last episode part 2

2.7K 137 95
                                    

Sorry he is no more
ہم نے بہت کوشش کی لیکن ہم آپ کے پیشنٹ کو بچا نہیں سکے - ڈاکٹر یہ کہ کر وہاں سے چلا گیا
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون - شجاع حیدر نے ڈاکٹر کے الفاظ سنتے ہوئے کہا

موحد نے ڈاکٹر کے الفاظ سنے اسے لگا کسی پگھلتا سیسہ اس کے کانوں میں انڈیل دیا ہے
وہ وہاں کھڑا نہیں ہوپارہا تھا اس کے پیر کھڑے ہونے سے ہی انکاری تھے
اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے
کل تک وہ سب ساتھ تھے ہنس بول رہے تھے آج وہ ان لوگوں کو چھوڑ کر چلا گیا تھا
موحد وہی فرش پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا
اسکی آنکھوں سے آنسو بہے چلے جارہے تھے
شجاع حیدر اس کے پاس آئے اور اسے اٹھایا
موحد تمہیں ضحی کو سنبھالنا ہے تمہیں حوصلہ نہیں ہارنا ورنہ میں ضحی کو کیسے سنبھالونگا - شجاع حیدر بے بس لہجے میں بولے
اور وہ موحد کو لے کر باقیوں کے پاس آگئے
موحد اور اس کے بابا کو وہاں آتے دیکھ کر المان سب سے پہلے ان کے پاس آیا
موحد کیسا ہے سعد ڈاکٹر نے کیا کہا - المان ایک سانس میں بولے جارہا تھا ایکسیڈنٹ کے بعد کچھ ٹائم تک المان کو کوئی ہوش ہی نہیں تھا کہ ہوا کیا ہے لیکن موحد اور ان سب کے آتے ہی حوصلہ ملا اور اس نے تب سے سعد کے لیے دعائیں شروع کردی تھی اور اب موحد کے آتے ہی وہ بھاگ کر اس کے پاس گیا تھا
لیکن موحد کوئی جواب نہیں دے پارہا تھا
بیٹا سعد اب ہمارے ساتھ نہیں رہا - موحد کے بابا بولے
انکل یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں !!! موحد انکل کیا کہہ رہے ہیں یہ جھوٹ ہے نا - المان کی آواز اونچی ہوگئی تھی وہ موحد کو جھٹکتے ہوئے کہہ رہا تھا
موحد کچھ کہہ نہیں پارہا تھا اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں
موحد بول نا - المان نے ایک پھر چیختے ہوئے کہا ۔المان سعد نہیں ہے اب - موحد نے گھٹتی آواز میں کہا
کہا بکواس کررہا ہے موحد !!!! ہٹ یہاں سے میں جاکر اسے اٹھا کر آتا ہو ایسے کیسے اتنے ٹائم تک خاموشی سے لیٹا ہوا ہے - المان نے موحد کی بات سنتے ہوئے اسے سامنے سے ہٹاتے ہوئے غصے سے کہا
المان نہیں - موحد نے المان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بس اتنا کہا
موحد مجھے سعد کو دیکھنے دے نا وہ ٹھیک ہے بس وہ ہمیں یونہی پاگل بنارہا ہے تو ہٹ نا یہاں سے - المان نے آخر میں موحد کا ہاتھ جھٹکا تھا
المان سعد مرچکا ہے وہ ہمیں چھوڑ کر جا چکا ہے وہ مذاق نہیں کررہا وہ نہیں رہا ہمارے ساتھ - موحد نے آواز بلند کرتے ہوئے کہا 
المان کے قدم رک گئے نا وہ آگے بڑھ سکا نا کچھ بول سکا
اسے سعد کی بات یاد آئی تھی

اس نے کہا تھا وہ مرجائے گا
وہ واقعی مرگیا

اسی دوران جبرائیل کا فون بج اٹھا
-----------------

ضحی نے جبرائیل کو کال کی کہ شاید اسے پتا ہو کہ سعد کس ہاسپٹل میں ہے کیونکہ تین گھنٹے ہوچکے تھے اور ارسل کی کال نہیں آئی تھی
جبرائیل نے پہلے تو کال نہیں اٹھائی
اس کے بعد اس نے خود کال کی
---------------
موحد ضحی کی کال ہے - جبرائیل نے کہا
اسے کال کرکے بول کہ ہم سعد کو لے کر آرہے ہیں اور آنٹی کو بتا سعد کے بارے میں - موحد نے آہستگی سے کہا
جبرائیل نے ضحی کو کال کی
جبرائیل آپ کو پتا ہے کہ سعد کس ہاسپٹل میں ہے - ضحی نے جلدی سے کال پک کی اور جبرائیل کی آواز سنے بغیر ہی بولنا شروع کردیا
ضحی ہم ابھی سعد کے ساتھ آرہے ہیں گھر پر تم ایسا کرو آنٹی کو فون دو - جبرائیل نے لہجہ نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا
اوکے میں فون دیتی ہوں انکو - ضحی نے خوش ہوتے ہوئے کہا اسے لگا سعد ٹھیک ہوکر آرہا ہے
ضحی حسنہ کے کمرے میں گئی اور فون انکو دیا اور خود وہ وہاں سے چلی گئی اور گیٹ کے پاس جاکر کھڑی ہوگئی تا کہ جیسے ہی سعد آئے تو وہ اس کو اندر لے آئے
آنٹی آپ موحد کے بابا سے بات کریں - جبرائیل نے حسنہ کی آواز سنتے ہی کہا
اسکی ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ ان سے وہ سب کچھ کہتا
جبرائیل کو وہ وقت یاد آیا جب اس کے بابا کی ڈیتھ ہوئی تھی وہ حنین کو دھوکے سے ہاسپٹل لے کر آیا تھا اسی طرح آج اس نے ضحی کو بھی آدھا سچ بتایا تھا
اور آنٹی کی آواز سن کر اسے اپنی ماما کا چہرہ یاد آیا وہ کچھ بول نہیں پارہا تھا اس لیے اس نے فون موحد کے بابا کو دے دیا
انہوں نے حسنہ کو سعد کے بارے میں بتایا اور ضحی کو ابھی بتانے سے منع کیا
حسنہ نے انکی بات سن کر فون رکھ دیا اور وہ اٹھ کر ضحی کے پاس آئی
------------------
جبرائیل نے کال کرکے اپنی ماما اور زری کو بتایا 
اور کہاں کہ وہ ان لوگوں کو لینے کے لیے آرہا ہے
ارسل نے عائلہ کو بتایا
موحد نے نائلہ کو فون کیا اور انہیں پوری بات بتائی اور انہیں منع کیا کہ وہ حنین کو نا بتائے کیونکہ موحد جانتا تھا کہ حنین کی زندگی میں سعد کی کیا اہمیت ہے وہ باقی دوستوں کی بھی بہت فکر کرتی تھی لیکن سعد کو جبرائیل کے برابر ہی رکھتی تھی وہ جتنا جبرائیل سے پیار کرتی تھی اتنا ہی سعد بھی اسے عزیز تھا
---------------
بابا آپ لوگ ساتھ چلے جائیں میں اور جبرائیل جاکر باقی گھر والوں کو لے کر وہاں پہنچتے ہیں
---------------
کچھ دیر میں موحد گھر پہنچ گیا
سب سے پہلے وہ نائلہ کے پاس آیا وہ اپنے روم میں بیٹھی تھی
ماما - موحد نے نائلہ کو پکارا
موحد کیا ہوگیا یہ سب - نائلہ موحد کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی
ماما اللہ تعالیٰ کی مرضی کے آگے ہم کچھ نہیں کرسکتے - موحد خود کو مضبوط کیے اپنے آنسوؤں کو زبردستی روکتے ہوئے اپنی ماما کو تسلی دے رہا تھا
ہم ضحی کو کیسے بتائیں گے !! وہ تو ٹوٹ جائے گی - نائلہ نے بتایا
ماما آپ پلیز جلدی سے عائلہ کو لے کر گاڑی میں جاکر بیٹھ جائیں میں حنین کو لے کر آتا ہو - موحد نے انکی بات کا جواب دیے بغیر کہا کیونکہ اس بات کا موحد کے پاس کوئی جواب نہیں تھا
---------------------
آنٹی کیا کہا جبرائیل نے کب تک آئیں گے وہ لوگ - ضحی نے خوشی خوشی پوچھا
بس ... اب .. ابھی آنے والے ہیں - حسنہ نے اٹکتے ہوئے جواب دیا
بیٹا بیٹھ جاؤ یہاں - حسنہ نے اسے وہاں سے ہٹانا چاہا
آنٹی سعد کو کے لیے کھڑی ہوں میں بس وہ آجائے تو پھر ساتھ بیٹھ کر ولیمے کی پلاننگ کرتے ہیں کہ کس طرح تیار ہونا ہے اور وہ مجھے کوئی گفٹ دینے والا تھا اگر وہ کوئی جیولری ہوئی تو چاہے سوٹ کے ساتھ میچنگ کی نا ہو میں وہی پہنونگی - ضحی جلدی جلدی اپنی بات مکمل کررہی تھی
اس کے ساتھ ارحم جبرائیل اور المان لوگ ہونگے نا وہ اندر تک لے آئینگے اسے تم آؤ بیٹھ جاؤ اندر - حسنہ نے اسکی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا
اور ضحی کو زبردستی اس روم میں بٹھایا جو کہ گیٹ کے بعد پہلا ہی کمرہ تھا اور خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئی
ضحی کی نظریں گیٹ پر جمی ہوئی تھی
جبکہ حسنہ بار بار اپنے آنسو پونچھ رہی تھی کہ کہی ضحی انہیں روتے ہوئے دیکھ نا لیں
کچھ دیر تک وہ لوگ انتظار میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی ضحی وہاں سے بھاگ کر جانے والی تھی کہ حسنہ نے اسکا ہاتھ پکڑا
بیٹا میں دروازہ کھول کر آتی ہوں - حسنہ نے کہا
نہیں آنٹی آپ بیٹھے میں بس دروازہ کھول کہ آئی - ضحی نے اپنا ہاتھ آہستگی سے چھڑاتے ہوئے کہا اور بھاگ کر وہاں سے چلی گئی
ضحی نے دروازہ کھولا تو سب سے پہلے ارسل اندر آیا
بھائی سعد کہاں ہے - ضحی نے مسکرا کر ارسل سے پوچھا
تم ادھر آؤ میرے ساتھ سعد کو بابا لوگ لے کر آرہے ہیں - ارسل نے ضحی کو اندر لے جاتے ہوئے کہا
ان لوگوں نے ایمبولینس کا سائرن بند کروادیا تھا تاکہ ضحی سن نا سکے
اتنے میں المان اور ارحم بھی اندر آگئے
اور ضحی کے بابا کسی کو صحن طرف اشارہ کررہے تھے
ضحی نے المان لوگوں کو دیکھا تو وہ پیچھے مڑ کر سعد کو دیکھنے لگی
لیکن جیسے ہی اس نے سعد کو دیکھا وہاں سعد نہیں تھا وہ لوگ کسی تابوت میں بند کرکے لائے تھے
بابا سعد کہاں اور یہ کیا ہے - ضحی بولی اور  اپنے بابا کے پاس جانے لگی تھی
ارسل نے ضحی کو وہی روک دیا
بھائی جانے دیں مجھے میں بابا سے سعد کا پوچھ رہی ہوں - ضحی نے اس بات غصے سے ارسل کو دیکھتے ہوئے کہا
اتنے میں حسنہ بھی آہستہ آہستہ کرکے کمرے سے باہر آچکی تھی
آنٹی ارسل بھائی کو دیکھیں وہ میرا ہاتھ نہیں چھوڑ رہے - ضحی نے حسنہ کو دیکھتے ہوئے کہا
شجاع حیدر چلتے ہوئے ضحی کے پاس آئے
بیٹا سعد اب اس دنیا میں نہیں رہا - شجاع حیدر نے ضحی کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
بابا یہ آپ کیا کہہ ہیں یہ کون ہے آپ اسے یہاں کیوں لے کر آئے ہیں - ضحی نے ان کا ہاتھ اپنے سر سے ہٹاتے ہوئے کہا
بیٹا یہ سعد ہے - انہوں نے کہا
بابا یہ سعد نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ سعد نہیں ہے سعد میرے لیے گفٹ لینے گیا تھا کہاں ہے وہ - ضحی نے چیختے ہوئے کہا
المان سعد کہاں ہے تمہارے ساتھ گیا تھا نا - ضحی اپنے بابا کا کائی جواب نا پاکر المان کے پاس آئی
المان نے کوئی جواب نا دیا وہ خاموش کھڑا تھا
المان تم کچھ بول کیوں نہیں رہے ہو سعد کو کہاں چھوڑ کر آئے ہوں تم نے کوئی شرارت کی ہے نا - ضحی نے ایک بار پھر المان سے کہا
---------------
حنین بات سنو - موحد اپنے روم میں آیا تو حنین دوسری طرف رخ کرکے کھڑی تھی اس نے حنین کو بلایا
موحد آپ کہاں گئے تھے اتنی جلدی میں اور میری کال بھی ریسیو نہیں کررہے تھے کیوں - حنین نے اسکی آواز سنی تو رخ اسکی طرف کرکے پوچھا
حنین وہ سعد کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا....- اس سے پہلے کہ موحد کچھ اور کہتا حنین نے اسے بولنے نہیں دیا
سعد بھیا کا ایکسیڈنٹ !!!! وہ ٹھیک تو ہے نا - حنین نے تقریباً چیختے ہوئے کہا
چھوٹا سا !!!  ہاسپٹل میں تھے ہم ابھی ہم سعد کے گھر جارہے ہیں تاکہ تم اس کو دیکھ لو تمہیں تسلی ہو جائے گی تم گاڑی میں...... - موحد نے اپنے الفاظ پر زور دیتے ہوئے کہا
چلو جلدی - حنین نے موحد کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی کہا اور اس کے وہاں سے جانے سے پہلے وہ خود روم سے نکل گئی
اور گاڑی میں نائلہ اور عائلہ کو دیکھ کر وہ آگے والی سیٹ پر بیٹھ گئی
ماما آپ کو کب پتا چلا سعد کے ایکسیڈنٹ کا - حنین نے نائلہ سے پوچھا
اب .... ابھی مو...حد نے بتا..یا - نائلہ نے اٹکتے ہوئے کہا کہا
اتنے میں موحد بھی آگیا اور وہ لوگ وہاں سے روانہ ہوگئے
پورے راستے میں حنین گاڑی کی سپیڈ تیز کرنے کا کہتی رہی
--------------
المان خاموش تھا اور سر جھکا ہوا
المان تم کہاں لے کر گئے ہوں ہو سعد کو - ضحی نے اس بار المان کا کالر پکڑتے ہوئے کہا
المان اب بھی خاموش تھا
المان یہ سعد نہیں ہوسکتا سعد کہاں ہے !! تم کچھ بول کیوں نہیں رہے - ضحی المان کو کالر سے پکڑے چیختے ہوئے بول رہی تھی
اتنے دروازے سے موحد اندر آیا اور اس کے ساتھ حنین بھی اور اس سے پیچھے عائلہ نائلہ کو تھامے آرہی تھی
موحد کو آتا دیکھ کر ضحی بھاگتے ہوئے اس کے پاس آئی
بھائی ان سب کو دیکھیں ذرا کہہ رہے ہیں کہ سعد نہیں ہے اب یہ لوگ کسی اور کو یہاں لے آئے ہیں اور کہہ رہے ہیں یہ سعد ہے آپ پلیز مجھے بتائیں سعد کہاں ہے - ضحی موحد سے بولی
ضحی کی بات سن حنین کا دل دھک سے رہ گیا
وہ بھاگتے ہوئے موحد کے پاس صحن کے اس طرف گئی جہاں سعد کو تابوت میں بند رکھا گیا تھا
حنین نے وہاں جاکر اس تابوت میں سعد کا چہرہ دیکھا 
حنین نے اپنی چیخ دبانے کے لیے اپنے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ دیے
وہ بھاگتے ہوئے موحد کے پاس گئی
موحد تم ... تم نے مجھے جھوٹ بولا - حنین کی آواز قدرے تیز تھی
موحد تم نے کہا تھا سعد کو دیکھنے جارہے ہیں - حنین نے ایک پھر کہا
تم نے کہا تھا سعد کا معمولی سا ایکسیڈنٹ ہوا ہے تم نے کہا تھا ہم سعد کو دیکھنے جارہے ہیں - حنین نے ایک بار پھر کہا
ضحی موحد کے جواب کا انتظار کررہی تھی کیونکہ اسے بھی یہی کہا گیا تھا
حنین سعد نہیں ہے ہمارے ساتھ - موحد نے جواب دیا
لیکن  یہ جواب دونوں جواب طلب کرنے والوں میں سے کوئی ایک بھی سننا نہیں چاہتا تھا
ایسے کیسے نہیں ہے وہ مجھ سے فون پر بات کررہا تھا وہ آنے والا ہے وہ کہہ رہا تھا اس نے مجھے کوئی گفٹ دینا ہے - ضحی نے بے یقینی سے کہا
ضحی بیٹا صبر کرو میرا بچہ - نائلہ نے اسے خود سے لگاتے ہوئے کہا
ماما کس بات کے لیے صبر کروں میں آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہے - ضحی ماننا ہی نہیں چاہ رہی تھی
ضحی سعد کو آخری بار دیکھ لو اسکو زیادہ دیر رکھ نہیں سکتے - شجاع حیدر نے کہا کیونکہ سعد کا سر کی چوٹ کی وجہ خون بہت بہہ چکا تھا

محبتوں کا دریا ✅Donde viven las historias. Descúbrelo ahora