قسط نمبر 12

7 3 0
                                    

میم آپ نے جو ریپوٹ تیار کرنے کو بولا تھا وہ میں آپ کو میل کر چکا ہوں آپ اس وقت کہاں مل سکتی ہیں مجھے ضروری پوائینٹس ڈسکس کرنے تھے آپ سے "
اس کا ایک سیکرٹری جسے اس نے اپنی آفیشل کام کے کیے رکھا تھا اسے کہنے لگا
"میں ولڈ ٹور پر ہوں مجھے زیادہ وقت لگ سکتا ہے اس لیے جو بھی بات ہے وہ آپ مجھے ڈائیریکٹ میل کر دیں یا مجھے اون لائن میٹینگ کے دوران بتا دیجئے گا"
"اوکے میم"
اس نے دوہا محل میں موجود اپنی پرسنل سیکرٹری زوہا کو کال کی
"زوہا کیا رپورٹ ہے "
" میم محل میں سب کو بس یہی پتہ ہے کہ آپ ولڈ ٹور پر ہیں جس کے بعد اپنے الاحمدی پیلس ہی واپس جائیں گی"
"گڈ

امیر اس کی تمام گفتگو ائیر پیس سے سن رہا تھا جب رومان اس کے پاس آیا "بدلے بدلے سے میرے سرکار ہیں"
"واٹ ربش" وہ جانے لگا جب رومان اس کے راستے میں ہائل ہوا "صبح میں نے دیکھا آپ کس طرح ملکہ کو اپنی باہوں کے سہارے جیٹ سے لا رہے تھے اور سونے پی سہاگا اپنی جیکٹ بھی مادام کو پہنا رکھی تھی واہ کیا پی مست سین تھا"
اسکی زبان کو تب بریک لگی جب اس کا کان امیر کی سخت گرفت تھا وہ درد سے دوہرا ہو رہا تھا "معاف کردیں باس اب نہیں ہوگا ایسا آ آآ چھوڑ دیں نا"

"اب میں تمہارے منہ سے یہ بکواس نہ سنوں کونسی سستی فلمیں دیکھتے ہو" "باس آج تک تو کوئی نہیں دیکھی بلکہ آج تو لائیو نظارہ آآآآ "دفع ہو جاو" وہ اپنا کان سلاتا وہاں سے جانے لگا لیکن رکا اور بولا
"باس مس زوہا نے بولا تھا کہ اس دنیا میں صرف سلطان ہی ہیں جو اپنی بات ادا میم سے منوا سکتے ہیں لیکن آپ کا شمار بھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی وہ کچھ اور بولنے ہی والا تھا کہ اپنی گردن امیر کے ہاتھ میں محسوس ہوئی "چل شاباش کلمہ پڑھ"

"باس خدا قسم جان بوجھ کر نہیں بولا آپ جانتے ہیں جب میرے پاس بتانے کو کچھ ہو تو میرا پیٹ پھولنے لگتا ہے جب تک بتا نہ لوں سانس نہیں آتا "لگتا ہے تو پھپے کٹن عورتوں سے شاگردی لے کر آیا ہے تیرا پیٹ تو ایسا صحیح کرتا ہوں کہ پھر کبھی خراب ہونے کی غلطی نہیں کرے گا۔۔۔۔"

_________________________________________

"بابا سلطان یہ میں کیا سن رہی ہوں کیا میرا یہاں آنا شادی کرنا کم تھا کہ آپ نے بسام بھیا کو جانشینی سونپ دی"   "ہر گز نہیں میرے جیتے جی ایسا ناممکن ہے وہ بس پریس بلا کر آپ کے خلاف بکواس ہی کر سکتا ہے اور کچھ کرنے کی طاقت نہیں اس میں
"بابا آپ کو کیا لگتا ہے زینب خاتون، سلطانہ اور ان کے بچے کیا وہ زیادہ دیر تک میرا منظر سے غائب رہنا اور اس خالی نشست کو برداشت کریں گے"   "انہیں کرنا پڑے گا لیکن اچھا ہے کہ بسام نے پریس بلا کر ہمیں چوکس کر دیا۔۔۔۔۔۔اس طرح ہمیں پتا تو لگا کہ کون ہمارا دشمن ہے اور کون دوست۔۔۔۔۔۔۔۔

_________________________________________

"آپ نے میڈیا میں یہ خبر کیوں پھیلائی کہ ادا ہلاک ہو چکی ہے۔ اس طرح لوگ ہمارے خلاف ہو رہے ہیں کہ ہم نے یہ خبر کیوں چھپائی جبکہ وہ بلکل زندہ ہے اور دوسرے ملکوں میں عیاشیاں کرتی پھر رہی ہے  ہمیں دنیا کی گالیوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے " جلال نے بسام سے کہا جو پرسکون اپنے کمرے میں بیٹھا سیگار کے کش لے رہا تھا

"یہ بڑوں کا معاملہ ہے تم ابھی بچے ہو ان کاموں سے دور رہو" 
"شٹ اپ میں بچہ نہیں ہوں"
"تم نہیں چاہتے کہ تمہارا بھائی سلطنت کا جانشین بنے ادا کی موت تو ایک مہرا تھی تا کہ اسے ایک طرف ہٹا کر ہم اپنا کام کر سکیں"
"جو بھی ہے اس طرح ملک کو بہت نقصان ہو گا میں کہتا کوں اب بھی باز آ جاو نہیں تو اس کا خمیازہ سب کو بھگتنا پڑے گا"

"تمہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں مجھے اچھے سے پتہ ہے کیا کرنا ہے تم جاؤ عیاشی کرو جو کہ تمہارا اولین مقصد ہے اپنا مستقبل تباہ کر بیٹھے ہو ان چیزوں کے  پیچھے مجھے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا "

"اور آپ آپ کیا کر رہے ہیں کم از کم میں کسی کا نام چھین کر اپنا جھوٹا نام تو نہیں بنا رہا نا جو ہوں وہ ساری دنیا کو پتہ ہے آپ کی طرح کالی بھیڑ تو نہیں بنا"  
"بس!!!! اپنی آواز کو لگام دو بسام نے پوری قوت لگا کا تھپڑ اس کے گاہ پر مارا وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے بے یقینی سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھنے لگا

"مجھے آپ سے اس قدر گر جانے کی امید نہیں تھی بھائی میں بابا سلطان کو سب سچ بتا دوں گا"
"ایسا کر کے تمہیں لگتا ہے کہ تمہاری وہ زوہا بچ پائے گی؟"
جلال نے بے یقینی سے بسام کی طرف دیکھا "ایسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ سوچ رہے ہیں اسے کچھ مت کہیے گا "

"کیوں کیا لگتی ہے وہ نوکرانی تمہاری؟"
"نوکرانی نہیں ہے وہ" وہ پورے زور دے چلایا کہ باہر کھڑے خادم بھی حیران ہوئے "بس یہی پتہ کرنا تھا کہ تمہارے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہارا ایک بھی قدم لڑکھڑایا تو اس بیچاری کو اپنی جان سے جانا پڑے گا"
"بھائی خدا کا واسطہ آپ کچھ بھی کریں پلیز اسے کچھ مت کہیئے گا میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا یہ وعدہ ہے میرا آپ سے 
  "اتنا پسند کرنے لگے کہ اس کی خاطر تمہیں جھوٹ کا ساتھ دینا پڑ گیا۔۔۔۔ کن کاموں میں پڑ گئے چھوٹے"    
"بھائی مجھے میرے ہال پر چھوڑ دیں میں جیسا بھی ہوں خوش ہوں مجھے کچھ نہیں چاہیے"   "تم جانتے ہو جیسا تم سوچ رہے ہو ماں کو معلوم ہوا تو سب سے پہلے زوہا کا پتہ صاف ہوگا"
"کسی کو کچھ پتہ چلے یا نہ چلے میں خود بابا سلطان سے بات کروں گا اس بارے میں"     "چلو یہ کر کے بھی دیکھ لو"

_________________________________________

ادا بنت عبدالحمید Where stories live. Discover now