Episode ~ 6 ✔

1.3K 95 12
                                    

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

”اسلام و علیکم!۔۔۔“
تیمور فاروقی نے ناشتے کے لئے میز پہ بیٹھتے اونچی آواز میں سب کو سلام کیا۔ اتنے میں ہی فاطمہ فاروقی بھی ناشتے سے بھری ٹرے لئے چلی آئیں اور ان کے ساتھ ہی کُرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئیں۔
“پاپا آپ جانتے ہیں آج آپی نے پارک میں ایک آدمی کی اتنی بِستی کی کہ بس۔۔۔“
المان نے چہرے کا زاویہ بگار کر اپنی بہن کا کارنامہ باپ کے آگے گوش فرمایا تھا۔ جس پہ تیمور فاروقی نے اپنی عینک کو آنکھوں سے تھوڑا نیچے کھِسکا کر سوالیہ نظروں سے حورعین کو دیکھا جو کھا جانے والی نظروں سے اپنے بھائی کو ہی گھورنے میں مصروف تھی۔
”حور بیٹا، یہ میں کیا سن رہا ہوں؟۔۔۔“
”ارے پاپا‘ آپ بھی کس موٹے آلُو کی باتوں میں آ رہے ہیں صرف اِس کی وجہ سے اُس دو نمبر میسی نے مجھے اتنی زور سے بال ماری تھی کہ میری کمر میں ابھی تک درد ہے اور زرا سوچیں اگر اس کے بال مارنے سے میں آپ کی بیٹی۔۔۔ آپ کی اکلوتی اور خوبصورت بیٹی مر جاتی تو؟۔۔۔“
اِس نے اکلوتی اور خوبصورت پر خاص زور لگا کر فقرہ مکمل کرتے بڑے ناز سے اپنی آنکھوں میں جہاں بھر کی معصومیت سمائے باپ کی جانب دیکھا۔
”اللہ نہ کرے۔۔۔۔ کیسی باتیں کرتی ہو۔“
تیمور فاروقی اِس کی بات پہ دہل کر رہ گئے تھے۔
لیکن پھر بھی اِس میں اُس بچارے بچے کی کیا غلطی تھی، اس نے کونسا جان بوجھ کر بال ماری تھی۔ آپ کو اتنی بدتمیزی نہیں کرنی چاہیئے تھی۔“
تجمور نے اِس کی سرزنش کرنا بھی ضروری سمجھا۔
”پاپا دیکھیں۔۔۔ نہ یہ موٹا آلُو اس کی طرف بال پھینکتا نہ وہ شخص میسی بننے کی دو نمبر کارکردگی دکھاتا اور نہ ہی مجھے بال لگتا۔“
اس نے تمام لحاظ بالائے تاک رکھتے  اپنے موٹے تازے بھائی کی عزت افزائی کی تھی جس پہ وہ اچھا خاصا تپا تھا۔
”پاپا آپ سمجھا لیں آپی کو مجھے کچھ نہ کہیں ورنہ۔۔۔“
حور نے درمیان میں ہی اس کی بات کاٹی۔
”ورنہ کیا؟۔۔۔ ہاں بولو، ورنہ کیا؟۔۔۔ کیا کر لو گے تم میرے ساتھ؟۔۔۔“
کھانے کی میز اِس وقت میدانِ جنگ کی شکل اختیار کر چکی تھی۔ اور ملک کا مشہور بزنس مین جو میٹنگ ہال میں بڑی بڑی شخصیات کو اپنی قابلیت کی بناہ پہ خاموش کرواتا تھا، اِس وقت اپنی اولاد ہی کو خاموش کرانے میں ناکام تھا اور اپنا سر تھامے بیٹھا تھا۔
”چُپ ایک دم چُپ۔“
فاطمہ جو کب سے اِس طوفانِ بدتمیزی کو کھانے کی میز پہ برداشت کئے ہوئے تھی ایک دم گرج کر بولی۔
“خاموشی سے ناشتہ کرو مانی، اور اسکول جاؤ لیٹ ہو رہی ہے تمہیں۔“
انہوں نے حورعین کو مکمل نظرانداز کیا تھا۔ کل رات سے ہی فاطمہ نے اپنے اور حور کے درمیان ایک سرد دیوار قائم کر رکھی تھی، جو حورعین اچھے سے سمجھ رہی تھی۔
مانی کے جانے کے بعد اس نے بازو پہ بندھی گھڑی پہ وقت دیکھا اور جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی، مگر جانے سے پہلے فاطمہ بیگم کو منانے کے انداز میں گال پہ بوسہ دینا نہ بھولی تھی، جس پہ وہ اپنی مسکراہٹ دبا کہ رہ گئیں۔
”اُف کیا بنے گا ان بچوں کا۔۔۔“
تیمور صاحب نے اخبار رکھتے ہوئے سرد آہ بھری۔

Rasam E Wafa ✔️Where stories live. Discover now