Episode 8 ✔

1.3K 100 12
                                    

رسمِ وفا


قسط نمبر : ٨

This Episode has been edited. If u find any more mistake or something else in it, let me know 😘♥️

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیم

جانے سے پہلے، وہ چاہتا تھا کہ کسی بھی طرح بابا جان اور اپنے درمیان حائل اِس برف کی دیوار کو پگھلا سکے۔ جب وہ زمان مصطفیٰ کے کمرے میں پہنچا۔ وہ ایزی چیئر پہ بیٹھے کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے۔ جبریل قدم قدم چلتا ان کے قدموں میں آ کر بیٹھ گیا مگر وہ پھر بھی لاتعلق سے کتاب میں ہی محو رہے، اُنہیں متوجہ کرنے کے لئے جبریل نے اُن کے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھا۔ جس پہ انہوں نے کتاب پر سے نظر اُٹھا کر اپنی جوان اولاد کو دیکھا اور کچھ لمحے یونہی دیکھتے رہے۔ انہوں نے اِسے اپنے پاس پڑی کرسی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا، مگر جبریل وہیں چہرہ جھکائے ان کے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھے بیٹھا رہا۔
"کیا بات ہے جبریل مصطفیٰ؟۔۔۔" اندازِ تخاطب پہ جبریل کا دل ڈوبا تھا۔ اُس کا جُھکا سر مزید جُھک گیا۔
یہ جبریل کی بچپن کی عادت تھی، بچپن میں بھی جب کسی بات پہ شرمندہ ہوتا ایسے ہی زمان مصطفیٰ کے پاس آ کر بیٹھ جاتا، آج بھی وہ زمان مصطفیٰ کو اٹھارہ سالہ جبریل ہی لگا تھا، جو اپنی ماں کے چلے جانے پہ اپنے آنسوؤں پہ اپنے باپ کے سامنے بند باندھنے کی ناكام کوشش کر رہا تھا۔
"کیا بات ہے جبریل؟۔۔۔" زمان مصطفیٰ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس بار تھوڑا نرمی سے پوچھا۔
"آئی ایم سوری بابا جان!۔۔۔ مجھے معاف کردیں۔ میں یوں آپ کو ناراض چھوڑ کر نہیں جا سکتا، پلیز مجھے معاف کر دیں۔"
اس نے اپنا سر ان کے گھٹنوں پہ ہی رکھ دیا۔ آخر باپ کا دل تھا۔ اسے یوں ریکھ کر زمان مصطفیٰ کے دل کو کچھ ہوا تھا۔
"میں آپ سے ناراض نہیں ہوں بیٹا، بھلا والدین اپنی اولاد سے ناراض رہ سکتے ہیں اور آپ تو میرے سب سے لاڈلے، سب سے بڑے، سب سے سمجھدار اور سب سے بہادر بچے ہو ناں۔۔۔ پِھر ایسے کیوں بیٹھے ہو چلو اُٹھ کے میرے ساتھ بیٹھو۔"
زمان مصطفیٰ نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے، بڑے پیار سے کندھوں سے اٹھا کر اپنے پاس بٹھایا۔
زمان مصطفیٰ کو اِس وقت جبریل پہ ٹوٹ کے پیار آیا تھا۔ مگر وہ اُن ماں باپ میں سے نہ تھے جو لاڈ میں اپنے بچوں کی غلطیےنظر انداز کر دیں۔ بچہ چاہے کتنا بھی بڑا کیوں نا ہو جائے۔ والدین کو اُسس کی تصیح کرتے رہنے چاہیئے اور یہی زمان مصطفیٰ بھی کر رہے تھے۔
"پِھر کیا سوچا ہے جبریل تم نے؟۔۔۔"
"کس بارے میں بابا جان؟۔۔۔"
"مسز جبریل کے بارے میں میری جان۔"
ان کے لہجے میں واضح طنز شامل تھا۔ "برخوردار تم تو جا رہے ہو، تو جاتے جاتے اُس کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ کرتے جاؤ جو اِس بے رحم دُنیا میں ایک تمہارے نام کے آسرے پر ہے، جس کا اب اس دنیا میں صرف ایک ہی رشتہ ہے اور وہ تم سے ہے اور مت بھولو ہم سے بھی تمام تعلقات کی وجہ تم سے جُڑا رشتہ ہی ہے۔"
"بابا میں اِس بارے میں ابھی کچھ نہیں سوچنا چاہتا۔" اس موضوع نے جبریل کو لب بھینچنے پہ مجبور کیا تھا۔ جو زمان مصطفیٰ سے چُھپا نہ رہ سکا۔
"پِھر تم میرے پاس کیا لینے آئے ہو برخودار؟۔۔۔ اگر صرف معافی ہی لینی ہے تو جاو میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ معاف کر چکا ہوں تمہیں۔" اپنی بات کہہ کر وہ واپس مطالعے میں مصروف ہو گئے۔ زمان مصطفی کے لہجے اور بات پہ جبریل شرمندگی سے چہرہ جھکانے پہ مجبور ہوا تھا۔ وہ واقعی اپنے فعل کی معافی لینے آیا تھا اُسے درست کرنے نہیں۔۔۔
"آئی ایم سوری بابا جان میرا مقصد آپ کو ناراض کرنا بالکل نہیں تھا، میں اس دن آپ سے بہت زیادہ مس بی ہیو کر گیا تھا۔۔۔" اس کے انداز پہ زمان مصطفیٰ کا دِل پِھر سے موم ہوا۔ انہوں نے کتاب بند کر کے میز پہ رکھی۔
"جبریل میں باپ ہوں تمہارا، میں تم سے کبھی ناراض رہ ہی نہیں سکتا، جیسا کہ میں ابھی بتا چکا ہوں میں تم سے ناراض نہیں ہوں کیونکہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔۔ لیکن یہاں بات ناراضگی کی نہیں ہے بیٹا۔ رشتے نبھانے کی ہے، بس میرا دِل ٹوٹا ہے، میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے، میں نے شاید تم سے کوئی بہت بڑی چیز مانگ لی تھی، یہ پوچھے اور سوچے بغیر ہی کہ شاید تمہاری کی بھی شایان کی طرح کوئی اپنی پسند ہو، کوئی مرضی ہو مگر تم نے خود ہی یہ فیصلہ مجھ پہ چھوڑا تھا تو میں نے کر دیا۔۔۔ مگر یقین کرو میں نے تمہارے حق میں بہترین فیصلہ کرنا چاہا تھا مجھے تمہارے مس بی ہیو کا اتنا دکھ نہیں ہے جتنا اُس لڑکی جو کہ اب تمہاری بیوی، تمہاری عزت ہے، اس کی طرف تمہاری لاپرواہی اور سخت دلی دیکھ کر ہوا ہے۔ ہم بڑوں کی غلطی کی سزا تم اُس بیچاری کو کیوں دے رہے ہو، وہ بیچاری تو آگے ہی اپنوں کے جانے کے بعد بے آسرا ہو چکی ہے۔ اس نے تو ابھی اپنے اپنوں کی تازہ تازہ موت دیکھی ہے۔ اور تم اُس کو کسی اور کی موت کی سزا دے رہو۔ جس کا دور دور تک کسی بھی قصے سے تعلق نہیں۔" اب وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑکی تک گئے اور باہر دیکھنے لگے۔
"مانا کہ آج سے کئی سال پہلے جو فیصلہ کیا گیا وہ غلط تھا۔ مانا کہ اُس فیصلے نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا۔ یہ بھی مانا کہ تم آج تک اُس ٹراما سے نکل نہیں پائے۔ مگر یہ کہنا کہ وہ فیصلہ غلط تھا تو آج کا فیصلہ بھی غلط ہے یہ کہیں کی عقل مندی نہیں بیٹا۔ میں تمہارا باپ ہوں تم میری اور آمنہ کی سب سے پہلی اولاد اور سب سے بڑی خوشی ہو۔ میں تمہیں قربان کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اگر تمہیں کچھ ہو گا تو سب سے پہلے میں مر جاؤنگا۔ میں تمہارے لئے کوئی غلط فیصلہ کیسے کر سکتا ہوں۔" انہوں نے کھول بند کر کے اپنے آپ کو ٹھنڈا کرنا چاہا۔ "مجھے افسوس ہے کہ میں تمہارے لئے خود غرضی دکھاتے، اُس بچی کے ساتھ بہت زیادتی کر گیا۔ اور تمہیں پھر بھی آنکھیں بند کئے بیٹھے ہو۔"
زمان مصطفیٰ نے گہری سانس لی اور کھڑکی سے ہٹتے واپس جبریل کے ساتھ کرسی پہ آ کر بیٹھے اب کی بار رُخ اِسی کی جانب رکھا۔ اُس کا چہرہ مسلسل جھکا ہوا تھا۔ جیسے وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا، یا شاید کچھ بھی نہیں سوچ رہا تھا۔۔۔
"بیٹا میں اِس سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا مگر میں چاہتا ہوں کہ تم گھر والوں کے علاوہ گھر والی کے بارے میں بھی ضرور سوچو، اس پر بھی تمہارے کچھ فرائض ہیں اور اگر ہو سکے تو اپنے میڈیکل کے ٹاپک کے علاوہ اسلام نے بیوی کے جو حقوق مقرر کر رکھے ہیں اس پہ بھی ریسرچ کر لینا۔ بیوی کے حقوق سے مُنہ موڑنے والے شوہر کے بارے میں اللہﷻ اور اِس کے رسولﷺ نے کیا فرمایا ہے اس سب پہ غور کرنا۔ مجھے یقین ہے تم میری بات پہ کچھ نہیں، کچھ نہیں تو سوچو گے تو ضرور۔"
زمان مصطفیٰ جیسے اسی انتظار میں تھے۔ جیسے ہی لوہے کو گرم دیکھا کیل ٹھونکنے میں بھی زرا وقت نہیں لگایا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے گرم لوہے کو جس سانچے میں ڈھالو ڈھل جاتا ہے۔

Rasam E Wafa ✔️Where stories live. Discover now