2nd last episode

2.3K 130 30
                                    

سعد گھر سے باہر تھا اور حسنہ اس کے انتظار میں
المان نے اسے سمجھا دیا تھا کہ آگے کیا کرنا ہے
رات کے گیارہ بجے سعد گھر میں داخل ہوا تو حسنہ جو کہ اس کے آنے کے انتظار میں تھیں جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور سعد کو پکارا
سعد نے جب حسنہ کی آواز سنی تو چونک گیا کیونکہ وہ اتنا لیٹ پہلی بار گھر آیا تھا اور وجہ یہی تھی کہ اسکا حسنہ سے سامنا نا ہو
سعد مجھے بات کرنی ہے تم سے - حسنہ نے المان کے کہے کے مطابق بات شروع کی
امی ۔۔۔ - سعد صرف اتنا ہی کہہ سکا اسکی نظریں جھکی ہوئی تھی
بیٹا تمہیں مجھے بتانا چاہیے تھا کہ تم ضحی سے محبت کرتے ہو مجھے تمہارے دوست کے فون سے پتا چل رہا ہے کہ تم محبت میں مبتلا ہو - حسنہ نے کہا
امی میں بتانے والا تھا لیکن ..... - سعد نے کچھ کہنا چاہا لیکن اسے رکنا پڑا
لیکن تم نے سوچا کیوں بتاؤ جو عورت اپنی محبت نہیں سنبھال پائی وہ میری محبت کو جان کر کیا کرے گی - حسنہ نے کہا
امی یہ کیا کہہ رہی ہے آپ ... آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہے آپ تو میری کل کائنات ہے اور آپ خود کے بارے میں ایسا کہہ رہی ہے - سعد نے پوری گفتگو میں پہلی بار نظر اٹھا کر حسنہ کو دیکھا
مجھے تو یہی لگے گا نا جب تم ایسا کروگے تو - حسنہ نے عام سے لہجہ اپناتے ہوئے کہا
امی پلیز - سعد نے التجائیہ لہجہ اپنایا
خیر اس بات کو جانے دو اب یہ بتاؤ کہ تمہارا رشتہ لے کر جانے کا حق تو ہے نا میرے پاس یا میں یہ بھی کھو چکی ہوں - حسنہ نے کہا
امی آپ سارے حق رکھتی ہے لیکن - سعد کی بات ادھوری رہ گئی
لیکن ویکن جانے دو اگر تم مجھے سارے حق دیتے ہو تو میں کل ہی تمہارا رشتہ لے کر جاؤنگی لیکن اگر تم ایسا نہیں سمجھتے تو مجھے بتادو میں نہیں جاؤ گی - حسنہ نے سعد کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں چھوڑا
نہیں امی آپ چلی جائیے گا میں آپ کو موحد کا نمبر دے دیتا آپ بات کرلیں اس سے اور اپنے جانے کا بتا دیں - سعد نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا اور اپنا موبائل نکالتے ہوئے موحد کا نمبر حسنہ کو دیا اور وہاں سے چلاگیا
اللہ تمہیں ساری خوشیاں دیں - حسنہ نے اپنی بھیگی آنکھوں سے آنسو  پونچھتے ہوئے کہا جسے وہ ضبط کرنے کی ناکام کوشش کررہی تھی
المان جو کہ یہ ساری باتیں سن رہا تھا حسنہ کے  پاس آکر انہیں مسکراکر دیکھا اور آمین کہا حسنہ نے جواب میں اسکے ماتھے پر بوسہ دیا
اور تھوڑی دیر بعد المان اور حسنہ نے موحد کو کال کرکے پلان کی کامیابی کا بتایا
اور باقیوں کو المان نے میسج کرکے بتایا کہ کام ہوچکا ہے
-----------------------
ضحی اور موحد ساتھ بیٹھے باتیں کررہے تھے کہ ارسل کی ویڈیو کال موحد کے موبائل پر آئی
اس نے کال ریسیو کی
سلام دعا کے بعد اس نے ارسل کو ضحی اور سعد کا بتایا
کیا بھائی آپ سچ کہہ رہے ہیں !!! مطلب میری جان چھوٹ جائے گی اس چڑیل سے - ارسل نے خوش ہوتے ہوئے کہا
ارسل کے بچے !!! تم شکر کرو میرے سامنے نہیں ہو ورنہ میں تمہارا حشر نشر کردیتی - ضحی نے چلاتے ہوئے کہا
تبھی تو کہہ رہا ہوں چڑیل ہو - ارسل نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
تمہیں بلکل بھی میری منگنی میں آنے کی ضرورت نہیں ہے - ضحی نے منہ بناتے ہوئے کہا
اوہ تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اب ہمیں بھی انوائیٹ نہیں کیا جارہا - ارسل نے چہرے پر بیچارگی سجانے کی ناکام کوشش کی
آئی ول کل یو ارسل - ضحی نے دانت پیستے ہوئے کہا
ویسے ایک کام ہے جو صرف میں کرسکتی ہوں - ضحی نے کہا
نہیں مجھے اگر عائلہ سے بات کرنی ہوگی تو میں ارحم کے نمبر پر فون کرکے کرلونگا پر میں کرنا نہیں چاہتا - ارسل نے کہا 
اچھا ارسل اب تو تم نے ڈگری لے لی ہے  کب آرہے ہو تم - موحد نے درمیان میں کہا کیونکہ اسکا بولنا ضروری تھا ورنہ ان دونوں نے لڑتے ہی رہنا تھا
بس جب آپ بلالیں - ارسل نے تابعداری دکھائی
کیوں نا تمہاری اور ضحی کی ساتھ میں شادی ہو مزہ آجائے گا !!! نا - موحد بولا
واہ بھائی واہ کوئی تحریک چلا کہ یہ کام کروا دیں احسان مند ہونگا آپکا - ارسل بولا
ابھی تو فون پر بات تک نہیں کرنی تھی اور اب !!! ہونہہ - ضحی بولی
جلو مت - ارسل نے کہا
اوکے بس اب مجھے اس تحریک کے بارے میں سوچنے .... - موحد کا جملہ ادھورا رہ گیا
بھائی میں سمجھ گیا کہ مجھے کال بند کرنی ہے !  خدا حافظ ؛ بائے بائے - ارسل نے کہہ کر فون بند کردیا
نوٹنکی - موحد کہہ کر مسکرادیا
اور کچھ دیر بعد ضحی اپنے کمرے میں چلی گئی
------------
سب یونی پہنچ کر آپس میں باتیں کررہے تھے اور سرفہرست ٹاپک سعد اور ضحی کی بات ہی تھی
یہ ان سب کا معمول تھا کہ کلاس سے ایک گھنٹہ پہلے ہی یونی پہنچ جاتے ہیں کچھ ٹائم سے حنین اور موحد میں سے کوئی ایک ہی ہوتا تھا لیکن اب المان کی بدولت سب ساتھ تھے
لیکن آج سعد موجود نہیں تھا
ضحی سعد کو ابھی سے اپنی زندگی کا خطرہ محسوس ہورہا ہے - المان نے سوچا اگر قدرت موقع دے رہی ہے تو فائدہ اٹھاؤ
مطلب - ضحی حیران ہوئی تھی
میں بتاتی ہوں لیکن بعد میں ( رامین نے ضحی کو کہا اور المان سے مخاطب ہوئی ) کہ تو اگر آپ کے مطابق سعد کو خطرہ شروع ہوگیا ہے تو کیوں نا یہ خطرہ آپ کو بھی کروایا جائے - رامین نے کہا
کیوں نہیں !!! ویٹ ویٹ مطلب تم شادی کے لیے ہاں کہہ رہی ہو واہ موحد میری شادی بیاہ پکی سمج...... آہہہ - المان کا جملہ مکمل ہونے بجائے آہ و کراہ پر پورا ہوا
کیونکہ رامین اس کے سر اپنی کتابیں مار چکی تھی
سائیکو ہو کیا - المان اپنے سر کو سہلاتے ہوئے بولا
تمہیں شادی کا اتنا شوق ہے تو اعلان کرواؤ پاگل خانے میں جاکر کوئی نا کوئی تمہاری طرح مل ہی جائے گی وہاں - رامین غصے سے بولی
لیکن پاگل کو ڈھونڈنے کے لیے پاگل خانے تب جانا پڑتا ہے جب آپ کے آس پاس کوئی پاگل نا ہو جبکہ میرے کیس میں ایسا نہیں ہے - المان نے مطمئن لہجے میں کہا
تم اپنا سر میرے ہاتھوں شہید کروانا طے کرکے آئے ہو کیا - رامین آنکھیں نکالتے ہوئے بولی
بس بس ! تم لوگ میرے رشتے کی بات ...... - ضحی کچھ کہنے لگی تھی کہ جلدی سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی آواز دبانے کی کوشش کی
اور اس کے خاموش ہونے کی وجہ سب سمجھ گئے تھے
واہ سعد بھیا !!! کسی بات ہے بلکل صحیح ٹائم پر آئے ہیں آپ آپ کی بیگم ٹو بی (begam to be ) آپ کے لیے اپنی خوشی کا اظہار کررہی تھی - حنین نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
نہیں سعد یہ جھوٹ بول رہی ہے میں صرف المان اور رامین کا جھگڑا ختم کرنے کے لیے کہہ رہی تھی - ضحی شرمندہ ہوتے ہوئے بولی
توبہ !!! المان کیا ہم جھگڑ رہے تھے ؟ کیا ہم جھگڑ سکتے ہیں  ؟؟؟ - رامین معصومیت کی انتہا پر تھی
نہیں ہم کیوں جھگڑا کریں گے ہم تو معصوم سے لوگ ہے ہمارا لڑنے جھگڑنے سے کیا واسطہ - المان نے اسکی تائید کی
صرف میں ہوں معصوم میری بات کو سیریس مت لینا - المان رامین کو آہستہ سے یہ بولنا نہیں بھولا
جواب میں رامین نے زبردستی کی مسکراہٹ کا ایکسپریشن دیا
اللہ توبہ اتنا جھوٹ بولتے ہیں یہ لوگ یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں میں نے سچ میں اتنا جھگڑا ختم کرنے کے لیے کہا تھا - ضحی رودینے کو تھی
کوئی بات نہیں ضحی - سعد نے ضحی کو اتنا ہڑبڑایا ہوا دیکھا تو بولا
اوہووووو - حنین ،رامین اور المان تینوں نے ہوٹنگ کی
مجھے ضحی سے بات کرنی ہے کیا ہم دونوں کچھ دیر کے لیے کینٹین چلے جائے - سعد نے ہمت کرکے کہا کیونکہ جو وہ سوچ کر آیا تھا اسے وہ کرنا تھا
ہاں چلے جاؤ سعد - موحد نے ضحی کی آنکھوں کا نا والا اشارہ اگنور کرتے ہوئے کہا کیونکہ اسے لگ رہا تھا کہ وہ اس سے ابھی کی جانے والی بات کے بارے میں پوچھے گا
سعد نے ضحی سے بھی پوچھا اب وہ نا تو کرنہیں سکتی تھی اس لیے اسے مجبوراً جانا پڑا
سعد اور ضحی کینٹین جاچکے تھے وہ دونوں خاموش بیٹھے تھے سعد سوچ رہا تھا کہ جلدی وہ بات شروع کریں لیکن اسکی ہمت نہیں ہو پارہی تھی 
کہ اچانک ضحی بولی
دیکھو سعد المان اور رامین سچ میں جھگڑا کررہے تھے میں نے اسی لیے کہا - ضحی نے سوچا پہلے سعد شروع کرے اس سے اچھا ہے وہ خود ہی بول دے
جی ..... مجھے پتا ہے ان دونوں کا - سعد نے کہا نا چاہتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی جسے اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے چپھا لیا
پھر آپ کو یہاں کیا بات کرنی ہے مجھے لگا آپ کو یہی پوچھنا ہے - ضحی نے کہا
جی نہیں مجھے اس بارے میں بات نہیں کرنی تھی مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے - سعد نے کہا
ضحی اس کی بات شروع ہونے کا انتظار کرنے لگی
ممیہ سچ ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اتنی محبت کہ تم سوچ بھی نہیں سکتی لیکن یہ بھی سچ ہے کہ میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا - سعد نے اپنی بات شروع کی
مطلب - ضحی نے کہا
ویسے تو وہ موحد کی زبانی سب سن چکی تھی لیکن پھر بھی اسے لگا کہ سعد کو خود سب بتانا چاہیے
اور سعد نے اسے اول سے آخر تک سب بتایا کہ کیسے اس کے محبت نے اسکی امی کی زندگی تباہی کی اور یہ سب بتاتے ہوئے سعد کی آنکھیں ضبط کی وجہ سے سرخ ہوگئی تھی
میں نہیں چاہتا ضحی کی میں تمہیں چوٹ پہنچاؤں میں نہیں چاہتا کہ میں کبھی تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھوں میں نہیں چاہتا کہ جب تم میرے بارے میں بات کرو تو تمہاری آنکھوں سے آنسو رواں ہوجائے میں نہیں چاہتا کہ کوئی اور بھی حسنہ وجاہت جیسی زندگی گزارے - سعد بول رہا تھا اور اس کی آنکھیں لال انگارے سی دکھ رہی تھی
اور یہ سب سن کر ضحی چاکڈ تھی کہ یہ شخص اتنی محبت اس سے کیسے کرسکتا ہے کہ اسے خوش رکھنے کے لیے خود کو تباہی کرنے میں بھی اف نہیں کررہا اسے اس دکھ سے بچا رہا ہے جو اسے ابھی ملا ہی نہیں اسے دکھ ہوا ایسے باپ ہر جس نے اتنے سچے جذبے رکھنے والے بیٹے کے سارے احساسات ساری خوشیاں ملیامیٹ کردی
ضحی کو محبت کے بارے میں کچھ نہیں پتا تھا لیکن اس وقت وہ چاہ رہی تھی کہ سعد کی آنکھوں میں جو آنسو اس نے ٹہرا کے رکھے ہیں وہ انہیں اپنی ہتھیلی میں لے لے اور ان آنسو کو اس طرح سے ان آنکھوں سے جدا کریں کہ کبھی انہیں ان آنکھوں کا راستہ نا مل پائے
سعد - ضحی نے اسے پکارا
ضحی کے پکارنے ہر سعد نے اپنی جھکی آنکھیں اٹھائی
اگر جس درد سے تم مجھے بچانا چاہ رہے ہو وہ درد تمہیں مل جائے مجھ سے تو - ضحی کے منہ سے خود ہی الفاظ نکل آئے یا پھر وہ اسکی محبت کی شدت کا آخری امتحان لینا چاہ رہی تھی
وہ درد بس تمہیں نا ملے میرے لیے یہی کافی ہوگا - سعد پہلی بار مسکرایا اسکی مسکراہٹ کتنی خوبصورت تھی یہ کوئی اس وقت ضحی سے پوچھتا
تو تم سوچو کیا تم مجھ تک کوئی دکھ پہنچنے دوگے سوچو اس وقت یہاں کچھ لوگ آجائے مجھے مارڈالنے .....- ضحی نے جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ
جان سے ماردونگا ان لوگوں کو اتنی ہمت تو ہے مجھ میں - سعد نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا
تو جب تم کسی اور کا دیا زخم مجھ تک پہنچنے نہیں دوگے تو تم خود تو کبھی دکھ  دے سکتے ہو مجھے ؟ - ضحی نے کہا
مجھے ڈر لگتا ہے اگر میں بھی وہی نکلا جو میری ماں کی محبت نکلی تو - سعد نے کہا
ایسا نہیں ہوگا بے فکر ہو جاؤ !!! - ضحی بولی
سعد خاموش ہوگیا
پتا ہے سعد مجھے نہیں پتا محبت کیا ہے عشق کیا ہے کس طرح آپ کسی کے لیے سوچنے لگتے ہیں اور نا ہی کبھی اس رشتے کی بات سے پہلے میں نے تمہارے بارے میں ایسا کچھ سوچا تھا میرے ذہن میں یہ خیال تک نہیں آیا  لیکن تمہاری آنکھوں میں آنسو تیرتے دیکھ کر مجھے ایسا لگا یہ کانٹے ہیں جو میرے جسم پر چبھنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں تمہارا خود کے بارے میں غلط گمان کرنا مجھے بہت برا لگا تم بتاؤ ایسا رشتہ جس میں محبت نا ہوتے ہوئے بھی ناتہ ہو کیا وہاں پر ایسا ہوسکتا ہے اور جہاں تک تمہاری بات ہے تو جو انسان مجھے خوش رکھنے کے لیے مجھے دکھ سے بچانے کے لیے اپنی زندگی میں سارے دکھ لانے کے لیے تیار ہے سب غموں کو برداشت کررہا ہے کہ مجھے کوئی غم نا ملے وہ کبھی مجھے دکھ دے سکتا ہے !!؛ نہیں نا - ضحی نے کہا
میں نہیں چاہتا میں تمہاری خوشیاں ختم کرنے کا باعث بنوں - سعد نے کہا
اور اگر میں تم سے یہ کہوں کہ میری خوشی تم ہو تو - ضحی کے منہ سے یہ جملہ خود ہی ادا ہوگیا
میں مر جاؤنگا - سعد نے بے بسی سے کیا
بس اچھا !!! میں ہر بات سن رہی ہوں اور اچھے سے اسکا جواب دے رہی ہوں تو اسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں ہر بات برداشت کرلونگی - ضحی نے سعد کی بات سنی تو اسے بہت زیادہ غصہ آیا اور وہ اٹھ کر وہاں سے جانے لگی
اچھا سوری ضحی سنو ضحی ... - سعد اسے پکارنے لگا لیکن وہ پیر پٹخ کر وہاں سے چلی گئی اور سعد بھی اس کے پیچھے آگیا
-------------------
ضحی جب حنین لوگوں کے پاس پہنچی (جہاں موحد اور ارحم کے علاؤہ سب موجود تھے وہ دونوں ابھی کسی کام کے لیے گئے تھے) تو اسے اتنے غصے میں دیکھ کر المان کی زبان میں کجھلی ہوئی
ضحی سعد نے کھانے میں کاکروچ پیش کردیا تھا کیا - المان بولا
المان آپ چپ ہونا پسند کریں گے یا میں اپنے طریقے سے چپ کرواؤ - ضحی نے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا
اتنے میں سعد بھی آگیا
سعد اتنا غصہ کیوں دلایا ہے تو نے ضحی کو - المان نے سعد کو دیکھتے ہی پوچھا
کچھ نہیں کیا میں نے - سعد نے المان سے کہا
ہاں جناب کچھ کرتے ہی کہاں ہے شریف جو ہے اتنے - ضحی نے کہا
واہ ابھی سے شادی شدہ زندگی ہو انجوائے کررہے ہو - المان نے کہا
المان میرا دماغ بہت خراب ہوگیا ہے مزید نا کرو خراب - ضحی بول کر وہاں سے چل دی
سعد بھی اس کے پیچھے گیا
اچھا بابا سوری کان پکڑ کی آئندہ نہیں ہوگا ایسا - سعد نے واقعی کان پکڑ لیے
آئندہ ہوا نا ایسے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا - ضحی نے کہا
وہ تو ویسے بھی نہیں ہے - سعد بولا
کچھ دیر بعد سب اپنی کلاس میں چلے گئے
---------------
ارسل بھی کچھ دنوں میں آگیا اور بہت ہی شرافت سے موحد کے وعدے کے تکمیل تک پہنچنے کے انتظار میں تھا اور وہ  عائلہ سے ملنے بھی نہیں گیا
دل ہی دل میں اپنا ٹائم آئے گا کہہ کر خود کو تسلی دیتا رہا

محبتوں کا دریا ✅Wo Geschichten leben. Entdecke jetzt