قسط نمبر 17

9 3 0
                                    

جلال جانشینی اپنی پوری ایمانداری سے نبھا رہا تھا اپنی ماں اور بہن بھائیوں کی مخالفت کے باوجود عوام کے اختلاف اور انقباض کے برعکس وہ ادا کے تمام پراجیکٹس دانشمندی سے پائہ تکمیل تک لے جارہا تھا۔ تھوڑے عرصے میں ہی وہ ادا اور سلطان کے سابقہ سرکاری اور غیر سرکاری معاملوں کو سلجھا کر انہیں نئے پیرائے میں پرو چکا تھا۔ وہ زوہا کو بھی اسی بات کا یقین دلانا چاہتا تھا کہ وہ خود اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکتا ہے اس میں بھی وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو ایک صاحب وقوف سلطان میں پائی جاتی ہیں اسی لیے اس نے اس تمام عرصے میں زوہا کی طرف رجوع نہ کیا وہ اپنی تمام تر کامیابیوں اور عوام کی خوشنودی سمیت اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ بسام اسے اسکی بے خبری کو ہی ہدف بنا کر ذوہا کو اغواء کروا چکا تھا۔۔۔۔۔

_________________________________________

"ڈن سر کل بسام زوہا کا کیڈنیپ کروائے گا" ائیر پیس سے کیپٹن آدھین کی آواز گونجی
"گڈ آپ کو اپنا رول یاد ہے نہ
you're a cunnicamouflaged person and you've to play cunningly"

"یس سر"

_________________________________________

وہ کھدر کا گلابی سوٹ پہنے اس پر دو موٹے موٹے سویٹر ان کے اوپر ایک جیکٹ چڑھائے سر پر بڑی چادر کے نیچے اونی ٹوپی ہاتھوں پر گلوز اور پیروں میں لونگ بوٹس پہنے باہر آئی جہاں امیر اس کا انتظار کر رہا تھا اس کے پاس کھڑے ہو کر اس نے گلا کھنکارا جو فون پر مہوگفتگو تھا
امیر نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہی قہقہہ لگایا اور کہا آپ ایسے جائیں گی؟

"تو ایسے کیا ہے باہر اتنی سردی ہے اور مجھے اس موسم کی عادت نہیں ہے ٹھنڈ لگ گئی تو؟"
وہ تو ٹھیک ہے لیکن بھالو بننے کی کیا ضرورت تھی اتنے سویٹرز کیوں پہنے ہیں آج موسم ٹھیک رہے گا دیکھیں سورج بھی نکل چکا ہے باقی سب ٹھیک ہے یہ جیکٹ اتار دیں"
" نہیں تم مجھے مارنا چاہتے ہو بہت سردی ہے میں نہیں اتار رہی تمہیں نہیں لے کر جانا تو مت جاؤ میں خود چلی جاتی ہوں"
"اوکے چلیں"
وہ دونوں اونچے نیچے راستوں سے نیچے وادی کی طرف آئے جہاں سڑک کنارے ایک پراڈو کھڑی تھی امیر نے اس کے لیے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا لیکن وہ فرنٹ ڈور کھول کر ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ بیٹھ گئی امیر نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور ان کی گاڑی سکردو کی برف سے ڈھکی شاہراوں پر رواں ہوئی پہاڑ کی چوٹیوں پر برف پڑی تھی۔۔۔۔۔

آج سورج جوش و خروش سے چمک رہا تھا سورج کی کرنیں برف پڑ پڑ رہیں تھیں جس کی وجہ سے برف چمک رہی تھی دور سے دیکھنے سے برف پر سورج کی کرنوں سے ہیروں کا گمان ہوتا تھا ان کی گاڑی ایک ایسی شاہراہ پر سے گزر رہی تھی جس کی دونوں طرف اونچے اونچے درخت تھے۔
"یہ کون سے درخت ہیں پہلے کبھی نہیں دیکھے"

"یہ صنوبر کے درخت ہیں ابھی تھوڑی آگے میرے ایک جاننے والے کا فارم ھاوس پے ہم ابھی وہیں جا رہے ہیں آپ کو وہاں جا کر اچھا لگے گا "
وہ دونوں ایک وسیع و عریض رقبے پر فائز ایک فارم ھاوس پہنچے جہاں کچھ لوگ باہر بیٹھے دھوپ چائے اور خشک میوہ جات سے لطف اندوز ہو رہے تھے امیر ادا کے ساتھ وہاں گیا راہداری پر ہی اسے اپنا دوست مل گیا
"اسلام علیکم وروره څنکه یی" (میرا بھائی کیسا ہے)
وہ دونوں گرم جوشی سے ملے اس دوران ادا پیچھے کھڑی ان کی زبان سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی
"وعلیکم السلام الله شکر دی"

ادا بنت عبدالحمید Where stories live. Discover now