بکھرتے لمحے

2.7K 150 16
                                    

وہ زمین پر بےسود پڑا تھا کانچ کے ٹکڑے جگہ جگہ بکھرے ہوئے تھے آج اسکی امی گھر پر نہیں تھی وہ کسی کی عیادت کے لیے گئی تھی اور باپ تو اسکا پورا دن گھر سے باہر ہوتا تھا
کہ اتنے میں انکے گھر کے ملازم خورشید چاچا نے اسکے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا کیونکہ وہ لنچ اس ٹائم کرتا تھا
خورشید چاچا جو بہت عرصے سے انکے ساتھ تھا اور سعد کے کمرے میں اسے آنے کی اجازت تھی(( وہ واحد تھا جس کو سعد کے کمرے میں آنے کی اجازت تھی) اس نے تین بار دروازہ کھٹکھٹایا لیکن جب خلاف معمول کوئی جواب نہیں آیا تو اس نے خود دروازہ کھولا
سعد بیٹا اٹھو یہ کیا کیا ہے آپ نے ۔ خورشید نے بچ بچاؤ کرکے سعد کے پاس پہنچتے ہوئے فکر مندی سے کہا اس کو باپ کا پیار کبھی نہیں ملا تھا اس لیے وہ خورشید کی بہت عزت کرتا تھا خورشید کو بھی سعد بہت عزیز تھا اسکی اولاد نہیں تھی اس لیے اسے سعد کی شکل میں اپنی اولاد کی کمی پوری ہوتی محسوس ہوتی تھی
جب خورشید کو اندازہ ہوگیا کہ سعد کا اٹھنا ممکن نہیں تو اس نے سعد کا موبائل اٹھایا اور کیونکہ انہوں نے میڑک پاس کیا تھا تو وہ کانٹیکٹ کا  نام پڑھ سکتا تھا  تو وہ  اسکے دوستوں کو کال کرنے کے لیے اسکے کانٹیکٹ دیکھنے لگا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ اپنے باپ کے سائے سے بھی دور بھاگتا ہے کہ اتنے میں اسے ایک نام نظر آیا " اور وہ نام تھا ڈھیٹ دوست" انہوں نے اس نمبر پر کال کرلی
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
المان جب گھر آگیا تو وہ سعد کے بارے میں سوچنے لگا وہ اسکی حساس طبعیت سے واقف تھا اور پتا نہیں کیوں وہ کچھ الگ سوچنے پر مجبور ہورہا تھا اسکا ضحی کو دیکھنا اور موحد کی بہن ہونے پر ری ایکشن سب ایک ہی کہانی بیان کررہے تھےکہ اتنے میں اسے سعد کے نمبر سے کال آئی اسنے جلدی سے کال ریسیو کی
ہیلو بیٹا آپ سعد کے گھر آجائیں انہیں بہت چوٹیں آئیں ہے ۔وہاں غیرشناسہ آواز سن کر وہ ٹھٹھک گیا لیکن یہ وقت سوال جواب کا نہیں تھا اس لیے وہ اوکے کہتے ہوئے کال کاٹ کے باہر نکل آیا
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آج جبرائیل جلد ہی گھر آگیا تھا کہ اسکی ماما نے اسے آواز دی
جبرائیل بیٹا یہاں آئیے ۔ وہ ماما کی آواز سن کر ان کے پاس جانے لگا
جی ماما بولیں ۔ اس نے مؤدب لہجے میں کہا
بیٹا ہم نے آپ کے لیے ایک لڑکی دیکھی ہے اور یہ میری بہن کے سسرال میں دور کے رشتہ دار ہیں انکی بیٹی ہے مجھے تو بہت پسند آئی ہے ابھی وہ پڑھ رہی ہے یونی میں دو سال اسکے ضائع ہوگئے ورنہ وہ بھی اب تک تعلیم مکمل کرچکی ہوتی اور یہ دو سال صرف اس لیے ضائع ہوئے کہ اسکے بابا اسے اجازت نہیں دے رہے تھے وہ بچی بلاشبہ ایک مشکل زندگی گزار رہی ہے تم دیکھ لینا اگر تمہیں مناسب لگیں میری پسند تو بسم اللہ لیکن تمہاری مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا ۔ صباء سکندر نے اسے پوری بات تفصیل سے بتائی
ماما میں پہلے تو شادی کرنا نہیں چاہتا لیکن اگر آپ چاہتی ہے کہ میں شادی کرو تو جہاں آپ چاہے وہاں کردے کیونکہ میں جانتا ہو آپ کبھی میرے لیے کوئی غلط فیصلہ نہیں کریں گی ۔ جبرائیل نے انکا مان رکھتے ہوئے کہا وہ ہمیشہ سے ہی ایسا فرمانبردار تھا
تھینک یو بیٹا ہم کل ہی ان کے ہاں رشتہ لے کے جائیں گے !!!!! تمہیں اندازہ نہیں تم نے ہمیں کتنی بڑی خوشی دی ہے حنین تو سن کے پاگل ہوجائیں گی ۔ صباء نے خوشی خوشی کہا
نہیں ماما حنی کو آپ نہیں بتائے گیں اسے میں اپنے طریقے سے بتاؤں گا ۔ جبرائیل نے مسکراتے ہوئے کہا
اوکے بیٹا جی آپ لوگ کرتے رہیے جس طرح بہتر لگے جیسے ہی آپ کے بابا آئیں میں انہیں بھی خوشخبری دیتی ہو اور بیٹا آپ یہ تصویر دیکھ لینا ۔ یہ کہہ کر وہ چلی گئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ انکا بیٹا انکے سامنے اس تصویر کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا
ان کے جانے کے بعد نے تصویر کو کھولا اور جیسے تصویر دیکھی وہ ہکا بکا رہ گیا اور تصویر اسکے ہاتھ سے نیچے گرتے گرتے بچی وہ قدرت کے کھیل کو لے کر حیران رہ گیا
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
موحد نے گھر سے نکل کر جیسے ہی گاڑی سٹارٹ کیں تھوڑی دور جانے پر اسنے ایک بلیک کلر کی گاڑی دیکھی جس کی کھڑکی کوئی زور زور ہاتھ مار رہا تھا موحد کو پتا نہیں کیوں یہ ہاتھ جانا پہجانا لگا کہ ایک اچانک وہ ہاتھ منظر سے ہٹ گیا وہ بے اختیاری طور پر اس گاڑی کا پیچھا کرنے لگا اس گاڑی کا رخ ایک سنسان سڑک کی طرف تھا
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
جب المان سعد کے گھر پہنچا تو خورشید اسے دروازے پر ہی مل گیا تھا وہ ان کو اپنا تعارف کرواکے انکے ساتھ سعد کے کمرے کی طرف بڑھ گیا
اس نے جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھولا وہ خود پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا کیونکہ سعد ہوش وحوس سے بیگانہ زمین پر پڑا تھا اور اسکے آس پاس شیشے کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے اور ہاتھ خون آلود تھے
المان نے جلدی سے خورشید کے ساتھ مل کہ اسے سہارا دے کر اٹھایا اور باہر کی طرف بڑھ گیا
اسے گاڑی میں بٹھا کے خورشید کو وہی رکنے کا کہہ کہ وہاں سے اسپتال کی طرف روانہ ہوگیا
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
گاڑی سنسان سڑک پر رواں دواں تھی جہاں بمشکل دو تین گاڑیاں چل رہی تھی موحد نے اپنی سپیڈ کم رکھی تھی تاکہ ان کو شک نا ہو
ایک ویران جگہ پر گاڑی رکی تو موحد نے بھی ان سے فاصلے پر ایک ایسے اینگل سے گاڑی روکی کہ وہ انہیں تو دیکھ سکتا تھا لیکن وہ موحد کو نہیں سکتے تھے کہ اچانک انہوں نے ایک لڑکی کو باہر نکالا اور اس لڑکی کو دیکھ کر موحد کو اپنی سانسیں بند ہوتی محسوس ہوئی
اس نے اپنے سامنے حنین کو غنڈوں کی گرفت میں دیکھا تو اسے ایسا لگا کہ وہ اب سانس نہیں لے پائے گا کہ اچانک ان لوگوں نے حنین کو باہر نکالا
جبکہ دو آدمی ذرا سائیڈ پہ ہوئے
اسکا کیا کرنا ہے ۔ ایک نے کہا اور موحد پوری طرح اس طرف متوجہ ہوگیا
کرنا کیا ہے اسکے بزنس مین باپ کا فائدہ اٹھاؤ اور اسے مار کہ یہی پر پھینک ۔۔۔۔۔۔ اس سے زیادہ سننا موحد کے بس کی بات نا تھی اس نے جلدی سے پولیس کو کال ملائی اور صورتحال سے آگاہ کیا
کہ اتنے ان میں سے ایک نے حنین کو موبائل دیتے ہوئے کہا
اے لڑکی اپنے باپ کو فون ملا اور بول کہ ہمیں ہماری منہ مانگی رقم دے کر تجھے چھڑا لے
اوئے تم لوگوں کے لیے مجھے اپنے بابا کو ڈسٹرب کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ہاں آئندہ میرے بابا کو اس لہجے میں پکارنے کی ہمت مت کرنا ۔ حنین نے چنگاڑتے ہوئے کہا
آواز نیچی ر. . . . . ک ۔ ان میں سے ایک نے حنین کے بال جکڑتے ہوئے کہنا چاہا لیکن موحد اس کے جملے کے مکمل ہونے سے پہلے انکے کے سامنے آگیا
اے لڑکے تو یہاں کیا کررہا ہے ۔ ایک آدمی کی نظر اس پر پڑی تو موحد سے غصے میں پوچھنے لگا
اس لڑکی کو چھوڑو ۔ موحد نے حنین کی طرف دیکھا جو حیرانی سے اسے دیکھے جارہی تھی
نکل یہاں سے چل ۔ ان میں سے ایک نے چیخ کر کہا میں نے کہا اس لڑکی کو چھوڑو ۔ موحد کی آواز بہت تیز تھی
اس آدمی نے حنین کے بال چھوڑ دیے اور موحد کی طرف بڑھا اور ایک مکا موحد کے منہ پر جڑ دیا جس سے اسکے ناک سے خون بہنے لگا
موحد نے جواباً اس آدمی کے منہ پر مکا مارا تو باقی غنڈے بھی اس طرف آگئے اور موحد کے گرد دائرہ بنا کر اسے مارنے لگے
حنین نے چیخے مارتے ہوئے موحد کو چھوڑنے کا کہا کہ پولیس سائرن کی آواز سنائی دی اور وہ سب بھی رک گئے
چلو ابھی ورنہ پکڑے جائیں گے ۔ ان میں سے ایک نے کہا اور وہ سب بھاگنے لگے کہ اچانک پولیس وہاں انٹر ہوئی اور انہیں گرفتار کرلیا لیکن ان میں سے دو بھاگ گئے اور پولیس حنین کے پاس آیا اور اسے کھولا کہ وہ بھاگتے ہوئے موحد کے پاس گئی جس کا منہ جگہ جگہ سے زخمی ہوا پڑا تھا
مسٹر موحد شجاع کو ہسپتال لے کر جائیں ۔ انسپکٹر شاید موحد کو جانتا تھا اسلیے اسنے موحد کا نام لے کر سب انسپکٹرز سے کہا
اور حنین انکے ساتھ ہسپتال کی طرف روانہ ہوئی
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
المان سعد کو ہسپتال لے آیا ڈاکٹرز نے ہاتھ سے کانچ کے تکڑے نکال دیے اور بینڈج کردی تھی المان بلز کلیر کروانے گیا تھا جب واپس آیا تو سعد کو ہوش آنے لگا تھا وہ جلدی سے سعد کے پاس آیا
سعد تو ٹھیک ہے ۔ المان نے فکرمندی سے سعد کو کہا جو اب تقریباً ہوش میں آچکا تھا
سعد نے کوئی جواب نہیں دیا
تجھ سے بات کررہا ہو میں ۔المان نے پھر سے کہا
اس بار بھی سعد چپ رہا
سعد تو ضحی . . . . . ۔ المان بولنے لگا تھا کہ اس بار سعد نے اسکی بات کاٹی
ہاں میں نے ضحی پر موحد کی بہن پر گندی نظر رکھی میں نے المان میں اسے دیکھا تو میں کچھ الگ محسوس کررہا تھا لیکن المان یقین کر میں نے اسکے بارے میں کچھ غلط نہیں سوچا بس ایک بے اختیاری تھی کہ میں خود کو نہیں روک پایا لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ وہ موحد کی بہن ہے . . . . . . ۔ سعد مسلسل المان کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہا تھا یا شاید خود کو
سعد ریلیکس یار کیا ہوگیا ہے تجھے ! اگر تو اس سے محبت کرتا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہیں تو اسے اپنا. . . . . . . . . . .۔المان کچھ کہنے لگا کہ سعد بولا
نہیں المان میں اسے اس آگ میں نہیں جھونک سکتا جس میں میں جل رہا ہو میں اسے وہ خوشی کبھی نہیں دے سکتا اور میں اسے دکھ بھی نہیں دے سکتا المان میں. . . . . . . . سعد کی حالت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی
اچھا بس اس بارے میں ہم پھر کبھی بات کریں گے ابھی گھر چلو مجھے بہت بھوک لگی ہے یار ۔ المان نے اپنے طریقے سے سعد کا دھیان بٹانا چاہا
ہممم چل ۔ سعد نے کہا اور اٹھنے لگا المان نے اسے سہارا دیا کیونکہ کمزوری کی وجہ سے وہ ٹھیک سے چل نہیں پارہا تھا
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
یہ زرمین کی تصویر تھی وہ ہکا بکا تصویر دیکھے گیا پتہ نہیں کیوں اسے ایک انجانی خوشی کا احساس ہوا کہ اتنے میں اسکے کمرے کا دروازہ نوک ہوا اس نے جلدی سے تصویر تکیے کے نیچے رکھی
بیٹا حنین گھر نہیں آئی اب تک ۔ صباء ہڑبڑاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی
ماما ابھی تو آدھا ہی گھنٹہ لیٹ ہوئی ہے فرینڈز کے ساتھ آئسکریم کھانے نکل گئی ہوگی آپ پریشان نا ہو میں پتا کرکے بتاتا ہو آپ کو ۔ جبرائیل اپنی ماما کو بٹھا کہ ریلیکس کرنا چاہا کہ اسکے موبائل کی رنگ ٹون بجی
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
وہ قریب کے ہسپتال میں گئے اور موحد کو ایمرجنسی میں لے گئے تاکہ بروقت طبی کاروائی کی جاسکے
حنین وہاں کے ایک بینچ پر بیٹھ گئی کہ اسے یاد آیا کہ اسنے گھر نہیں بتایا وہ جلدی سے اٹھی اور اس پولیس والے کے پاس جاکر اس سے اپنا موبائل مانگا
انسپیکٹر انکل مجھے گھر پر انفارم کرنا ہے میری ماما پریشان ہورہی ہوگی صرف دو منٹ اس سے زیادہ اگر میں نے بات کی آپ مجھ سے موبائل لے لیجیے گا ۔ حنین نے التجا کرتے ہوئے کہا
اوکے آپ موبائل سپیکر پر رکھیں گی ۔ انسپکٹر نے کہا تو حنین نے اثبات میں سر ہلایا اور اسنے موبائل میں جبرائیل کا نمبر ملایا
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ہیلو حنی کہاں ہو تم ماما ٹینس ہے بہت یار ۔ جبرائیل پہلی بیل میں کال ریسیو کی اور جلدی سے کہا
بھائی میں اپنے فرینڈ کے ساتھ ہسپتال میں ہو کچھ ٹائم لگے گا اسے زرا سی چوٹ لگی ہے بینڈج کروانی ہے ۔ حنین کچھ سچ کچھ جھوٹ کہا
کیوں کیا ہوا ۔ جبرائیل نے پوچھا
آکے بتاؤگی بھائی ! بائے ماما کو بتا دینا! اوکے ۔ حنین نے کہہ کہ فون بند کردیا کہ ڈاکٹر ایمرجنسی روم سے نکلے وہ تقریباً بھاگتی ہوئی وہاں گئی
ڈاکٹر موحد کیسا ہے اب ۔ حنی نے جلدی سے پوچھا
ہی از فائن ناؤ ۔ ڈاکٹر نے اپنے مخصوص عاری لہجے میں بولا
میں مل سکتی ہو ۔ حنین نے پوچھا
یس وائے نوٹ ۔ ڈاکٹر کہہ کہ وہاں سے چلا گیا اور حنین بھاگتے ہوئے موحد کے روم تک گئی
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
7th episode of
Muhabbato ka darya
Kya khyal hai agy kia hony wala hai saad ka
Jibrael or zarmeen ka
mohid or haneen

Short epi k liye sorry lekin mai bht busy ho is liye ziada bara epi nh ho paya agy koshish hogi k thora bara epi likho
Comment and vote zaror kijiye ga
Regard afshany mohid

محبتوں کا دریا ✅Where stories live. Discover now