پہلی ملاقات کا کرارا مزہ

4.3K 208 88
                                    

صبح وہ  کالج میں ہمیشہ کی طرح نارمل تھی
وہ ہمیشہ سے ایسی تھی زیادہ ناراض رہنا اس کی عادت نہیں تھی
آج بھی وہی ہوا وہ بھول گئی تھی کہ اس نے کل عنایہ پر کس طرح غصے کا اظہار کیا تھا
حنین کی بچی تم فون پر روح بدل کر بات کرتی ہو کیا ۔
عنایہ نے تپے ہوئے لہجے میں کہا
ارے نہیں وہ تو اس کی اصلی روح ہوتی ہے جو ہم سے فون کرنے پر روشناس ہوتی ہے ورنہ تو یا تو اس میں یا تو حیا سلیمان کی روح ہوتی ہے یا زمر یوسف کی یا پھر امامہ کی جو اپنے سالار سکندر کا انتظار کرتی ہے حنین کے بولنے سے پہلے حریم نے جواب دیا
اللہ میاں !حریم سچی کیا سچ میں میں انکی طرح لگتی ہو ۔حنین کی بھوری آنکھوں میں چمک دیکھتے ہوئے عنایہ نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا کیونکہ دبے لفظوں میں حریم اسے کھڑوس کہہ چکی تھی
حنین نے نا سمجھی سے اسے دیکھا اور جب اس نے حریم کے پہلے جملے غور کیا تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا
جھنم میں جاو
اور حریم نے اسے پھر سے بولی
دیکھا عنایہ !بالکل حیا سلیمان ہے یہ۔
حریم اس کے متوقع  حملے سے بچنے کا کارگر طریقہ اپنا چکی تھی جو ہمیشہ کی طرح کامیاب نکلا
ہائے حریم تم بہت اچھی ہو ۔ حنین چہک کے بولی
تو حریم کے ساتھ  عنایہ بھی ھنس دی
کہ زمان وہاں آدھمکا وہ حنین کو زہر لگتا تھا
حریم  اور عنایہ آپ کو کیمسٹری کے پروفیسر بلارہے ہیں ۔ زمان بولا
سر شمس بہت سخت مزاج کے ٹیچر تھے اس لیے وہ دونوں آل تو جلال تو پڑھتے ہوئے حنین کو یہ کہہ کر کہ ہم آتے ہیں چل پڑی
حنین مجھے آپ کے فزکس کی آج کے لیکچر کی نوٹ بک مل سکتی ہے ۔ وہ ایسے بولا جیسے حنین اسکی سب سے بڑی فرمانبردار ہوں
نہیں ۔ حنین نے ہمیشہ کی طرح انکار کیا
زمان اس سے کئی بار اس طرح کی ہیلپ کی توقع کرچکا تھا لیکن اس بار بھی  انکار ہی ملا  تھا
جب حنین کو لگا کہ وہاں سے جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تو وہ اپنا سامان سمیٹ کر اٹھی تو  زمان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
اور اگلے حنین کا زناٹے دار تپھڑ زمان کے منہ کی زینت بن گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار تم اس سے اتنا چڑتے کیوں ہو۔
وہ لنچ کررہے تھے کہ المان خود کو سوال کرنے سے روک نا پایا
یار یہ تو ہر لڑکی سے چڑتا ہے ۔سعد لقمہ دینا ضروری سمجھا
یار بات چڑنے کی نہیں ہے مجھے نہیں پسند اس طرح کی حرکتیں جیسی نمیرہ کی ہیں
میں نہیں کہتا کہ میں بہت بڑا پارسا ہو لیکن لڑکیوں کو اتنا فرینک نہیں ہونا چاہیے ۔ اس نے سادہ سے لہجے میں اپنی بات کہی
ہاں بھئی بات تو ٹھیک ہے ۔ارحم نے کہا تو سب نے اس کی بات سے اتفاق کیا تھا مگر ان میں سے ایک اپنا پسندیدہ سوال کرنا نا بھولا
ویسے تجھے کیسی لڑکی پسند ہے ۔ یہ بات المان کے سوا کوئی کر سکتا تھا بھلا
کہ موحد نے اسے گھوری سے نوازا
نہیں میرا مطلب کس طرح کی لڑکیاں !!!!! وہ کچھ اور بولتا موحد نے اس کی بات کاٹی
آگے ایک لفظ بولنا نہیں  تو واپس تجھے ایمبولینس میں لے کر جائیں گے ۔
موحد نے گھور کر اسے کہا اور کمر پر مکا مارے بنا نا رہ سکا تو المان کو جواب تو دینا تھا
اللہ کرے موحد تجھے ہماری بھابھی سے عشق ہوجائے ۔اور جلدی آمین کہا کہ موحد فورا بولا
ایسا کبھی نہیں ہوگا کیونکہ نا مجھے شادی میں انٹرسٹ ہے نا عشق میں ۔((موحد نہیں جانتا تھا کہ اس کی بات کتنی جلدی پوری ہونے والی ہے))
اور وہ سر جھٹک کر کھانے لگا
کہ کچھ دیر بعد المان پھر بولا
تو نے جواب نہیں دیا میرے سوال کا ۔ موحد نے گھور المان کو دیکھا جو مسکین شکل بنائے اسے دیکھ رہا تھا
تو نہیں سدھر سکتا نا ۔المان نے کالر جھاڑا تو تینوں ہنسنے لگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔. . . . . .  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. . . . . . 
آئندہ اپنی حد میں رہنا انڈرسٹینڈ ۔ حنین کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا اور وہ پیر پٹختی وہاں ناک آوٹ کرگئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کینٹین کی طرف جانے ہی لگی تھی کہ حریم اور عنایہ دکھائی دی
ان دونوں نے اسکا تپا ہوا چہرہ دیکھا تو عنایہ بولی
کس سے جھگڑہ کر آئی ہوں ۔
اور اس نے انہیں پوری بات بتائی تو عنایہ ہونقوں کی اسے دیکھ کر رہ گئی
تم نے اسے تپھڑ مار دیا ۔عنایہ بولی
عنایہ میں اسکا منہ توڑ دیتی اگر یہ کالج نا۔ہوتا
حنین نے کہا تو اسکا چہرہ اور لال ہوگیا
اور وہ دونوں اسکا غصہ دور کرنے کے لیے اس سےادھر کی باتیں کرنے لگے جس میں  اچھا خاصہ کامیاب ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موحد گھر پر آیا تو  شجاع حیدر اور نائلہ اس کے منتظر تھے
میرا بیٹا میرا فخر ہے۔ شجاع حیدر نے انکا شانہ تپکھایا
اتنے میں ضحی آئی
بھائی مبارک ہو ۔اس نے اسے مبارک باد دی
تھینک یو گڑیا ۔موحد نے اسکا شکریہ ادا کیا
ویسے تمھیں آج پھر کہی جانا تو نہیں ہیں نا ۔موحد نے شرارت سے کہا  تو ضحی نے اسے گھور کر دیکھا
نہیں مطلب تمہیں مجھ پر تبھی پیار آتا ہے جب تمہیں اپنی فرینڈکے گھر کا پھیرا لگانا ہوتا ہے ۔موحد نے مسکراتے ہوئے کہا
نہیں آج آپ کے اچھے رزلٹ کی خوشی میں آپ کی ڈرائیونگ سیٹ سے چھٹی ۔مقابل بھی ضحی تھی اسکی بات سن کر سب ہنسنے لگے
نائلہ نے بے اختیار دل میں ما شا ءاللہ کہا ۔
بلیک کلر کی پینٹ کے ساتھ وائٹ  شرٹ پہنے اس کے اوپر بلیک ہی واسکٹ پہنے نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہا تھا
. .  .  .  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ وہاں سے اٹھ کر کمرے میں آیا تو جبرائیل کا نمبر ڈائیل کیا
پروفیسر صاحب کیسے ہیں آپ ۔ موحد نے شوخ لہجے میں کہا
ٹھیک ٹھاک تو بتا رزلٹ کا کیا بنا ۔ اس نے پوچھا
تو تو ایسے پوچھ رہا ہے جیسے نہیں جانتا کہ کیا رزلٹ آیا ہیں میرا ۔ پل پل کی خبر ہوتی ہیں تجھے ۔موحد نے اسے جنجھوڑنا چاہا
مبارک ہو ۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا
میری چھوڑ پروفیسر بننا مبارک ہو ۔موحد نے بخوشی اسے مبارک باد دی
جیتا رہ ۔جبرائیل نے بزرگوں کی طرح اسے جواب دیا
موحد جوابا قہقہہ لگائے بنا نا رہ سکا
دونوں ہی سنجیدہ طبعیت کے مالک تھے لیکن  ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ اسی طرح اپنے مزاج کے خلاف رویہ رکھتے تھے ان کی دوستی ہی ایسی تھی
کچھ دیر بات کرنے کے بعد اس نے فون بند کردیا اور آرام کی نیت سے لیٹ گیا
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

محبتوں کا دریا ✅Donde viven las historias. Descúbrelo ahora