غم زندگی اور ہم 2

2.7K 155 51
                                    

حنین بے ہوش ہو چکی تھی
اگر حسنہ نے اسے تھامے نا رکھا ہوتا تو وہ زمین پر گر چکی ہوتی
حسنہ نے حنین کو صوفے پر لٹا کر سرونٹ کو پانی لانے کو کہا
صباء حنین کے پاس بیٹھ کر اسکے گال چھو کر اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی
لیکن حنین ہوش و حواس سے بے گانہ بے سود لیٹی تھی
سرونٹ پانی لے آئی تو حسنہ حنین کے چہرے پر چھینٹے مارنے لگی تاکہ اسے ہوش میں لایا جا سکے
لیکن حنین ہوش میں نہیں آرہی تھی تو مجبوراً صباء کو ڈاکٹر کو کال کرنی پڑی اور انہوں نے ڈاکٹر کو گھر بلایا
کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر وہاں آگیا اور حنین کو چیک کیا
اسکا BP بہت لو ہوگیا تھا
ڈاکٹر نے اسے ڈرپ لگائے
اور صباء کو بتایا کہ اسے جلد ہی ہوش آجائے گا اور ڈاکٹر وہاں سے چلاگیا
ابھی ڈرپ آدھا ہی ہوا تھا کہ اسے ہوش آ گیا
وہ ہڑبڑا کر اٹھ گئی اور اپنے ہاتھ پر لگی ڈرپ کو اس نے بے دردی سے اپنے ہاتھ کھرچ کر پھینک دیا
صباء جو کہ اسکے پاس ہی تھی اسے ایسا کرنے سے نا روک پائی کیونکہ وہ اچانک ہی اٹھتے ساتھ اپنا ہاتھ ڈرپ سے آزاد کروا چکی تھی اب اس کے ہاتھ سے بلڈ بہہ رہا تھا
حنین یہ کیا کردیا - صباء نے پریشان ہوتے ہوئے کہا
ماما بابا کہاں ہے - حنین نے زور دار آواز میں کہا
جس کی وجہ سے حسنہ جو کہ کچھ دیر کے لیے وہاں سے اٹھی تھی کہ صباء کے لیے پانی لے آئے وہ بھاگتے ہوئے ان کی طرف آئی
ماما میں کہہ رہی ہوں بابا کہاں ہے - حنین ایک بار پھر بولی اس بار آواز پہلے سے زیادہ تیز تھی
حنین یہ کیا کردیا تم نے تمہارا تو خون بہہ رہا ہے - حسنہ بولی
حنین جو اپنے ہاتھ پر زرا سی خراش لگنے پر اس پر بار بار ٹیوب لگاتی تھی کہ جلدی ٹھیک ہو جائے بار بار اپنے بابا کو دکھاتی تھی کہ اسے چوٹ لگی ہےوہ سب سے زیادہ اپنے ہاتھ کی چوٹ پر روتی تھی کیونکہ اسے اپنے ہاتھوں سے بہت محبت تھی اسے اپنے ہاتھ سب سے زیادہ پسند تھے لیکن آج اس کو اپنے درد کی پرواہ نہیں تھی اسے خبر ہی نہیں تھی کہ اس کے ہاتھ پر چوٹ آئی ہے
اسے ہوش میں آکر تھوڑی دیربعد احساس ہوگیا کہ اس کے بابا تو جاچکے ہیں اسے چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے
بااااابااااا - اس نے دردناک آواز میں اپنے بابا کو بلایا
ماما آپ بابا کو بلائے نا ! آپ ، آپ جانتی ہے نا کہ میں بابا کے بغیر نہیں رہ سکتی میرا دن مکمل ہی نہیں ہوتا انکے بغیر - حنین نے ٹہر ٹہر کر ایک ایک لفظ پر روز دیتے ہوئے کہا وہ برداشت نہیں کر پارہی تھی حقیقت جانتے ہوئے حقیقت کو بھیانک خواب سمجھ رہی تھی
حنین ! میرا بچہ صبر کرو - صباء کے بجائے حسنہ بولی کیونکہ صباء حنین کی بات سن کر رونا شروع ہوگئی تھی

آنٹی آپ بولے نا ماما کو بلائے نا میرے بابا کو مجھے بات کرنی ہے بابا سے - حنین نے حسنہ کو مخاطب کیا کہ وہ صباء سے کہے اور لہجے میں غصہ عود آیا تھا
حنین اپنی ماما کو تنگ مت کرو - حسنہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا
مجھے بابا سے بات کرنی ہے بس اور کچھ نہیں مجھے بابا سے بات کرنی ہے - حنین ایک ہی بات بولے جارہی تھی اس کے ہاتھ سے خون بہے جارہا تھا وہ بینڈج نہیں کرنے دے رہی تھی
صباء حنین کی بات سن کر وہاں سے چلی گئی
----------
کچھ دیر پہلے جبرائیل موحد اور باقیوں کے ساتھ قبرستان سے نکلا تھا
موحد نے باقی سب کو گھر بھیج دیا کہ اگر گھر میں کوئی پرابلم ہو تو سنبھال سکے اور خود جبرائیل کے ساتھ چلنے لگا
موحد جبرائیل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دے رہا تھا اسے حوصلہ دے رہا تھا اسے بتا رہا تھا کہ اسے ہمت نہیں ہارنی
جبکہ جبرائیل نظریں جھکائے خاموش کھڑا تھا
موحد میں حنین کو کیسے سنبھالوں گا - جبرائیل اتنی دیر کی خاموشی کے بعد بولا
جبرائیل کی بات سن کر موحد کو حنین کا رونا یاد آیا
موحد ہم اپنے بابا کے شہر سے باہر جانے پر واویلا مچاتے تھے - جبرائیل مزید گویا ہوا
شروع شروع میں ، میں بھی یہی کرتا تھا لیکن جب حنین سمجھدار ہوگئی تو میرا کام بھی وہ کردیتی تھی مجھے کچھ کہنا ہی نہیں پڑتا تھا وہ بابا کو بہت جلد گھر واپس بلا لیتی تھی اور بابا اسکی بات کبھی رد نہیں کرتے تھے - جبرائیل کی آواز بھیگ رہی تھی
اب تو بابا شہر سے باہر نہیں ہے موحد اب کیسے لائیں انہیں واپس ! ہم انکا دور رہنا برداشت نہیں کرتے تھے انکی مکمل جدائی کیسے برداشت کریں - جبرائیل کے آنسو آنکھوں کی باڑ توڑ کر بہہ نکلے
موحد میں بابا کو نہیں بچا سکا ! میں بابا کو نہیں بچا سکا موحد - جبرائیل موحد کے گلے لگ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیا
جبرائیل تجھے اسٹرونگ بننا ہے تجھے آنٹی کو سنبھالنا ہے حنین کو سنبھالنا ہے ! تو نے سب کچھ سمیٹنا ہے - موحدنے جبرائیل کو رونے دیا اور پھر جبرائیل کے اچھی طرح رودینے کے بعد بولا
جبرائیل نے سر ہلایا تو اسکا موبائل بچ اٹھا
اسنے دیکھا تو ماما کی کال آرہی تھی اسنے جلدی سے کال پک کی
کیا ہوا ہے حنین کو - جبرائیل وہاں کی سنتے ہی جلدی سے بولا اور کھڑا ہوگیا اسے کھڑا ہوتے دیکھ کر موحد بھی کھڑا ہوگیا جبرائیل اور موحد ساتھ ساتھ چلنے لگے جبرائیل کی قدموں کا رخ گاڑی کی طرف تھا اور موحد کے قدم جبرائیل کی قدموں کا تعاقب کررہے تھے
اوکے میں آتا ہوں ماما آپ ٹینشن نا لیں - جبرائیل بولا
حنین کی طبعیت خراب ہے - جبرائیل موحد کی پریشان اور سوالیہ نظروں کے جواب میں بولا موحد نے جبرائیل کی گاڑی میں بیٹھتے ہی گاڑی اسٹارٹ کردی انہیں جلدی سے گھر پہنچنا تھا کیونکہ دونوں کی جان جس انسان میں بستی تھی وہ انسان تکلیف میں تھا
--------------------
صباء نے حنین کے پاس سے آکر جبرائیل کو کال کرکے حنین کی حالت کا بتایا تو توقع کے مطابق جبرائیل سنتے ہی پریشان ہوگیا تو صباء نے بس اتنا کہا کہ گھر آجاؤ اور صباء جانتی تھی کہ اس کے کہنے سے پہلے ہی وہ وہاں سے چلنا شروع ہوچکا ہوگا
اور فون بند کرکے واپس حنین کے پاس آئی
صباء بیگم نے جیسے ہی فون رکھا تو ارحم لوگ بھی آگئے جو کہ پورے راستے میں خود کمپوز کررہے تھے کہ یہاں آکر حنین لوگوں کو سنبھال لے نا کہ خود بھی ان کے ساتھ سر رکھ کر بیٹھ جائے
اس کے کچھ دیر بعد ہی جبرائیل اور موحد بھی آگئے
ماما میں آپ سے کچھ کہہ رہی ہو اور آپ یہاں سے چلی گئیں میری بات سنے بغیر آپ کو میری کوئی پرواہ نہیں ہے میں آپ سے بات نہیں کرونگی آپ جائے واپس - حنین نے اپنی ماما کو آتے دیکھا تو بولی
موحد اور جبرائیل بھی یہ بات سن چکے تھے
وہ دونوں دوڑتے ہوئے حنین کے پاس آئے اور اسے ریلیکس کرنے کی کوشش کی کہ اتنے میں موحد نے حنین کا ہاتھ دیکھا جس سے خون بہہ رہا تھا
حنین یہ کیا ہوا ہے تمہارے ہاتھ کو - موحد نے اسکا ہاتھ پکڑ کر دیکھا
کچھ نہیں ہوا چھوڑے میرا ہاتھ - حنین نے موحد کا ہاتھ جھٹک کر کہا
حنین تمہارے ہاتھ سے خون بہہ رہا ہے - موحد نے اسکی بات ان سنی کرتے ہوئے کہا اور فرسٹ ایڈ بوکس لانے کے لیے سرونٹ کو بھیج دیا
تو کیا ہوا جو خون بہہ رہا ہے تو ۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوتا - حنین نے ایک بار پھر تلخی سے موحد کو جواب دیا
چھوڑو میں تمہیں بینڈج کرکے دوں - موحد نے حنین کا ہاتھ پکڑا اور کہا
میں نے کہا چھوڑو میرا ہاتھ میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے - حنین نے اس بار بھی ہاتھ جھٹک کر کہا
اب تم کچھ بولی نا تو میں تمہارے ہاتھ پر بینڈج کرنے کے ساتھ ساتھ تمہارے منہ پر بھی ٹیپ لگا دونگا - موحد اسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے ہوئے کہا
ک۔۔۔۔۔۔- حنین نے کچھ کہنا چاہا
میں نے کہا آواز بند رکھو اپنی - اس بار موحد کی آواز قدرے تیز تھی
حنین چپ ہوگئی اور موحد نے اسکے ہاتھ پر بینڈج کردی
اٹھو اب - موحد نے حنین سے کہا
لیکن وہ اپنی جگہ سے ہلی بھی نہیں
میں نے کہا اٹھو - موحد نے دو بارہ کہا اور حنین کو ہاتھ کا سہارا دیا وہ اٹھ گئی
جبرائیل اسے کمرے میں لے کر جاؤ - موحد نے جبرائیل کو کہا
وہ چپ چاپ حنین کو لے کر اس کے کمرے کی طرف چلا گیا
--------------
آنٹی پلیز آپ سنبھالے خود کو - موحد نے صباء کو روتے دیکھا تو انہیں صوفے پر بٹھاتے ہوئے کہا
کیسے سنبھالو کیسے !!!! کیسے خود کو سنبھالو کیسے اپنے بچوں کو سنبھالو کیا کرو میں - صباء روتے ہوئے ٹہر ٹہر کر بولی
آنٹی آپ نے سنبھالنا ہے نا کیسے بھی کرکے !!! پلیز اپنے آپ کو مضبوط کرے دیکھے حنین کی کیا حالت ہے - موحد نے کہا اور یہ کہتے ہوئے وہ بہت ضبط سے کام لے رہا تھا کیونکہ جس حال میں اس نے حنین کو دیکھا تھا وہ اس کے لیے برداشت سے باہر تھا
دیکھے میں ہوں آپ کے ساتھ جبرائیل ہے ہم سب ہے ماما ہے آنٹی (سعد کی ماں ) ہے آپ خود کو سٹرونگ کرے - موحد صباء کو سمجھا رہا تھا
اور کچھ دیر بعد وہ یہ کہہ کر اٹھ گیا کہ وہ حنین کو دیکھنے جارہا ہے
--------------
جبرائیل حنین کو کمرے تک لے آیا اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود وہاں سے جانے لگا تھا کہ حنین نے اسکا ہاتھ پکڑلیا
بھائی بھا ۔۔۔۔ ئی ۔۔۔ بھائی ۔۔۔۔ با۔۔۔با ۔۔۔۔ بھائی بابا - حنین بس ایک ہی بات بولنا چاہ رہی تھی جو کہ وہ نہیں بول پا رہی تھی
اتنے میں موحد وہاں آیا
وہ سیدھا حنین کے پاس آیا
کیونکہ وہ جبرائیل اور حنین دونوں کی نم آنکھیں دیکھ چکا تھا
حنین !!! میری بات سنو - موحد نے حنین کو اپنی طرف متوجہ کیا
موحد ۔۔۔با۔۔۔با !!! موحد میرے بابا کہاں ہے - حنین روتے ہوئے بولی
حنین میری بات سنو نا پلیز - موحد نے اپنے آپ پر ضبط کرتے ہوئے کہا
موحد می ۔۔۔ رے با۔۔۔با - حنین ایک ہی بات کہے جارہی تھی
حنین میری بات سنو - اس بار موحد نے حنین کا چہرہ پکڑ کر اپنی طرف کیا اور کہا موحد بھی بے بسی کی انتہا پر تھا
حنین انکل اب نہیں ہے۔۔۔۔۔ - موحد نے اسے بتانا چاہا لیکن اسکی بات کاٹ دی گئی
نہیں موحد ایسے نا بولیں بھائی دیکھیں اسے یہ کیا کہہ رہا ہے - حنین نے جبرائیل کے ہاتھ پر (جو اس نے پکڑ رکھا تھا ) دباؤ ڈالتے ہوئے کہا
جبرائیل کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھی
بھائی میں کچھ کہہ رہی ہوں آپ سے !! چپ کروائیں اسے کیا کہہ رہا ہے یہ - حنین پھر سے جبرائیل سے کہا اس بار آواز قدرے تیز تھی
حنین - موحد نے اپنی آواز بلند کرتے ہوئے حنین کو پکارا
موحد ایسے نا بولیں - حنین موحد کی بات کو نظر انداز کرکے بولی
موحد بابا کے بارے میں ایسے نا بولیں میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتی - حنین موحد کو بولنے کا موقع ہی نہیں دے رہی تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ موحد جو کہنا چاہتا تھا وہ سننا حنین کے بس کی بات نہیں تھی

محبتوں کا دریا ✅Where stories live. Discover now