Episode ~3 ✔

Magsimula sa umpisa
                                    

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زمان مصطفیٰ کے گھر کی جانب آؤ تو یہاں شایان کی جبریل سے الگ کلاس لگی ہوئی تھی، سب ہی ہادی کیلئے پریشان تھے۔ وہ ہادی كو بہت سمجھاتا تھا مگر وہ کسی کی نہیں سنتا تھا اِس معاملے میں وہ ہمیشہ کوئی نا کوئی دلیل دے کر چُپ كرا دیتا تھا۔
زمان صاحب اور باقی بھائی الگ ہادی کے لئے دعائے خیر میں لگے ہؤئے تھے، سب ہی اِس کے لیے پریشان تھے۔
"تم مجھے بتا نہیں سکتے تھے ہادی ایم۔این-اے کے بیٹے کے خلاف پولیس مقابلہ کرنے والا ہے۔"
جبریل بھی كب سے ہادی کا نمبر ٹرائی كر رہا تھا جو مسلسل آف تھا۔ اُس نے غصے میں موبائل صوفے پہ پھینکتے ہؤئے جارِحانَہ انداز میں شایان سے پوچھا تھا۔
"بھائی یقین کریں میں خود انجان تھا یہ تو مجھے ابھی کال آئی اور پتا چلا کہ اُس گھر پر ایم۔این۔اے بختیار شاہ کے بیٹے کا قبضہ تھا۔"
شایان الگ پریشان اور شرمندہ نظر آ رہا تھا اُس كو بھی ہادی اتنا ہی پیارا تھا جتنا سب كو اور شایان کا تو اُس سے دُہرا رشتہ بھی تھا۔
"اب تمہاری شرمندگی سے کیا ہو گا؟۔۔۔ تم بتا دیتے تو شاید میں اُسے اس کیس سے پیچھے ہو جانے پہ مجبور كر لیتا۔"
"شایان کہنا چاہتا تھا کہ بھائی اللہ کی زات کے سِوا کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو اُن کو اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹا دے، مگر صورتحال دیکھ کر وہ کہہ نا سکا۔"
جبریل کی الگ جان نکل رہی تھی اور جان نکلتی بھی کیسے نہ اِس کا جان سے عزیز دوست اور بھائی پتا نہیں اِس وقت کس حالت میں تھا کوئی رابطہ بھی نہیں ہو پا رہا تھا اور نیوز کے مطابق حملہ بھی اُسی پہ ہوا تھا، سب کی زُبان پہ ایک ہی دعا تھی کہ وہ اور اُس کی ٹیم سب خیر سے ہو۔
اکثر لوگ اپنے پیاروں کیلئے دُعا کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے پیاروں کے ساتھ دوسروں کے پیارے بھی ہیں جو اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر آپ کی جان کی حفاظت کر رہے ہیں، تو جب اپنے پیاروں کی دُعا کیلئے ہاتھ اُٹھائیں تو ساتھ میں دوسروں کے پیاروں کیلئے بھی دُعا کر دیا کریں یقین جانئے اس میں آپ کے پیسے بالکل نہیں لگیں گے، مگر کیا پتا اللہ کس کی دُعا سے کس کے نصیب کھول دے اسی لیے دُعا کرتے رہا کریں یہ مفت تحفہ ہوتا ہے جو کسی کو بھی، کسج بھی وقت دیا جا سکتا ہے۔
شایان کا موبائل بجا تھا۔ اُس نے نکال کے دیکھا تو سلیمان صاحب کا فون تھا۔ اُس نے پریشانی سے جبریل کی جانب دیکھا۔
جس نے اسے اصل صورتحال بتانے سے منع كر کے تسلی دینے كو کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امایہ كو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ خبر وہ شفاء كو کیسے پہنچائے کہ شفاء کی سعدان کی طرف پریشانی غلط نہیں تھی، وہ اُس کا وہم نہیں تھا۔ ابھی ابھی عزیز نیازی کا فون آیا تھا۔ جس میں سعدان کی موت کی اطلاع دی گئی تھی۔
امایہ پریشان تھی کہ کیسے بتائے مگر بتانا تو تھا اور یہ ہمت کسی اور کو نہیں اِسی كو کرنی تھی۔
شفاء کھڑکی سے سر ٹکائے باہر دیکھتے ہوئے اپنی سوچوں میں گُم تھی۔ اُس کے شفاف چہرے پر کچھ نہ جانتے ہؤئے بھی عجیب سا ملال اور پریشانی تھی، شاید اسی کو خون کی کِشش کہتے ہیں۔ جس میں سات سمندر پار لوگوں کو بھی آپس میں جوڑ کر رکھنے کی طاقت ہوتی ہے۔
"شفاء!۔۔۔"
امایہ نے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ كر اسے بہت ہمت سے متوجہ کیا تھا۔
"ہوں؟۔۔۔" وہ چونکی
"شفاء جو کچھ میں تمہیں کہنے جا رہی ہوں وہ تمہیں بہت حوصلے سے سننا ہو گا۔" اُس نے تہمید باندھی۔
"کیا بات ہے مایا تمہاری باتوں سے مجھے ڈر لگ رہا ہے۔"
شفاء اِس کی تہمید باندھنے کے انداز پہ اُلجھ سی گئی۔
امایہ نے اپنے خشک ہونٹوں پہ زُبان پھیر كر انہیں تر کرنے کی کوشش کی۔
"شفاء ہمیں ابھی اور اسی وقت گاؤں کے لیے نکلنا ہے۔ وہ۔۔۔۔ سعدد۔۔۔ وہ۔۔۔ سعدان بھائی کا مرڈر ہو گیا ہے۔"
کہتے ہی اُس نے رُکی ہوئی سانس بحال کی۔ اُس کی آنکھوں سے کب کے رُکے آنسوؤں نے بند توڑ کے گرنا شروع كیا تھا۔ امایہ کا کوئی بھائی نہ تھا۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی اور ماں بھی پیدا کرتے ہی اسے تنہا كر کے خود دُنیا کی زندگی سے آزاد ہو کے جا چکی تھی مگر سعدان كو دیکھ كر اسے ہمیشہ ایک بھائی کا احساس ہوتا تھا سعدان نے اسے بھی ہمیشہ چھوٹی بہنوں کی طرح سمجھا تھا اور ہمیشہ مل کے سر پہ پیار دے کے بھائی کی شفقت کا احساس دلایا تھا۔
جبکہ اس کی بات سن کر شفاء کے کانوں میں جیسے کسی نے پگھلا ہوا سیسہ انڈیلا تھا۔ اُس نے ایک دم امایہ سے اپنے ہاتھ چھڑوائے اور اُسے پڑے دھکیلا۔
"کیا بکواس ہے مایا۔۔۔ مجھے ایسا مذاق قطعی نہیں پسند اور یہ تم جانتی ہو۔"
"شفاء یہ مذاق نہیں ہے یہی سچ ہے۔ بھائی اب ہم میں نہیں رہے۔"
یہ کہتے ہؤئے امایہ کے رونے میں اور بھی روانی آ گئی تھی۔
"کہہ دو کہ۔۔ کک۔۔۔ کہ ت۔۔ تم جھوٹ بول رہی ہو۔" کہتے کہتے وہ زمین پہ گڑتی چلے گئی تھی۔
اُس کی آواز میں لڑکھراہٹ واضح تھی، امایہ كو اُس پہ ترس آ رہا تھا مگر وہ مجبور تھی۔
"کاش کہ یہ واقعی ایک مذاق ہی ہوتا۔"
شفاء كو سمبھالنا امایہ کے لیے بہت مشکل تھا۔
"اٹھو ہمیں گاؤں جانا ہے۔" کچھ لمحے تک جب شفاء نے کوئی حرکت نہ کی اور ایسے ہی بیٹھی رہی تو امایہ نے اسے بڑی طرح جنجھوڑا۔
شفاء کے پاؤوں کے نیچے سے زمین کھسک چکی تھی اُس کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔
اُس کے کانوں میں امایہ کا کہا ہوا جملہ گونج رہا تھا اور زبان پہ بےتاثر انداز میں ایک ہی بات رواں تھی۔
"بھائی چلے گئے، وہ مجھے چھوڑ کے چلے گئے۔۔۔ وہ اپنی شفاء کو چھوڑ کے چلے گئے۔۔۔"
وہ رونا چاہتی تھی مگر رُو نہیں پا رہی تھی، وہ چیخنا چاہتی تھی مگر چیخ نہیں پا رہی تھی، وہ سب کچھ تہس نہس كر دینا چاہتی تھی مگر خود میں ہمت نہیں پا رہی تھی۔
امایہ نے كب اُس کا بیگ پیک کیا اُس كو کپڑے بدلنے کا کہا وہ کچھ نہیں جانتی تھی۔اُس کے ذہن میں جسے کوئی فلم چل رہی تھی۔
" شفاء! ۔۔۔"
"شفاء! ۔۔۔"
سعدان آفیس سے آ کر مسلسل اِسے پکارے جا رہا تھا۔ وہ جو کچن میں کام کر رہی تھی زچ ہو کر باہر کو آئی۔
"اوہو بھائی کیا مسئلہ ہو گیا ہے جو چیخی جا رہے ہو؟۔۔۔" کچن سے نکلتے اُس نے ہاتھ میں سالن والا چمچہ ایسے ہی پکڑ رکھا تھا۔
"اِسے رکھ کر اِدھر آؤ اور یہ دیکھو میں تمہارے لئے کیا لایا ہوں۔" اُس نے مخملی ڈبہ شفاء کے آگے کیا تھا۔ سالن والا چمچہ ایک طرف رکھ کر شفاء نے اُسے احتیاط سے کھولا۔ وہ گولڈ کی ایک باریک سی چین تھی جس میں نازک سا گول لاکٹ لٹک رہا تھا جو نہایت ہی نفیس لگ رہا تھا۔
"واؤ!۔۔۔ بھائی اِٹس جسٹ بیوٹیفُل!۔۔۔ مگر نہ تو آج میرا برتھ ڈے ہے نہ ہی رزلٹ۔۔۔ پھر اس عنایت کس خوشی میں؟۔۔۔"
"کیونکہ آج مجھے میری پہلی تنخواہ ملی ہے۔ اور یہ میں اپنی بہن کے لئے اپنی فرسٹ سیلری سے لایا ہوں۔" شفاء کے کنفیوژ سے چہرے پہ سعدان کی بات سے ایک دلکش مسکراہٹ در آئی تھی، جس پہ سعدان نے شفاء کو بری محبت سے اپنے ساتھ لگایا اور اس کے گردن میں پہنی چین کی تعریف کرنے لگا۔
امایہ نے شفاء كو گاڑی میں بیٹھنے کا کہا تھا مگر وہ تو کہیں اور ہی گُم تھی۔
"شفاء بیٹا ہاسٹل میں اپنا بہت خیال رکھنا کوئی بھی کام ہو مجھے فوراً فون کیا کرنا۔ اور اگر دل نہ لگے تو مجھے فوراََ بتا دینا میں تمہیں ہاسٹل سے واپس گھر لے جاؤں گا۔" یہ شفاء کا ہاسٹل میں پہلا دن تھا۔ اور اُس کے نروس چہرے کو دیکھ کر سعدان فوراََ سے اِسے واپس لے جانے کا بہانا ملا تھا۔
"اللہ کا نام لیں بھائی۔۔۔" اُس نے نروس پن چھپاتے ہوئے کوفت سے ماتھا پیٹا۔
"اللہ اللہ کر کے تو دادا جان سے پرمیشن ملی ہے اور آپ ابھی سے واپسی کی باتیں کر لیں۔"
عزیز نیازی کی گاڑی اب گاؤں کے جانب رواں تھی۔
"شفاء میں کوشش کروں گا کہ تمہیں جلدی لینے آؤں۔ پھر ہم دونوں بہن بھائی مل کر دادا جان کو سرپرائز دیں گے۔"
"شفاء یار اٹھو نا پلیز۔۔۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے یار کباب فرائی كر دو ساتھ میں چائے بھی بنا دو پلیز میری پیاری سی بہن نہیں۔۔ اُٹھ جاؤ نا!۔۔۔" وہ اس کے سر پہ کھڑا اسے زور زور سے ہلا کے جگا رہا تھا۔
"بھائی یہ کونسا وقت ہے کھانے کا رات کے تِین بج رہے ہیں مجھے سونے دیں۔"
شفاء نے رضائی واپس منہ پہ لیتے بدمزا ہو کر کہا۔
"یار پلیز بنا دو نا مجھے بھوک لگی ہے کل بہت ضروری کیس کی ہیرنگ ہے۔ میں نے ابھی کیس مزید سٹڈی کرنا ہے۔" اس کے بار بار چارو نا چار اُسے منہ بنا کر اٹھنا ہی پڑا تھا۔
عزیز نیازی پیچھے بیٹھی شفاء كو تسلی دینے کی کوشش كر رہے تھے، مگر اس کا انداز بے تاثر اور سپاٹ تھا۔ اُس کی حسیات جیسے مفلوج ہو چکی تھیں۔
"شفاء اپنا بہت خیال رکھنا بِلا ضرورت کہیں مت جانا۔"
گاڑی اب ان کے گاؤں کی حدود میں داخل ہو رہی تھی۔ شفاء نے سامنے باغ کی جانب دیکھا جہاں اِس کا پورا بچپن گزرا تھا۔
سعدان چھوٹی سی شفاء کا ہاتھ تھامے باغ میں لئے اِسے گھوم رہا تھا، وہ دونوں ساتھ ساتھ کچھ گُنگُنا بھی رہے تھے۔
ہم پھول ہیں، اِس چمن کے۔
ہم خوشبو ہیں، ان پھولوں کی۔
ہم جگنو جیسے چمکتے ہیں۔
ہم بارش جیسے برستے ہیں۔
اِس نے ساکت نظروں سے نظروں سے اوجھل ہوتے باغ کی جانب دیکھا۔ سعدان اِس كو بہت دور جاتے نظر آیا تھا۔ بہت دور، جہاں سے واپسی ناممکن تھی۔
گاڑی ابراہیم الہیٰ کی لال حویلی کے آگے ایک جھٹکے سے رُکی تھی۔
"شفاء ہم دادا جان كو اِس بار ایک دم سے گاؤں آ کے سرپرائز دیں گے۔" حویلی میں قدم رکھتے یہ فقرہ ایک بار پھر اِس کے کانوں میں گونجا تھا۔
آہ سرپرائز۔۔۔۔ یہ سرپرائز ہی تو دیا تھا سعدان نے۔۔۔ اور وہ بھی ایسا جو دادا جان اور شفاء کبھی نہ بھولنے والے تھے۔ یہ ایسا سرپرائز تھا جو شفاء کی مسکان اور حویلی کی رونقیں دونوں اپنے ساتھ ہی لے گیا تھا۔
اس كو دیکھ کر گاؤں کی عورتیں اس کے پاس آئیں تھیں اور آگے بڑھ بڑھ کر اس کو گلے لگا كر پیار كر رہی تھیں، کوئی اسے دلاسہ دے رہا تھا تو کوئی اسے جھنجوڑ کر ہوش دلا رہا تھا، مگر وہ تو بس اپنے بھائی کے پاس بیٹھی اُس کے بےجان وجود كو دیکھے جا رہی تھی۔
وہ چاہتی تھی وہ اپنے بھائی كو پکڑے اُس کے ہاتھوں كو چومے جن ہاتھوں كو پکڑ کے اُس نے چلنا سیکھا تھا۔ بچے ماں باپ کی گود میں پروان چرتے ہیں۔ وہ اپنے بھائی اور دادا کی گود میں کھیلی اور بڑی ہوئی تھی، وہ ان ہاتھوں كو پکڑنا چاہتی تھی مگر ہمت نہیں پا رہی تھی۔ وہ اپنے بھائی كو اِس میٹھی نیند سے جگانا چاہتی تھی مگر جگا نہیں پا رہی تھی۔ اور جگاتی بھی تو کیسے وہ تو اب ابدی نیند سو چکا تھا، ہمیشہ کے لیے وہاں چلا گیا تھا جہاں پہ سعدان جیسے لوگوں کے لئے اللہ نے سکون ہی سکون رکھا ہے۔
وہ سعدان کے چہرے كو دیکھتے جیسے پِھر سے کہیں کھو سی گئی تھی۔
"شفاء' شفاء!۔۔۔ پلیز میرے کپڑے پریس كر دو مجھے لیٹ ہو رہی ہے۔" سعدان اپنے کپڑے پکڑے شفاء کے ترلے لے رہا تھا مگر مقابل پہ فرق ہی نہ پر رہا تھا۔ وہ آرام سے صوفے پہ بیٹھی ریموٹ پکڑے ٹی۔وی پہ چینلز بدل رہی تھی۔
"دادا جان' پلیز اس سے آپ ہی کہیں نا یہ کپڑے پریس کر دے۔ مجھے دیر ہو رہی ہے۔"
"کیا ہے بھائی میں نہیں كر رہی خود ہی کرو۔"
"یار پلیز كر دو نا پلیز۔۔۔ پلیز۔۔۔ پلیز۔۔۔ آتے ہوئے پکا تمہاری فیورٹ والی آئس کریم لیتے ہوئے آؤنگا۔" آئسکریم کی لالچ پہ اُس نے ناچاہتے ہوئے بھی کپڑے پکڑے اور کمرے کی جانب چلے گئی، مگر جاتے جاتے وہ سنائی کرنا نہ بھولی تھی۔
"دادا جان جلدی سے شادی کرائیں اپنے پوتے کی۔ تنگ آ گئی ہوں میں اِن کے کاموں سے، جلدی سے بیوی لائیں ان کی تا کہ میری تو جان چھوٹے۔"
اور اب چُھوٹ گئی تھی شفاء کی جان۔۔۔ اس کے ہر کام سے، کوئی بتاتا تو صحیح کہ اِس بہن کو اپنے بھائی سے ترلے کرانا کتنا پسند تھا۔ وہ تو جان بوجھ کر ایسا کرتی تھی۔ وہ سعدان كو اُٹھا کر کہنا چاہتی تھی کہ اُٹھو مجھے کام دو میں كروں، مگر اب سعدان کوئی کام نہیں دینے والا تھا۔ وہ اس کو اپنے کاموں سے ہمیشہ کی چُھٹی دے کر جا چکا تھا۔ کسی نے شفاء كو بازوؤں سے تھام کر زور سے جھنجھوڑا تھا۔
"شفاء ہوش کرو۔ آخری بار اپنے بھائی كو دیکھ لو پِھر یہ چہرہ کبھی نہیں دِکھے گا، جا رہا ہے وہ بہت دور، کبھی واپس نہ آنے کے لئے غور سے دیکھ لو اِس چہرے کو اور ہمیشہ کے لئے اپنی یادوں میں قید کر لو۔۔۔"
"کچھ آدمی آگے آئے تھے تاکہ میت كو لے جا سکیں۔ ایسے میں شفاء كو جیسے امایہ کی بات نے ہوش دلایا تھا۔"
"نہیں۔۔۔ نہیں، کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا میرے بھائی كو، کوئی نہیں جگائے گا اِن کو۔" وہ پاس کھڑے آدمیوں کو کہتی عورتوں کی جانب پلٹی تھی۔
"اور آپ لوگ۔۔۔ کیوں شور کر رہی ہیں ایسے؟۔۔۔ دیکھ نہیں رہے بھائی سو رہا ہے۔ وہ کتنے دن کا تھکا ہوا اب جا کر سکون کی نیند سویا ہے۔ آپ لوگوں کی آوازیں اُس کی نیند میں مخل پیدا کریں گی۔ سونے دیں اُسے اُس کی نیند خراب نہ کریں۔"
وہ سب کو اونچی آواز میں خبردار کرتی اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔ اُسے سنبھالنا مشکل سے مشکل تر ہو گیا تھا۔ عزیز نیازی کے اشارے پہ لوگ آگے بڑھے تھے۔ ایسے میں آس پڑوس کی عورتیں بھی آگے بڑھ کر امایہ کے ساتھ شفاء کو سنبھالنے کی کوششیں کر رہی تھیں۔ اُس کی چیخیں ہر کسی کا دِل چِیر رہی تھیں۔
ہر کوئی ان بہن بھائیوں کی محبت سے واقف تھا ان کے درمیان دوستی اور محبت کی مثالیں ہر کوئی دیتا تھا۔ مگر كون جانتا تھا کے اِس محبت کی عمر اتنی چھوٹی سی ہو گی۔
کچھ لوگ آگے آئے تھے اور کلمہَ شہادت کی صدا بلند کرتے سعدان كو لے گئے تھے اُس کی اُس آرام گاہ کی جانب جہاں اُس نے تا قیامت رہنا تھا۔
جبکہ شفاء اپنے بھائی كو جاتے دیکھ كر روتے روتے ہی امایہ کے بازوؤں میں جھول گئی تھی۔

Rasam E Wafa ✔️Tahanan ng mga kuwento. Tumuklas ngayon