچ رہی تھی کہ۔۔۔ وجدان اور امی کے کمرے میں سوجاؤں۔۔" اس کے کہنے پر ثانیہ نے ناسمجھی سے دیکھا تھا اسے۔۔

"لیکن آپ وہاں کیسے ایڈجسٹ کریں گی۔۔؟ اس کمرے میں تیسرا بیڈ نہیں ہے۔۔" وہ کتابیں اسٹڈی ٹیبل پر رکھ کر اسکے سامنے چلی آئ تھی۔ نازنین اسکی فکر پر مسکرائ۔ مسکرانے کی وجہ سے اسکے رخساروں کی ہڈیاں کچھ اوپر کو اٹھ گئ تھیں اور وہ ایسے نرمی سے مسکراتی ہوئ ثانیہ کو بہت پیاری لگی تھی۔

"میں ایڈجسٹ کرلونگی، ثانی۔۔ تھینک یو۔۔"

"کیا آپکو میرے ساتھ رہنا اچھا نہیں لگ رہا۔۔؟" اسکے معصوم انداز پر اس نے جلدی سے سر نفی میں ہلایا۔

"ارے نہیں۔ ایسی کوئ بات نہیں۔۔ بس تمہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی میں۔ خواہ مخواہ تم میری وجہ سے اپنی روٹین میں خلل محسوس کروگی۔۔"

"اتنے مشکل الفاظ تو مجھے سمجھ نہیں آتے لیکن آپ کی وجہ سے مجھے کوئ مسئلہ نہیں۔ بلکہ آپ کی یہاں موجودگی مجھے خوشی دے رہی ہے۔ آپ کو پتا ہے ناں۔۔ کہ میری کوئ بہن نہیں۔۔ آپ میرے لیے بالکل۔۔ بڑی بہنوں جیسی ہیں۔"

وہ چند پل تو اسکے جواب پر اسے دیکھتی رہی پھر آہستہ سے مڑ کر اپنا موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ دوپٹہ کندھوں پر پھیلا کر وہ چپ چاپ اسکے بیڈ پر بیٹھ گئ۔ پھر اسے آنکھیں اٹھا کر دیکھا تو وہ دونوں ہی ہنس پڑیں۔ ثانیہ ہنستے ہوۓ اسکے سامنے بیڈ پر چوکڑی مار کر بیٹھ گئ تھی۔

"آپکو پتا ہے آپ کتنی پیاری لگتی ہیں ہنستے ہوۓ۔ ویسے مجھے آپ سے تھوڑا تھوڑا ڈر بھی لگتا ہے۔۔"

"ڈر کیوں۔۔؟" نازنین نے مسکراہٹ روک کر پوچھا تھا۔

"کیا مطلب کیوں۔۔ آپ بڑی ہیں اور اتنا سیریس رہتی ہیں ہر وقت۔ مجھے ڈر لگتا ہے میرے منہ سے کچھ الٹا سیدھا نہ نکل جاۓ۔ آپکو ڈانٹتے ہوۓ میں نے کبھی دیکھا تو نہیں ہے۔۔ لیکن مجھے انداز ہے کہ آپکا غصہ بہت برا ہوگا۔" اسکی وضاحت پر نازنین نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔ ایسی بات پر بھلا وہ کیا جواب دیتی۔

"ویسے کیا آپ گھر میں بھی ہر وقت سیریس رہتی ہیں۔۔؟ وجدان کے ساتھ بھی۔۔؟"

"سیریس رہنا میری طبیعت کا حصہ ہے۔ لیکن وجدان کے ساتھ میں تھوڑا کم سیریس رہتی ہوں۔ ڈانٹ اسے بھی پڑتی رہتی ہے لیکن میں اس پر غصہ نہیں ہوسکتی۔۔"

"آپ اس سے پیار کرتی ہونگی ناں بہت زیادہ۔۔" آنکھوں میں جگنو سمیٹے وہ اسے دیکھتی کہہ رہی تھی۔ ثانیہ کی معصومیت پر اسے بے ساختہ ہی پیار آیا تھا۔

"ہاں۔۔"

"لکی ہے وہ بہت۔۔" ثانیہ نے آہستہ سے کہا تو نازنین اسکے انداز پر ہلکا سا چونکی۔ وہ اب چہرہ پھیرے بالکنی سے جھانکتے چاند کو تک رہی تھی۔ اسکی جگمگاتی آنکھیں یکلخت ہی ماند پڑتی محسوس ہونے لگی تھیں۔

"ہر وہ بچہ کتنا لکی ہوتا ہے ناں۔۔ جسے سننے والا  کوئ بڑا موجود ہو۔۔" نازنین نے اسکی بات پر گہرا سانس لیا تھا۔ پھر وہ بھی بالکنی سے نظر آتے چاند کو تکنے لگی۔

"ہر وہ انسان لکی ہوتا ہے جسے سننے والا کوئ موجود ہو۔ اسے بغیر جج کیے۔۔ اسکی کہانی پر  کسی بھی قسم کا تبصرہ دیے بغیر۔۔ صرف سننے والا۔۔"

"کیا آپ کے پاس کوئ سننے والا موجود تھا۔۔؟ آپ کے بچپن میں۔۔؟" اسکے پوچھنے پر نازنین نے سر آہستہ سے نفی میں ہلایا تھا۔ جاوید کی علالت کے دن اسکی نگاہوں میں بسیرا کرنے لگے تھے۔۔ تب جب وہ ان کے بے سدھ وجود کے پاس بیٹھی گھنٹوں بولتی رہتی تھی۔ وہ ان کے جواب کی منتظر رہا کرتی تھی لیکن وہ دوائیوں کے زیرِ اثر ہوش و خرد سے بیگانہ رہتے تھے۔

"میرے پاس بابا موجود تھے۔۔ لیکن ان کا وقت میرے ساتھ بہت تھوڑا تھا۔ وہ چلے گۓ تو میں نے بولنا بند کردیا۔۔ کوئ سننے والا نہیں بچا تھا۔ لیکن پھر میں وجدان کے لیے ایک اچھی سامع بن گئ۔ میں اسکی ہر بات کا جواب دے کر اسے اپنے "ہونے" کا احساس دلایا کرتی تھی۔ شاید جبھی ہم دونوں اتنے کلوز ہیں۔"

وہ آخر میں مسکرائ تو چاندنی تلے اسکا چہرہ دمکنے لگا۔ ثانیہ کو اسکے جواب نے خوش کردیا تھا۔ پھر وہ سیدھی ہو بیٹھی۔ رازاداری سے اسکی جانب جھکی تو ثانیہ بھی دلچسپی سے آگے کو ہوئ۔۔

"کیا ہم اس وقت لائبریری جاسکتے ہیں۔۔؟ مجھے بس ایک کتاب چاہیۓ۔۔" وہ صبح سے اس بارے میؔ سوچ رہی تھی۔ لیکن اسے بات کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ اسکے اندر کا بڑھتا خالی پن ایک کتاب ہی دور کرسکتی تھی۔ ثانیہ نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا تو وہ دونوں اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آئیں۔ گھر رات کے اس پہر سنسان تھا۔۔ ٹھنڈے ماربل پر قدم دھرتیں وہ دونوں زینے عبور کر کے اوپر چلی آئ تھیں۔ نازنین ریلنگ پر ہاتھ پھیرتی آگے بڑھ رہی تھی۔ اسے اس ریلنگ کو دیکھتے ہی وہ دن یاد آیا تھا جب حرم اسکے لیے شائستہ سے الجھ رہا تھا۔۔ زندگی کتنی بدل گئ تھی۔۔
اس نے سر جھٹکا اور پھر ثانیہ کے پیچھے ہی لائبریری میں داخل ہوئ۔ اوپر تلے۔۔ ہر جگہ کتابوں کی بہتات تھی۔ لائبریری کی فضا میں ٹھہری کتابوں کی خوشبو اس نے اپنی سانس کے ساتھ اندر کو اتاری تھی۔ کتابوں کی موجودگی اسے مسمرائز کرتی تھی۔۔ وہ ایک شیلف کے پاس ٹھہر گئ۔۔ پھر ہاتھ اونچا کر کے کتاب نکالنی چاہی تو بلند شیلف کے باعث وہاں تک اسکا ہاتھ نہیں پہنچ سکا۔ وہ ایڑیاں اونچی کیے۔۔ کتاب نکالنے کی سعی میں لگتی تھی۔۔ اسی پہر کوئ آگے بڑھا اور وہ کتاب اتار لی۔۔ نازنین کا ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا تھا۔۔ وہ جھٹکے سے مڑی تو اسکے سیاہ بال حرم کے رخسار کو چھو گۓ۔۔ اسی پہر ثانیہ چھوٹا سا اسٹول لیے اس جانب آنکلی تھی۔۔ لیکن پھر حرم کے ہاتھ میں مطلوبہ کتاب دیکھ کر اسٹول وہیں رکھ دیا۔ روشن زرد بتیاں، لائبریری کو کسی قدم کتب خانے کا سا تاثر دے رہی تھی۔

"کیا آپکو یہ کتاب چاہیۓ۔۔؟" اس نے کتاب اسے دکھائ تو نازنین نے سر اثبات میں ہلایا۔ وہ اب عقب میں ایستادہ شلیف کے ساتھ اپنی پشت ٹکا گیا تھا۔

"یہ تو۔۔ آپکو نہیں مل سکتی۔۔" مایوس ہو کر کہا تو نازنین نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔ ابرو اکھٹے ہوگۓ تھے اور وہ چہرہ اٹھاۓ اسے دیکھنے لگی تھی۔ ثانیہ بھی ان دونوں کے قریب چلی آئ تھی۔

"بھائ تنگ نہ کریں۔ مجھے پتا ہے آپ کتابیں نہیں پڑھتے۔۔" ثانیہ نے بیزار ہو کر کہا تو نازنین نے لبوں پر امڈتی مسکراہٹ روکی۔ حرم نے اُف والی نظروں سے دیکھا تھا اسے۔

"کس نے کہا۔۔؟ میں نے آج سے ہی کتابیں پڑھنے کا ارادہ کیا ہے اور میں اسی کتاب سے اپنے مطالعے کا آغاز کرنا چاہتا ہوں۔"

"ذرا بتانا یہ کتاب کس حوالے سے ہے۔۔؟" نازنین نے ہاتھ باندھ لیے تھے۔ وہ محظوظ نگاہوں سے اسے دیکھتی پوچھ رہی تھی۔ حرم نے اگلے ہی پل تھوک نگلا تھا۔ پھر کتاب کا سرورق نگاہوں کے سامنے کیا۔۔

"آں۔۔۔ یہ۔۔ مغل بادشاہت کی تاریخ کے حوالے سے ہے۔۔ ہاں۔۔ بالکل یہی ہے۔۔" اس نے سرورق پر موجود چند افراد کو دیکھ کر یہی مطلب اخذ کیا تھا۔ نازنین نے سکون سے سر اثبات میں ہلایا پھر آگے بڑھ آئ۔

"یہ نہ تو مغلوں کی تاریخ ہے اور نہ ہی اس میں اس قسم کا کوئ ذکر ہے۔ یہ اسلامی تاریخ کے بہت سے حکمرانوں کی سوانح حیات سے لیے گۓ مخصوص حصوں پر مشتمل ایک تالیف ہے۔ تالیف سمجھتے ہو کسے کہتے ہیں۔۔؟" انداز سراسر مزاق اڑانے والا تھا۔ ثانیہ اب دوسرے شیلف کی جانب متوجہ کسی کتاب کو نکالے دیکھ رہی تھی۔ لیکن جونہی اس نے کتاب کھول کر دیکھی تو اسی تیزی کے ساتھ گھبرا کر اسے بند کردیا۔ اتنے بھاری الفاظ اور ضخیم کتب سے اسے دور ہی رہنا چاہیے۔

"مجھے پتا تھا۔۔ میں بس یہ دیکھ رہا تھا کہ آپکو بھی اس کتاب کے بارے میں پتا ہے یا نہیں۔۔" ثانیہ حرم کے جواب پر ہنس دی تھی اور نازنین نے مسکراہٹ دبا کر اسکے ہاتھ سے کتاب اچک لی تھی۔

"یہ گنز نہیں ہیں جس کے بارے میں لمبی تفصیلات دے کر آپ نازنین آپی کو زیر کرلیں گے۔ یہ کتابوں کا معاملہ ہے جس میں آپ صفر ہیں۔۔" ثانیہ نے جتاتی نگاہ اس پر ڈال کر نازنین کی جانب اپنائیت سے دیکھا تو اس نے متفق ہو کر سر اثبات میں ہلایا۔ حرم کبھی اسے دیکھتا تو کبھی نازنین کو۔۔

"دوستی ہوگئ ہے آپ دونوں کی تو۔۔"

"جی ہاں۔۔ اسی لیے آپ ہمیں تنگ نہیں کریں۔۔" ثانیہ نے اسے زبان دکھائ اور پھر نازنین کو اپنے ساتھ لیے جونہی آگے بڑھنے لگی تو وہ اسے پکار بیٹھا۔ ان دونوں نے مڑ کر اسے دیکھا تھا۔ جینز پر سرمئ سوئٹر پہنے وہ جاذب نظر دکھ رہا تھا۔

"نازنین۔۔ کیا ہم تھوڑی دیر بات کرسکتے ہیں۔۔؟" اسکے پوچھنے پر دونوں لڑکیوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا تھا۔ پھر ثانیہ اثبات میں سر ہلاتی آگے بڑھ گئ اور نازنین وہیں کھڑی رہ گئ۔۔ کچھ پل بعد وہ دونوں شیلف کے ساتھ لگ کر زمین پر بیٹھے ہوۓ تھے۔

"آپکو جاب سے نکال دیا گیا ہے۔۔؟" اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا تو نازنین نے محض سر اثبات میں ہلا کر اسے جواب دیا۔۔

"میں جلد ہی کوئ جاب ڈھونڈ لونگی۔۔" نازنین نے کہا حرم سے تھا لیکن شاید وہ اندر ہی اندر خود کو تسلی دے رہی تھی۔ ایک فاصلے پر بیٹھے حرم نے اسے چہرہ پھیر کر سنجیدگی سے دیکھا تھا۔

"آپ فی الحال کہیں بھی جاب نہیں کرینگی۔ تب تک تو نہیں جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوجاتا۔۔"

"یہ مسئلہ نہیں، نفرت ہے۔ جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔ میں اس ڈر کی وجہ سے ساری زندگی گھر میں نہیں بیٹھ سکتی۔ مجھے اس سب کا سامنہ آج نہیں تو کل کرنا ہی ہوگا۔۔ اور پھر۔۔ میں تمہارے گھر میں کتنا عرصہ رہ سکتی ہوں؟ ایک دن تو مجھے یہاں سے جانا ہی ہوگا۔۔"

وہ بھی متانت سے جواب دے کر خاموش ہوچکی تھی۔ وہ پریشان ضرور تھی لیکن اس نے اپنی بے چینی بہت اچھے سے چھپائ تھی۔ گزرے ایام کی تلخی اسکے وجود سے آہستہ آہستہ زائل ہونے لگی تھی۔ وہ معاملات کو اب جذباتی ہوۓ بغیر، پریکٹکل انداز سے سوچ رہی تھی۔۔

"یہ گھر۔۔ اور اس گھر کے لوگ۔۔ مجھ سے زیادہ آپ کے اپنے ہیں۔۔" اس کے کہنے پر نازنین نے اپنا چہرہ اسکی جانب موڑا تھا۔

"دیکھیں ناں۔۔ میں آپکی پھپھو کا سوتیلا بیٹا ہوں جسے وہ پچھلے چند سالوں سے ہی پسند کرنے لگی ہیں۔۔ وہ آپکی سگّی پھپھو ہیں۔۔ آپ اس گھر سے منسلک ہیں۔۔ مجھ سے زیادہ۔۔"

"یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں۔ میرے اور پھپھو کے درمیان کبھی بے تکلفی کا کوئ تعلق نہیں رہا ہے۔ وہ میرے لیے بہت اجنبی ہیں۔"

اسکی بات سن کر حرم نے گہرا سانس لیا تھا۔

"اجنبی انسان کو اپنا بنایا جاسکتا ہے۔۔"

"اور جب اپنے ہی اجنبی بننا چاہیں تو۔۔؟" اسکا استفسار بہت سادگی لیے ہوۓ تھا۔ حرم اسے جواب نہیں دے سکا۔

"تمہیں کس نے بتایا میری جاب کا۔۔؟"

"سر آفتاب نے۔۔" اور اس نے کہتے ہی اپنی زبان دانتوں تلے دبائ تھی۔ نازنین ناسمجھی سے سیدھی ہو بیٹھی۔۔ پھر اسکی جانب مشکوک نگاہیں پھیریں۔ وہ اب سر کھجا رہا تھا۔۔

"میرے بڑے اچھے تعلقات ہیں ان سے۔۔"

"جھوٹ مت بولو۔۔" اسکے ٹوکنے پر حرم نے سر کھجانا بند کردیا تھا۔ اب جھوٹ بولنے کا کوئ فائدہ نہیں تھا۔

"میں نے انہیں کہا تھا کہ آپ کے بارے میں جو بھی اہم بات ہو تو مجھے بتائیں۔ میں آپکی ورک پلیس پر ہر وقت موجود نہیں رہ سکتا تھا سو مجھے اپنا کوئ الائنس وہاں پر چاہیۓ تھا۔۔ اور پھر سر آفتاب سے زیادہ ٹھیک بندہ وہاں تھا ہی نہیں۔۔"

سادگی سے کہہ کر اس نے بھوری آنکھوں سے نازنین کو دیکھا لیکن وہ مشکوک ہوچکی تھی۔ وہ آنکھوں میں ڈھیروں خفگی لیے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ حرم ان آنکھوں سے بوکھلانے لگا تھا۔

"کتنی غلط بات ہے یہ۔۔" اس نے اتنا کہا اور پھر اٹھ کھڑی ہوئ۔ آسمانی رنگ کے لباس میں ملبوس وہ خفا سی پلٹی ہی تھی کہ لمحے بھر کو ٹھہر گئ۔۔ اسے کچھ یاد آگیا تھا۔

"کیا تم نے سر آفتاب کو مارا پیٹا تھا۔۔؟" اسکے ذہن میں یکدم ہی جھماکہ سا ہوا تو اب حرم نے سکون سے اثبات میں سر ہلادیا۔ نازنین کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہاتھ میں پکڑی موٹی سی کتاب اسکے سر پر دے مارے۔۔

"کیا انہوں نے آپ سے کہا تھا کہ وہ زینوں سے گر گۓ ہیں۔۔ اور آپ نے یقین کرلیا تھا۔۔؟" وہ مسکراہٹ دباۓ پوچھ رہا تھا۔ نازنین نے تیز تنفس کے ساتھ اس پر سخت نگاہ ڈالی اور اپنے الفاظ مزید اس پر ضائع کیے بغیر پلٹ گئ۔۔ وہ دیر تک ہنستا رہا تھا۔۔ کتنی بھولی ہوتی ہیں یہ لڑکیاں بھی۔
قد آور کھڑکیوں کے پار رات اب تک پگھل رہی تھی اور وہ ٹھنڈے کتب خانے میں بیٹھا اس راستے کو تک رہا تھا جہاں سے ابھی ابھی وہ گزر کر گئ تھی۔
********
Continue♥

Continue Reading

You'll Also Like

164 12 3
do not copyright my words...... لکھنے کا میرا کوٸ خاص تجربہ نہیں ہے یہ شاید بلکہ یقینً اللہ کی ذات کا مجھ پر کرم ہے کہ میں بغیر کسی تجربے اور کسی کی...
102 14 4
Juncock conoce vee a Barney en su concierto y se enamora, pero nada es muy fácil...
2.5K 245 11
it's a poem written by a girl who is hopeless romantic by fault. This is her imagination about one who will hold her hand someday. Whose name is writ...
3.9K 167 10
This book contains Urdu poetry...I have collected this poetry from all over....I hope you guys will like it..