قسط نمبر 18

12 3 0
                                    

وہ دونوں سکردو کے مین بازار میں گھوم رہے تھے ادا ہر ہر چیز کو ستائیشی نظروں سے دیکھ رہی تھی جب امیر اسے ایک کپڑوں کی دکان پر لایا اسے ایک پٹھانی جوڑا پسند آیا جس پر بڑے بڑے شیشے لگے تھے اس نے وہ سوٹ پیک کروایا اور اسے لیے وہاں سے نکل گیا۔۔۔۔۔
ادا کو تعجب ہوا کہ آخر وہ سوٹ اس نے کس کے لیے خریدا ہو گا اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ اس سے پوچھ ہی بیٹھی" یہ تم کسی کو پسند کرتے ہو؟" "امیر نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے اس پر ایک حیران نظر ڈالی اور بولا "نہیں پر آپ کو بیٹھے بیٹھائے اس کا خیال کہاں سے آگیا "تو کیا تم شادی نہیں کرو گے"
"میرے خیال سے اس وقت میں اپنی شرعی اور قانونی بیوی کے ساتھ ہی بیٹھا ہوں"

"لیکن ہمارا ساتھ نبھانے کا کوئی وعدہ نہیں ہوا تھا یہ رشتہ تو عارضی ہے جسے ایک دن ختم ہونا ہی ہے"
"جی جانتا ہوں"
"تو یہ جوڑا کس کے لیے لیا تم نے"
"اچھا تو بات اس جوڑے کی تھی آپ سیدھا پوچھ لیتیں کہ یہ کس کے لیے خریدا ہے"
"نہیں میرا ایسا کوئی مطلب نہیں تھا لیکن اگر تم نہیں بتانا چاہئے تو نہ بتاو مجھے کیا جس مرضی کے لیے ہو "
اس کی باتوں سے صاف ظاہر تھا کہ وہ شرمندگی مٹانے کی خاطر ایسا بول رہی تھی۔۔۔۔۔۔
"یہ میں نے آپ کے لیے خریدا ہے"
"کیا! آہ مطلب کیو ں مجھے ضروت نہیں تھی"

"یہ میں نے ضروت کے لیے نہیں حالات کے تقاضے کے لیے خریدا ہے، آسان الفاظ میں میرے دوست دلاور خان جس کے ہاں ہم گئے تھے وہ ہمارے گاؤں کے وڈیرے ہیں اس کے بڑے بھائی ہشمت خان کی شادی ہے جس میں اس نے مجھے آپ کے ساتھ انوائیٹ کیا ہے"
"مجھے کوئی دلچسپی نہیں تم اکیلے چلے جانا"
"میں بھی کچھ یہی ارادہ رکھتا تھا لیکن بعض اوقات ہمیں حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے اگر آپ نہیں جائیں گی تو میرے دلاور کی والدہ کا دل ٹوٹ جائے گا وہ مجھے بڑے مان سے دعوت نامہ دے چکی ہیں، لیکن اگر آپ کو انسیکیورٹی فیل ہو رہی ہے تو آپ کی مرضی مجھے آپ کو مجبور کرنے کا اختیار نہیں جیسا آپ چاہیں"

"اب ایسی بھی کوئی بات نہیں اتنا ایموشنل ہونے کی ضرورت نہیں میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔ سب سمجھتی ہوں اتنے مسکینوں والے ایکسپریشنز دے کر مجھے قائل ہی کرنا چاہتے تھے تم بڑی کوئی پہنچی چیز ہو"
"چلو اچھا ہوا لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے مجھے سمجھنے والا بھی کوئی موجود ہے"
بے اختیار اس کی زبان پھسلی لیکن ادا اداس ہو چکی تھی ہنزا کی شاہرایں اس بات کی ہوائیں اس کے پہاڑ اور اس کی شاہراہیں اس بات کی گواہ تھیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے عادی ہو رہے تھے اور کسی کی عادت ہو جانا محبت ہوجانے سے زیادہ خطرناک ہے"

"وہ شادی پر جانے کے کیے بلکل تیار تھا جب ادا اس کے کیبن میں آئی جہاں آج اس نے ڈیرا جمایا ہوا تھا وہ جگہ گھر کے کونے میں تھی اور اکثر امیر کی غیر موجودگی میں لاک ہوتی اور اور اسکی موجودگی میں کسی کی ہمت نہ ہوتی وہاں جانے کی

کونے میں ایک صوفہ پڑا تھا جس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا اسٹڈی ٹیبل تھا پورے کیبن میں جگہ جگہ کتابوں اور فائیلوں کے ڈھیر لگے تھے لیکن پھر بھی کمرے میں جگہ کم پڑ رہی تھی ایک کھڑکی کے پاس چھوٹا سا شیشہ لگا تھا اور اس کا سامان جس میں پرفیومز اور کنگھا شامل تھا کھڑی میں ہی پڑے تھے جس کمرے میں ادا قیام کر رہی تھی وہاں وہ امیر کی کچھ چیزیں دیکھ چکی تھی لیکن اسے یہ نہیں پتہ تھا اس کہ وہ اسے اپنا پورا کمرہ سونپ کر خود کتنا تنگ ہو رہا تھا اندر ہی اندر وہ خود سے شرمندہ ہو رہی تھی اس بات خیال نہ آیا کہ گھر میں ایک ہی سونے کے لائق کمرہ تھا تو وہ کہاں سوتا ہوگا کمرے میں داخل ہو کر اس نے گلا کھنکارا امیر اپنے اوپر پرفیوم چھڑک رہا تھا وہ مڑا ایک پل کو نظریں ٹھہر گئیں سبز رنگ میں کوئی اتنا حسین لگ سکتا تھا ایسا لگتا تھا یہ رنگ صرف اسی کے لیے ہی بنا تھا اور دل میں ماشاءاللہ بولتا اس تک آیا لیکن اس پر یہ ظاہر بھی نہ ہونے دیا کہ وہ تعریف کے قابل لگ رہی تھی۔۔۔۔۔

دوسری طرف امیر بلاشبہ وہ وجیح تو پہلے ہی تھا لیکن آج کالے سوٹ پر گندمی رنگ کی چادر جسے اس نے کندھوں پر ڈالا تھا براؤن سر اور ڈاڑھی کے بالوں کے ساتھ ہیزل آنکھیں وہ کسی انگریزی ہیرو کم شان نہیں رکھتا تھا۔
"مجھے لگا آپ نہیں آئیں گی"
"زبان دی تھی میں نے اور ادا بنت عبدالحمید اپنی زبان سے نہیں پھرتی"
"آپ یہ جوڑا پہن کر وہاں نہیں جائیں گی" وہ نظریں چراتا ہوا بولا
ادا نے ایک نظر اپنے آپ کو دیکھا اور کہا "کیا ٹھیک نہیں لگ رہا "

"اس نے اس کی چادر جو اس نے پھیلا کر سر پے لی تھی اس نے اس کا ایک پلو پکڑا اور اس کے چہرے پر ڈال دیا کہ چہرے کا نقاب ہو جائے "اب کچھ بہتر ہے"
"دراصل ان لوگوں کی خواتین شرعی پردہ کرنے والی ہیں اور ان میں رواج ہے کہ کوئی عورت اپنا چہرہ غیر مرد کو نہیں دکھاتی اس لیے آپ اسے پلیز پن آپ کر لیں
"مجھے نہیں آتا اب کیا ایک ہاتھ سے اسے پکڑے رکھوں گی "
"میرے پاس ایک ہل ہے"

"اس نے اسے اجازت طلب نظروں سے اسے دیکھا دوسری طرف اس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔ رخساروں کانوں اور ناک کی لالی ہر کے پاس آنے پر بڑھتی جا رہی تھی
اس نے اس کی چادر اس کے سر سے اتاری ادا کی جھکی نظریں اٹھیں اس کی آنکھوں سے ٹکرائیں لیکن پھر جھک گئیں اس کی سانسوں کی رفتار مزید بڑھتی جارہی تھی امیر نے اس کے بال جو کہ پیچھے سے کیچر میں بندھے تھے اور کمر کو چھو رہے تھے اس نے اس کے پیچھے جا کر انہیں کیچر میں فولڈ کر کے جوڑا بنایا سر پر لگی پنوں سے ایک پن اتاری پھر اسے حجاب اسٹائل سے چادر اوڑھائی سائیڈ سے چادر کا ایک سرا پکڑا اس کا نقاب کیا اور پن لگا دی اب صرف اس کی ہری آنکھیں ہی نظر آرہی تھیں اس کا بس چلتا تو انہیں بھی ڈھک دیتا

امیر اپنا کام کر کے ادا کو ساکن چھوڑے وہاں سے جا چکا تھا اسے ہوش تب آیا جب رومان نے اسے آواز دی
"میم کمانڈر گاڑی میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں"
اپنی بے اختیاری اور امیر کی اس حرکت پر اسے بے حد غصہ آیا جو گاڑی میں بیٹھتے ہی اڑن چھو ہوا

گاڑی امیر کے پرفیوم کی خشبو سے معطر تھی وہ خوشبو اس کے ہواسوں پر چھا رہی تھی وہ اپنے دل کی کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ آخر اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے جبکہ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا دل کسی کیفیت نہیں جذبے کی زد میں تھا"

_________________________________________

ادا بنت عبدالحمید Where stories live. Discover now