قسط نمبر 7

9 3 0
                                    

وہ پنچینگ بیگ پر مکے برسا رہی تھی وہ کسی نہ کسی شخص پر اپنا غصہ نکالنے کی بجائے پنچینگ بیگ پر اپنا سارا غصہ اتارتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امیر حیدر اس کے پاس آیا ۔۔۔۔۔۔۔
"مبارک ہو ہماری شادی ہو رہی ہاس کا انداز چڑانے والا تھا
"اوقات میں رہو" "میری اوقات میں اچھے سے جانتا ہوں البتہ آپ کی اوقات بھی کچھ دیر میں بدلنے والی ہے"
"میری اوقات جاننے کے لیے محض ایک لفظ ہی کافی ہے اور وہ ہے "ملکہ" جو تمہیں بخوبی تمہاری کمتری سے آگاہ کرتا ہے کہ کیا حیثیت رکھتے ہو تم میرے سامنے"

"یہ یہی بات تو آپ کی مجھے زہر لگتی ہے دراصل مجھے آپ کے لہجے سے امیری کی بو آتی ہے خود کو زبر کرنے کی کوشش مت کریں کیونکہ وہ مقام صرف خدا کو حاصل کے بہتری اسی میں ہے کہ ابھی ہی زیر ہو جائیے کیونکہ آگے پیش ہونا ہے۔ اور میرے چھوٹےہونے پر بھی مجھے فخر ہے کیونکہ میں چھوٹا ہوں تبھی اتنی بڑی نعمت سے مجھے خدا نے نوازا ، چھوٹا ہونے میں ہی بھلائی ہے بڑا ہونے پر تو ماں بھی گود سے نکال دیتی ہے "

"جو بھی کہ لو مجھے تم سے تو بلکل شادی نہیں کرنی" "آپ کے لیے کوئی شہزادہ تو آ نہیں سکتا کیونکہ آپ خود ملکہ ہیں اور خدارا اللہ کے کاموں میں دخل دینا بند کیجئے اللہ سپریم ہے وہ جو کرتا اور فرماتا ہے وہ ٹھیک اور بہتر ہوتا ہے اگر آپ اس کی تحقیقات بطور ...

Oops! This image does not follow our content guidelines. To continue publishing, please remove it or upload a different image.

"جو بھی کہ لو مجھے تم سے تو بلکل شادی نہیں کرنی" "آپ کے لیے کوئی شہزادہ تو آ نہیں سکتا کیونکہ آپ خود ملکہ ہیں اور خدارا اللہ کے کاموں میں دخل دینا بند کیجئے اللہ سپریم ہے وہ جو کرتا اور فرماتا ہے وہ ٹھیک اور بہتر ہوتا ہے اگر آپ اس کی تحقیقات بطور ملکہ یا انسانی عقل سے کریں گی تو یہ امپاسیبل ہے یہ ہم انسانوں کے بس کا روگ نہیں جو جیسے ہو رہا ہے اسے خدا کی رضا سمجھ کر دلی رضامندی سے قبول کریں جو کام اللہ کی رضا سمجھ کر کیا جائے خدا اس کام میں برکت ضرور ڈالتا ہے"
وہ اپنی آنکھوں پر چشمہ چڑھائے باہر نکل گیا

وہ امیر کی بات پر دھنگ رہ گئی وہ تو نومولود تھی جب وہ ماں کی گود سے محروم ہو چکی تھی تو کیا وہ پیدا ہی بڑی ہوئی تھی جو ماں بھی اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکی عجیب الجھن میں جھونک گیا تھا وہ اسے کسی ماں کے لال میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ اس کی کسی بات پر انکار کرتا جبکہ وہ اسے کھڑی کھڑی سنا کر اس کی اصل اوقات یاد دلا گیا وہ کیوں اس کے سامنے لاجواب ہو جاتی تھی کوئی اس سے اس طرح بات کرتا تو اسے اس کی کڑی سزا دیتی اگر اسے اس کی ذہریلی باتیں بھی بری نہیں لگتیں یا وہ ان پر ریایکٹ نہیں کر پاتی تو کیا وہ اس سے محبت کرنے لگی ہے "شٹ ادا کیا بکواس سوچ رہی ہو محبت وہ بھی اس دو ٹکے کے کمانڈر سے امپاسیبل!"

_________________________________________

لگاتار بلٹ پروف گاڑیاں محل میں داخل ہو رہی تھیں وہ ادا بنت عبدالحمید کے محل کے داخلی دروازے کے سامنے آ کر رکیں اور ان میں موجود پاکستان سیکرٹ ایجنٹس کی ٹیم نمبر 27 باہر نکلی سب کے سب فل کالے یونیفارم جو کہ تھری پیس پینٹ کوٹ تھا اس کے ساتھ کانوں میں ائیر پیس پہنے باہر نکلے۔ کمانڈر امیر حیدر اس سب کو لیڈ کرتے محل میں داخل ہوئے جہاں جنرل عادل پہلے ہی کھڑے ان کا انتظار کر رہے تھے ان سب نے انہیں سیلوٹ کیا۔
"کمانڈر امیر سلطان آپ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں"

_________________________________________

"سلطان آپ نے بلایا!"
"ہاں بیٹھو" وہ اسے اپنے سامنے صوفے پر بیٹھنے کا بولے۔
"تم جانتے ہو تمہارے والد کا جسم دوہا میں کیوں دفن ہے" "امیر کے لیے یہ سوال غیر متوقع تھا اور نہ ہی وہ اسے کا جواب جانتا تھا ایک پاکستانی ہوتے ہوئے انہیں کویت سپرد خاک کرنا بہت حیران کن تھا ضرور اس کے پیچھے ایک کہانی تھی لیکن کیا تھی وہ نہیں جانتا تھا۔۔۔۔۔۔۔ "سلطان یقیناً اس راز جو جانتے ہیں؟" تیس سال پہلے مجھ پر ملک کے غدار نے قتل کرنے کے ارادے سے حملہ کیا تھا جس سے میں خدا خدا کر کے بچ گیا ۔۔۔۔۔میں کسی پر بھروسہ نہیں کر سکتا تھا حتیٰ کہ اپنے قابل اعتماد لیفٹیننٹ پر بھی نہیں۔۔۔۔۔ میرے ایک قریبی دوست ساشائی نے تمہارے والد سبطین کا مجھے بتایا۔۔۔۔۔ بہت روشن مستقبل کے ساتھ وہ ایک ہنر مند سپاہی تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عزم تھا وہ تمہاری طرح ایماندار تھا۔ بارہا! بارہا وہ میری اور میری بیٹی کی جان بچا چکا ہے۔۔۔۔۔ ایک روز تمہارے والد دشمنوں کی گرفتاری کے لیے ریڈ کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔۔۔۔۔

مرنے سے پہلے اس نے مجھ سے عہد لیا کہ وہ اس کے جسم کو دوہا میں ہی دفن کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جانتے ہو اس کی آخری خواہش اپنی بیوی اور تمہیں آخری بار دیکھنا ہی تھی۔۔۔۔۔۔ میں نے ایک ٹیم تمہیں اور تمہاری ماں کو لینے پاکستان بھی بھیجی تھی لیکن تمہاری ماں کا کہنا تھا کہ وہ تمہارے باپ سے طلاق لے چکی ہے اور اس کا اور تمہارا اس سے کوئی رشتہ نہیں تاہم تم لوگ نہ مل سکے۔۔۔۔۔۔"
سلطان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا" یقین کرنا مشکل ہے کہ آخر تمہارے باپ کی پکار تمہیں یہاں تک لے آئی دیر سے ہی سہی لیکن تمہیں دوہا میں دیکھ کر خوشی ہوئی" "یہ آپ کا بڑا پن ہے سلطان کہ آپ مجھ پر بھروسہ رکھتے ہیں اور مجھے میرے والد کے بارے میں بتایا ورنہ شاید میں اپنے باپ کی قبر تلاش کرنے کی خواہش کے ساتھ ہی دم توڑ دیتا لیکن یہ نہ جان نہ پاتا کہ جس زمین پر میں پچھلے دو سال سے مشن پر ہوں میرے باپ کی آخری آرام گاہ بھی اسی زمین کا ٹکڑا ہے۔۔۔۔ لیکن سلطان ملکہ سے شادی وہ مجھے کبھی قبول نہیں کریں گی۔۔۔۔۔"

"ہاہا جانتا ہوں میں جب تم عادل سے ادا جیسی سائیکو سے شادی کرنے کو انکار کر رہے تھے خوش قسمتی سے میں اور ادا وہیں تھے اور غالباً آپ سے بات ہی کرنے والے تھے کیونکہ وہ اپنے انکار پر ڈٹی ہوئیں تھیں لیکن آپ کے انکار نے ان کے اندر بھڑکتی ہوئی انا کی آگ کو اور ہوا دی اور زد میں ہی سہی وہ اب آپ ہی سے شادی کریں گی۔۔۔۔ایک فیصلہ جو وہ کر لے اسے اس سے ایک انچ بھی آگے پیچھے نہیں کیا جا سکتا بیٹے ۔۔۔۔۔۔۔

ادا بنت عبدالحمید Where stories live. Discover now